جمعرات , 18 اپریل 2024

کیا آملیٹ کو دوبارہ انڈہ بنایا جا سکتا ہے؟

وسعت اللہ خان

ننکانہ صاحب میں توہینِ مذہب کے الزام میں ہجوم کے ہاتھوں سزاِئے موت پانے والا محمد وارث محض ہندسہ نمبر نوے ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے آج تک 72 مرد اور 18 عورتیں توہینِ مذہب کے نام پر برسرِ عام مارے گئے ہیں۔ 1312 مردوں اور 107 خواتین پر توہینِ مذہب کے الزامات لگے۔

ان میں سے نوے فیصد ملزم مسلمان جبکہ الزام لگانے والے سو فیصد مسلمان تھے۔

اگر ان وارداتوں میں عقیدے کے اختلاف پر بم سے اڑانے یا بسوں کو روک کے مسافروں کو اجتماعی طور پر قتل کرنے یا بھرے اجتماع پر فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگز کے سینکڑوں واقعات کو بھی جوڑ لیا جائے تو پھر ’اچھے مسلمانوں‘ کے ہاتھوں ’برے مسلمانوں اور مشرکوں‘ کی اموات کی تعداد ہزاروں میں پہنچتی ہے۔

توہینِ مذہب کے جو انفرادی ملزم نہیں مارے گئے وہ یا تو جیل میں خود پر لگائے الزامات کی انصافی چھان بیان کے آسرے میں برسوں سے سڑ رہے ہیں، یا بے گناہ ثابت ہونے کے باوجود روپوش ہیں یا پھر ملک چھوڑ گئے ہیں۔

اب تو بدعقیدگی کے تعاقب کا دائرہ سکڑنے کے بجائے اور وسیع ہو گیا ہے۔

17 جنوری کو قومی اسمبلی نے کرمنل ایکٹ مجریہ 2021 میں ترمیم کر کے امہات المومنین، اہلِ بیت، صحابہ اور چاروں خلفاِئے راشدین کے لیے بلا واسطہ یا بالواسطہ توہین آمیز کلمات ادا کرنے کی سزا تین برس سے بڑھا کے دس برس کر دی ہے۔

مگر انسانی حقوق کے وفاقی وزیرِ ریاض حسین پیرزادہ نے وزیرِ اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ ترمیم غیر آئینی طریقے سے منظور کی گئی ہے لہذا اسے واپس لیا جائے۔

بقول منتری جی جب یہ ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا گیا تو اس وقت وہاں صرف 15 ارکانِ اسمبلی موجود تھے۔کورم پورا نہ ہونے کے باوجود یہ بل منظور قرار دے دیا گیا جو قانونی طور پر ایک ناقابلِ فہم اقدام ہے۔

اس وقت اگر ریاستی رٹ، بنیادی آئینی حقوق کے احترام، عدالتی نظام کی فعالیت کی دگرگوں صورت اور ہر گروہ کے دوسرے گروہ کے بارے میں خیالات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو بہت کم پاکستانی شہری زندہ رہنے کا حق استعمال کرنے کے مجاز ہیں۔

وہ اب تک اگر زندہ ہیں تو اس میں ریاستی گورننس کا عنصر کم اور خوش قسمتی کا دخل زیادہ ہے۔

مثلاً 22 کروڑ کی آبادی میں سے دو پونے دو لاکھ احمدی اپنے ہی ہم وطن کم و بیش تمام مذہبی گروہوں کے لاکھوں نظریاتی حامیوں کے نزدیک سیدھے سیدھے واجب القتل ہیں۔ آج وہ اس ملک کی چار دیواری میں ویسے ہی زندہ ہیں جیسے 1930 کے عشرے کے جرمنی میں کنسنٹریشن کیمپوں کی تعمیر تک یہودی زندہ تھے یا جیسے پنجرے میں بند مرغیاں باری آنے تلک زندہ رہتی ہیں۔

احمدیوں یا ان کی عبادت گاہوں پر انفرادی و اجتماعی حملوں یا موت کی ابلاغی عمر مکمل بلیک آؤٹ سے لے کر محض چند گھنٹے تک ہے۔

احمدیوں کے مقابلے میں 30 لاکھ پاکستانی مسیحی اور 40 لاکھ ہندو نسبتاً محفوظ ہیں۔ ان کی جان سے زیادہ ان کی املاک مباح سمجھی جاتی ہیں۔ ہمیں اکثر یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ ان اقلیتوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں تبدیلیِ مذہب میں لڑکوں کی نسبت زیادہ دلچسپی لیتی ہیں۔

اسی لیے ان لڑکیوں کی شادیاں بھی جھٹ سے ہو جاتی ہیں۔اور ان شادیوں کو اکثریتی سماج ، علماِ کرام ، پولیس اور عدلیہ کا پورا پورا تحفظ و نیک تمنائیں بھی حاصل ہیں۔

توہین مذہب کا الزام: ننکانہ صاحب میں مشتعل ہجوم نے پولیس حراست سے چھڑوا کر ایک شخص کو ہلاک کر دیا

احمدی برادری پر حملے: ’میں بچوں کو سکول چھوڑ کر آ رہی تھی کہ ایک بزرگ مجھے پتھر مارنے لگے‘

کرسچن برادری سے جانی درگزر کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ چونکہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نیز ذرائع ابلاغ پر ’یہود و نصاری‘ کا زیادہ کنٹرول ہے لہذا خوفِ بدنامی کے ساتھ ساتھ ٹھوس اقتصادی تادیب کا بھی خدشہ سر پر لٹکا رہتا ہے۔

جبکہ ہندو اور سکھ برادری کو اس لیے جینے کا حق دینا مجبوری ہے کیونکہ انڈیا میں مسلمانوں کے خلاف اس کا وسیع ردِ عمل ہو سکتا ہے۔ ان انڈین مسلمانوں کی زندگی ویسے ہی پچھلی ایک دہائی سے ہر اعتبار سے اجیرن ہے۔

جو گروہ پاکستان کو شرک سے مکمل پاک خالص تصوراتی ریاست بنانا چاہتے ہیں ان کا بس چلے تو 20 فیصد شیعہ بھی اعشاریہ دو فیصد احمدیوں کی طرح واجب القتل ٹھہریں۔ مگر ایک تو اہلِ تشیع کی آبادی زیادہ ہے۔ دوم یہ کہ انھیں تکنیکی و فقہی اعتبار سے واجب القتل قرار دینا اور اس بابت اکثریت کو ہم نوا بنانا قدرے مشکل ہے۔

ساتھ ساتھ علاقائی نزاکتوں نیز ایران تا لبنان بننے والے ہلال کا بھی دھیان رہتا ہے۔البتہ بڑے شہروں میں ٹارگٹ کلنگز اور کوئٹہ کے ہزارہ نژاد شیعہ پاکستانیوں کے خلاف مسلح و بارودی کاروائیوں کی شکل میں وقتا فوقتاً یہ غصہ نکلتا رہتا ہے یا پھر کسی بڑے مسئلے سے توجہ ہٹانا ہو تو ایسی اقلیتوں کو بطور پنچنگ بیگ باآسانی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

مگر مشکل یہ ہے کہ جو مسلمان گروہ احمدیوں ، اہلِ تشیع، مسیحی برادری اور ہندوؤں سے نفرت کرتے ہیں ان ہی گروہوں کو ان سے بھی زیادہ راسخ العقیدہ گروہ گمراہ سمجھ کے قابلِ گردن زدنی سمجھتے ہیں۔

جیسے طالبان پاکستانی اسٹیبلشٹنٹ اور بہت سے سنی علما (بشمول دیوبندی علما) کو واجب القتل سمجھتے ہیں۔ داعش کے حامی گروہ طالبان کو اچھا مسلمان نہیں سمجھتے اور ان کا خون مباح قرار دیتے ہیں۔

داعش اور القاعدہ ایک دوسرے کو مشکوک مسلمان سمجھتے ہیں اور باہمی تاک میں رہتے ہیں۔ اور پھر یہ سب احمدیوں، اہلِ تشیع، بریلویوں اور یہود و نصاری کو ایک پلڑے میں رکھ دیتے ہیں۔

جب تک پاکستان مسلمانوں کی اکثریتی ریاست رہے گی۔ یہ مسائل کنڈلی والے سانپ کی طرح بھیینچ بھینچ کے سانس اکھاڑتے رہیں گے۔

13 اگست 1947 تک یہ ایک مسلمان قوم کا خطہ تھا جسے 14 اگست کو ہی ایک پاکستانی قوم کا ملک بن جانا چاہیے تھا۔

وہ موقع تو ہاتھ سے نکل گیا اور اس قوم کو ایک جدید ریاست میں ڈھالنے کے بجائے بہت محنت سے زہریلے ہجوم میں ڈھال دیا گیا۔

کیا ہجوم کو پھر سے ایسی قوم بنانا ممکن ہے جو اپنی اور دوسرے کی ہلاکت و شہادت سے زیادہ اپنی اور دوسرے کی زندگی کے حق کو سراہے؟ہو سکتا ہے انڈے سے بنایا گیا آملیٹ پھر سے انڈہ بن سکے کوشش کرنے میں تو کوئی حرج نہیں۔بشکریہ بی بی سی

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …