پیر , 27 مارچ 2023

ایک تاریخی دستاویز

(ترجمہ: علی واحدی)

امام موسیٰ صدر نے اپنے آخری سفر فرانس کے دوران ایران کے اسلامی انقلاب کے بارے میں ایک مضمون لکھا، جو 23 اگست 1978ء (یکم شهریور شمسی1357) کو "The Call of the Prophets” کے عنوان سے پیرس میں مونڈے اخبار میں شائع ہوا۔ اس مضمون کے شائع ہونے کے ایک ہفتے بعد امام موسیٰ صدر کو لیبیا کے سرکاری دورے کے دوران اغوا کر لیا گیا تھا۔ محسن کمالیان کے ترجمہ کردہ اس مضمون کا فارسی متن کتاب "انسانیت کی خدمت میں مذاہب” آپ پڑھ سکتے ہیں، اسلام ٹائمز کے اردو کے قارئین کے لئے اس مضمون کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔

امام موسیٰ صدر لکھتے ہیں: ایران کی عوامی تحریک اس تحریک سے ملتی جلتی دنیا کی تمام تحریکوں سے مختلف ہے، کیونکہ اس نے انسانی تہذیب کو ایک نیا تناظر پیش کیا ہے۔ لہٰذا یہ مناسب ہے کہ وہ تمام لوگ جو خطوں، انسانوں اور تہذیب سے متعلق مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں، وہ اس تحریک کی پیشرفت پر غور کریں۔ شاہی حکومت کی طرف سے اس پر لگائے جانے والے الزامات کے باوجود ایران کی عوامی تحریک اپنی وسعت کے ساتھ ساتھ عظیم اہداف و رجحانات اور گہری جڑوں کے علاوہ، ایک منفرد اخلاقی امنگوں کی حامل ہے۔

اس تحریک میں دائیں بازو کی قوتیں تحریک کے منظر سے غائب ہیں، حالانکہ تیل اور تیل کے مفادات اور تیل کی نمائندگی اس سے براہ راست متعلق ہے۔ بین الاقوامی بائیں بازو کی قوتیں بھی اس تحریک کے منظر سے غائب ہیں، حالانکہ ایران اور سوویت یونین کی ایک ہزار کلومیٹر سے زیادہ مشترکہ سرحد ہے۔ ایران کی کمیونسٹ پارٹی کی اس تحریک میں زیادہ موجودگی نہیں ہے، حالانکہ کمیونسٹ پارٹی اس خطے کی قدیم ترین جماعتوں میں سے ایک ہے۔ لہٰذا مقامی بائیں اور دائیں قوتوں میں سے کوئی بھی، جیسا کہ وہ دنیا کے دو قطبوں میں سے ایک کی نمائندگی کرتی ہیں، اس تحریک پر کم سے کم اثر و رسوخ بھی نہیں رکھتی۔

ایران کے عوام ان مسائل کو بخوبی جانتے ہیں کہ اس تحریک پر الزام لگانے والی شاہی حکومت نے تمام رجعتی نظاموں کو فروغ دیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ آزادی کو دبانے اور طرز حکمرانی کے قدیم طریقے اپنا کر وہ اصل میں رجعت پسندی کو ہی فروغ دے رہی ہے۔ ایران کے عوام جانتے ہیں کہ اس حکومت نے بڑی طاقتوں کو مطمئن کرنے کے لیے عوام کے مفادات کو قربان کرنے اور انہیں ایرانی عوام کی دولت فراہم کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ جب ایرانی قوم اس طرز عمل کو حکومت کے مخالفین کی اصلیت سے تشبیہ دیتی ہے تو وہ اپنے مقصد کے لیے ایثار و قربانی پر مزید مضبوط ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود کہ شاہ مخالف اس قوم کے پاس ہتھیار نہیں ہیں، لیکن یہ اپنے خون سے بہادری سے لڑ رہی ہے اور اس نے ناقابل تسخیر طاقت پیدا کرلی ہے۔

ایران کے انقلابی کسی خاص سماجی طبقے سے مخصوص نہیں ہیں، بلکہ وہ پورے ایران سے ہیں۔ ان ميں طلبہ، مزدور، پڑھے لکھے، علماء وغیرہ، سب شامل اور اس انقلاب میں سب موجود ہیں۔ ایرانی قوم مختلف نسلوں، قوموں اور زبان بولنے والوں کے ساتھ اس انقلاب میں حصہ لے رہی ہے۔ بازار، اسکول، مساجد، شہر حتیٰ کہ چھوٹے سے چھوٹے گاؤں بھی اس انقلاب میں حصہ دار ہیں۔ ان حقائق کی وجہ سے شاہی حکومت نے بائیں اور دائیں، مشرق و مغرب، عرب حکومتوں اور یہاں تک کہ فلسطینیوں پر بھی الزامات لگائے ہیں کہ وہ اس انقلابی تحریک کی حمایت کر رہے ہیں اور اس طرح حکومت حلقوں نے اس عوامی تحریک کی وسعت اور گہرائی کو تسلیم کرلیا ہے۔

شاہ کی حکومت کے مخالفین کی تحریک نے آج اپنا انفارمیشن سسٹم ڈھونڈ لیا ہے۔ ان کے قائدین کے بیانات اور ریکارڈ شدہ الفاظ خود لوگوں کے ذریعے عوام تک پہنچتے ہیں۔ اب یہ الفاظ تمام ایرانی عوام کے دلوں میں سرایت کرچکے ہیں۔ یہ کہنا درست ہے کہ اس تحریک کی اصل، ایمان و نظریات نیز واضح انسانی مقاصد اور انقلابی اخلاقیات پر استوار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس تحریک نے پورے ایران کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، البتہ ہر چیز سے بڑھ کر لوگوں کے ذہنوں میں یہ تحریک انبیاء کی دعوت کو ابھارتی ہے۔ انبیاء کی تحریک کی حقیقی دعوت یہی ہے۔ البتہ اس سے پہلے کہ وہ نام نہاد مذہبیوں کے اختلافات و انحرافات اور ان کے مفادات کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔

اس تحریک کے اہداف کو اس کے عظیم رہبر امام خمینی نے 6 مئی 1978ء کو لی موندے اخبار کے ساتھ انٹرویو میں واضح طور پر بیان کر دیا تھا۔ انہوں نے اس تحریک کی اصلیت پر زور دیتے ہوئے اس کے قومی، ثقافتی اور آزادی کے پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایران کے موجودہ واقعات آج دنیا کے سامنے کئی بنیادی نکات اٹھا رہے ہیں:
1۔ جو لوگ انسانی مسائل اور انسانی تہذیب کا خیال رکھتے ہیں، انہیں چاہیئے کہ وہ اس انوکھے انسانی تجربے کا بغور جائزہ لیں، جو اس وقت ایران میں ہو رہا ہے اور مخالفانہ اور متعصبانہ پروپیگنڈے کے خلاف اس کی حمایت کریں۔
2۔ سینتیس سال کی حکمرانی کے بعد اور تمام ترسہولتیں ہونے کے باوجود، شاہ کی حکومت تمام معاملات میں ناکام رہی ہے، یہاں تک کہ قوم کے غم و غصے سے خود کو بچانے میں بھی ناکام رہی۔ یہ سب کچھ ایسے وفت انجام پا رہا ہے، جب تیسری دنیا کا سب سے بڑا ہتھیاروں کا ذخیرہ اس حکومت کے قبضے میں ہے۔

3۔ آج ایران میں مہذب لوگوں اور معاشرے کی اخلاقی قدریں خطرے میں ہیں۔ جب تک ایران کی شاہی رجیم ترقی اور جمہوریت کے دعووں کے ساتھ جابرانہ کارروائیاں اور خونریزی اور آزادی سے محرومی کا سلسلہ جاری رکھے گی، دنیا کی وسیع تر حمایت کے باوجود ان اقدار کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔
4۔ وہ شاہی حکومت جو آج لوگوں کی بے اطمینانی کی لہروں اور بہت سے اندرونی چیلنجوں کی وجہ سے لرز رہی ہے، اتنی مضبوط تھی کہ اس نے گذشتہ کل خلیج فارس، بحر ہند اور یہاں تک کہ صومالیہ کی سلامتی کی ضمانت دینے کی بات کی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ مقبول تحریکوں سے زیادہ کوئی چیز اسے پریشان نہیں کرسکی یا نہیں کر رہی ہے۔ ان تحریکوں میں لبنان میں "تحریکِ محرومین” بھی شامل ہے، جس کی سرگرمیوں کی جھلکیاں ایران کے عوام میں بڑے پیمانے پر دیکھی جا سکتی ہیں۔

جس ناقابل بیان قتل عام نے ایران کو لہولہان کر دیا ہے اور حکومت ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے، وہ دور حاضر کے انسان، اس کے ضمیر اور اس کے احساس ذمہ داری کے لیے ایک تنبیہ ہے۔ لوگوں کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ اس قتل و غارت گری کی اصل تصویر دنیا کو دکھائیں اور اس خدمت کو انجام دینے کے ساتھ ساتھ اس شاہی حکومت کی حرکتوں سے اپنی بیزاری کا اظہار کریں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

ایران پاکستان گیس پائپ لائن کیا کبھی مکمل ہوگی؟

(رپورٹ: ایم سید) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے گزشتہ ماہ ہونے …