جمعرات , 25 اپریل 2024

امام خمینیؒ عالمی قومی سیاست میں طرح نو کے بانی

(تحریر: سید ثاقب اکبر)

(حصہ دوم)

قومی اور عالمی سیاست میں امام خمینیؒ کی اجتہادی بصیرت پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور ابھی دنیا اس پر مزید کام کر رہی ہے۔ دنیا کی سینکڑوں یونیورسٹیوں میں امام خمینیؒ کے نظریات پر تحقیقی کام جاری ہے۔ گذشتہ نشست میں ولایت فقیہ کے نظریہ کی بنیاد پر امام خمینی کے تصور کے تحت جو ایک مملکت اور نظام کا ڈھانچہ تشکیل پایا، اس کے مختلف پہلو ہم نے بیان کیے تھے۔ نظام میں ایک اہم پیش رفت تب ہوئی، جب پارلیمان اور شوریٰ نگہبان کے مابین معاملات الجھنے لگے۔ اس وقت شوریٰ مصلحت نظام کا تصور ابھرا۔ پھر یہ شوریٰ معرض وجود میں آئی، جس میں پارلیمان، عدلیہ اور شوریٰ نگہبان سے منتخب ارکان شامل ہوتے ہیں۔

اس کا مقصد پارلیمان اور شوریٰ کے مابین جس قانون پر تناؤ موجود ہوتا ہے، اس کے بارے میں مملکت کی مصلحت اور قانون و آئین کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا ہے، جو ایک حتمی فیصلہ ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ مصلحت کا نظریہ اسلامی اصول فقہ سے ماخوذ ہے۔ شوری نگہبان کسی حد تک پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل سے ہم افق ہے، تاہم ایک جوہری فرق یہ ہے کہ کونسل کی رائے ایک مشورے کی حیثیت رکھتی ہے، جب کہ فقہی امور میں شوریٰ کی رائے کو قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے، جسے ہر صورت نافذ کیا جاتا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ امام خمینیؒ کے سیاسی افکار کے اثرات فقط ایران تک محدود نہیں ہیں بلکہ پوری دنیا میں محسوس کیے جاتے ہیں۔ انھی افکار نے امریکہ اور اس کے حواریوں کے استعماری مقاصد کے راستے میں دیواریں کھڑی کی ہیں۔ امریکی فوجی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ایک امریکی فوجی اڈے پر فوجی حملہ کیا گیا ہو، جو امریکہ ہی کے ایک بڑے جرم کے جواب میں تھا۔ یہ امریکی تاریخ میں ایک آزاد خارجہ پالیسی ہے، جو امریکہ کو کسی صورت قبول نہیں، لیکن ایران اس سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ ایران کی خارجہ پالیسی کے مطابق دنیا کے مظلوموں کی حمایت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کی حمایت یا کشمیر کے مظلوم لوگوں کی حمایت اسی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ البتہ ایران کے نزدیک اگر فلسطین کا مسئلہ حل ہو جائے تو دنیا کی دیگر بہت سی قوموں کے لیے آزادی اور نجات کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ میں تمام تر تبدیلیوں کا محور ایران بن چکا ہے۔ امریکہ کے لیے روز بروز اس خطے میں رہنا مشکل سے مشکل اور مہنگا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ امریکہ جو عراق کے تین ٹکڑے کرنا چاہتا تھا، ابھی تک اس ناپاک ارادے میں ناکام ہے۔ یمن کے خلاف ظالمانہ جارجیت کا ابھی تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ غیور یمنی قوم ایستادہ ہے اور اس کے وہی نعرے ہیں "لا الہ الااللہ” ، "لا شرقیہ، لاغربیہ” ، "امریکا مردہ باد” ، "اسرائیل مردہ باد۔” یہ وہی نعرے ہیں، جو ہم چالیس سال سے تہران سے سنتے آرہے ہیں۔ سیاسی اور عملی آزادی کا یہ نقش امام خمینی نے قائم کیا ہے۔ فلسطینی جو کسی وقت پتھروں اور غلیلوں سے جنگ کرتے تھے، اب وہ جدید میزائل خود بنا رہے ہیں۔ اسرائیل کمزور ہوچکا ہے، فلسطینی طاقتور ہوچکے ہیں۔ یہ کرشمہ ہے امام خمینیؒ کے مسیحائی اعجاز کا۔

بات کو اگر روس، چین، امریکہ، کوریا اور دیگر علاقوں کی طرف لے جائیں تو کہنے کو بہت کچھ ہے، کیونکہ بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔ آج کی نشست اور مضمون کو یہیں پر ختم کرتے ہیں۔ اللہ نے موقع دیا تو بات کو پھیلا کر اس کا جائزہ لیں گے۔ اللہ تعالیٰ امام خمینیؒ اور ان کے رفقاء کے درجات بلند کرے، جو آج موجود ہیں، ان کو مزید طاقت و کامیابی عطا فرمائے، شہداء کے درجات کو مزید بلند فرمائے، ان کی روحوں کو ہم سے راضی فرمائے۔ انقلاب اسلامی کی چوالیسویں سالگرہ کی مناسبت سے یہ سطور قلمبند کی گئیں۔ قارئین سے گزارش ہے کہ ناچیز کی صحت کے لیے دعا فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …