منگل , 23 اپریل 2024

پاکستان میں اسرائیلی لابی کی سرگرمیاں اور حکومت کی خاموشی

(تحریر: ڈاکٹر صابر ابومریم)

(حصہ اول)

برصغیر میں قائم انگریز راج سے پاکستان کی آزادی میں قائداعظم محمد علی جناح اور مصور پاکستان علامہ اقبال کی بابصیرت قیادت اور انتھک جدوجہد کے باعث نصیب ہوئی۔ یہ دونوں ہی قائدین نہ صرف برصغیر میں مسلمانوں کے حق کے لئے یعنی پاکستان کے قیام کے لئے جدوجہد میں مصروف عمل تھے بلکہ تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس زمانہ میں دنیا بھر میں مسلمانوں اور خاص طور پر مسئلہ فلسطین کے عنوان سے ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی نا انصافی یعنی فلسطین پر اسرائیل کے قیام کی سخت مخالفت کی۔ قائد اعظم محمدعلی جناح نے قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران ہی اس بات کا اعلان کیا کہ فلسطین کے عوام کے ساتھ جو نا انصافی ہو رہی ہے بر صغیر کے مسلمان اس پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ غاصب صہیونی ریاست کے اسرائیل کی روز اول سے یہ کوشش تھی کہ وہ پاکستان کے قریب ہو جائے اور پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم کرے۔

اسرائیل کی جانب سے پاکستان سے دوستی کی کوشش پہلی مرتبہ قائد اعظم محمد علی جناح کی زندگی میں ہی ہوئی تھی لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کی جانب سے بھیجے گئے ٹیلی گرام کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاکستان کے لئے سرخ لکیر کھینچ کر بتا دیا تھا کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے اور پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ مختلف سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے کہ کہ دوسری مرتبہ ایسی ہی کوشش لیاقت علی خان کے زمانہ میں سامنے آئی جب امریکہ میں ایک ڈنر پارٹی کے دوران بیگم رعنا لیاقت علی اور چند اسرائیلی عہدیداروں کو ایک ہی میز پر دیکھا گیا۔ واضح رہے کہ یہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا امریکہ کے لئے سب سے طویل المدتی دورہ تھا جس میں دو ماہ سے زائد لیاقت علی خان بیگم رعنا لیاقت علی کے ساتھ مقیم رہے۔ اس دورے میں اس وقت کے امریکی صدر ٹرومین نے لیاقت علی خان کا پر تپاک استقبال کیا تھا۔

وقت گزرتا چلا گیا اور پاکستان میں مختلف حکمرانوں نے حکومت کی۔ اس دورانیہ میں کہ جب سنہ 1967ء اور سنہ 1973ء میں عرب اسرائیل جنگوں کا آغاز ہوا تو پاکستان فلسطین کا بہت بڑا حمایتی رہا یہاں تک کہ پاکستان فضائیہ کے مایہ ناز جانبازوں اور ہوا بازوں نے شام اور اردن سے جنگی جہاز اڑا کر اسرائیلی فضائیہ کو شدید نقصان سے دوچار کیا۔ اس بات میں کسی کو کوئی شک نہیں کہ پاکستان نے ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت کی ہے۔ پاکستان میں یاسر عرفات اور ان کے بعد پی ایل او کے دیگر قائدین اور اسی طرح مزاحمتی تحریک حماس کے قائدین کو بھی ویلکم کیا گیا ہے۔ پاکستان کی فلسطین کاز کے ساتھ سنجیدگی اور حمایت نے ہی اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کو پریشان کر رکھا ہے کہ کسی طرح پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ دوستی کی میز پر بٹھا دیا جائے۔ حالانکہ پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی درج ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے لئے کام کرنے والی کمپنی کے خلاف اسرائیل کی موساد نامی بدنام زمانہ ایجنسی دہشت گردی کی کاروائی انجام دے چکی ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ امریکہ اور اسرائیل کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان میں اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے عناصر کے ساتھ قریبی تعلقات پیدا کئے جائیں تاکہ پاکستان میں اسرائیل کے لئے سرگرمیاں انجام دی جائیں۔ پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت کی اور انہی کے زمانہ میں عرب اسرائیل جنگ میں انہوں نے شام کے صدر حافظ الاسد کو کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو میں پوری آرمرڈ بریگیڈ بھیج دوں گا۔ ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی مسئلہ فلسطین سے متعلق ہمیشہ حمایت کی پالیسی کو جاری رکھا۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ بعد میں آنے والی میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومتوں میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی کچھ نہ کچھ کوشش جاری رہی یہاں تک کہ امریکہ میں بے نظیر بھٹو کی اسرائیلی عہدیداروں سے خفیہ ملاقات کا معاملہ بھی سامنے آیا تھا جس کو بعد میں مسترد کر دیا گیا تھا۔

یہاں تک کہ سنہ 1999ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کے خاتمہ کے بعد پاکستان میں فوجی آمر جنرل مشرف نے حکومت سنبھال لی اور وہ ایک بین الاقوامی دورے میں اسرائیلی وفد کے ساتھ ملاقات میں صہیونیوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے پاکستان لوٹ کر آتے ہی اپنے وزیر خارجہ خورشید قصوری کو ترکی روانہ کیا جہاں انہوں نے ترک اعلی عہدیداروں کی موجودگی میں اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملاقات کی اور پاکستان اور اسرائیل کے مابین تعلقات کے لئے عملی حکمت عملی پر گفتگو کی گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ کسی وزیر خارجہ نے براہ راست اسرائیلی وزیر خارجہ کے ساتھ تیسرے مقام پر ملاقات کی اور اس ملاقات کا ایجنڈا اسرائیل اور پاکستان کی دوستی پر مبنی تھا۔ یہ واقعہ یقینی طور پر پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کے لئے شدید خطرے کا باعث تھا اور ملک بھر میں پرویز مشرف کی اس پالیسی پر عوام میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔

بعد ازاں پرویز مشرف بھی اس بات کو درک کر چکے تھے کہ پاکستان اور اسرائیل کی دوستی کا منصوبہ زیادہ نہیں چل سکتا اور رفتہ رفتہ یہ معاملہ سرد مہری کا شکار ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ پرویز مشرف اور خورشید قصوری جیسے لوگوں نے اسرائیل کے لئے راستہ ہموار کردیا تھا۔ اب اسرائیل کے لئے آسان تھا کہ وہ پاکستان میں اپنے لئے افراد کو تیار کرسکے اور پاکستان میں اسرائیل کے لئے لابنگ کے عمل کو شروع کرے۔ اسی منصوبہ کے تحت سنہ 2008ء میں کہ جب پرویز مشرف کی حکومت کا باقاعدہ خاتمہ ہوا تو پاکستان میں کچھ ایسے گروہ یا این جی اوز جنم لے چکی تھیں کہ جن کا مقصد اور ہدف اسرائیل کی خدمت گزاری تھا۔ اس طرح کی این جی اوز کو چلانے کے لئے جو پاکستانی نژاد برطانوی شہری پہلی مرتبہ منظر عام پر آیا اس کا نام نور ڈاہری ہے۔ نور ڈاہری حیدر آباد شہر کا رہائشی ہے اور برطانوی شہریت کا حامل ہونے کی وجہ سے برطانیہ میں مقیم ہے۔

نور ڈاہری نے اسرائیل کے لئے لابنگ کرنے کے لئے سب سے پہلے پاکستان میں عام اور سادہ فہم نوجوانوں کو نشانہ بنایا اور اس زمانہ میں پروان چڑھتی ہوئی دہشت گردی کا سہارا لے کر اس دہشت گردی کی کاروائیوں کو اسلام کے ساتھ جوڑ کر پیش کرنا شروع کیا اور اسی طرح کا کام ہی جنرل مشرف نے کیا تھا۔ بعد ازاں جب اسلام پر دہشتگردی کا الزام ٹھہرایا جانے لگا تو ساتھ ساتھ سادہ ذہن لوگوں کو یہ بتایا جانے لگا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ طریقہ واردات تھا جس میں نور ڈاہری اور ان کے ساتھیوں کو خاطر خواہ کامیابی تاحال حاصل نہیں ہوئی ہے۔ بہرحال نور ڈاہری اور ان جیسے دیگر افراد جو پرویز مشرف زمانہ کی پیداوار ہیں اب تک پاکستا ن میں اسلام کو بدنام کرنے اور پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کو توڑنے میں سرگرم عمل ہیں اور ان کا مرکز برطانیہ اور امریکہ ہے۔(جاری ہے)بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …