ہفتہ , 20 اپریل 2024

ظہور اسلام اور علم الانساب

(تحریر: سید اسد عباس)

راقم نے اپنی گذشتہ تحریر میں علم انساب کی تعریف، مختلف اقوام میں علم نسب کی حفاظت اور ذیلی موضوعات پر بات کی۔ چینیوں، یہودیوں اور دیگر اقوام کی مانند عرب بھی زمانہ قدیم سے اپنے انساب کو یاد رکھتے تھے اور اپنے نسلی تفاخر کو شعر و نثر کی صورت میں بیان کرتے تھے۔ رسالت مابﷺ نے بھی انساب کی تعلیم کا حکم دیا، فرمان ختمی مرتبتﷺ ہے: "تعلموا انسابکم (لتصلوا) ارحامکم” اس حدیث کو عمدۃ الطالب: ۲، المشجر الکشاف: ۸، صحاح الاخبار :۳ نے درج کیا ہے۔ حافظ جلال الدین سیوطی نے بھی یہ حدیث اور درج ذیل حدیث اپنی کتاب الجامع الصغیرمن حدیث البشیر النذیر میں ذکر کی ہیں اور انھیں درست قرار دیا ہے۔ اسی طرح ایک حدیث درج ذیل ہے: عن ابی ہریرۃ (صح)۱۔۴۴۷ح ۳۳۱۹ "تعلموا من انسابکم ما تصلون بہ ارحامکم فان صلۃ الرحم محبۃ فی الاھل، مثراۃ فی المال، منساۃ فی الاثر”

بیہقی نے اپنی کتاب دلائل میں انس سے ایک روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم نے اپنا شجرہ نسب یوں بیان فرمایا: "انا محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ھاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرۃبن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن النضر بن کنانۃ بن حزیمۃ بن مدرکۃ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان وما افترق الناس فرقتین الا جعلنی اللہ فی خیر ھمافاخرجت من بین ابوی فلم یصبنی شئی من عھد الجاھلیۃ وخرجت من نکاح ولم اخرج من سفاح من لدن آدم حتی انتھیت الی ابی و امی فانا خیرکم نسبا و خیر کم ابا”[i] رسالت ماب سے متعدد احادیث مروی ہیں، جس میں آپ نے حضرت عدنان تک اپنا نسب بیان کرنے کو کہا اور اس سے اوپر خاموشی کا حکم دیا۔

رسالت مابﷺ سے یہ روایت بھی مروی ہے، جس کو صاحب عمدۃ نے اپنی کتاب میں تحریر کیا: "قال اخبرنا ابو طالب محمد بن احمد بن عثمن قال حدثنا ابو الحسن علی بن محمد بن لولو اذنا قال حدثنا الحسن بن احمد بن سعید السلمی قال حدثنا الحسن بن ھاشم الحرانی قال حدثنا محمد بن طلحۃ الحجبی قال حدثنا عبد اللہ ابن عمر عن زید بن ابی انیسۃ عن المنہال بن عمرو ، عن ابن عباس و عن عمر الخطاب قال : قال النبی ص کل سبب و نسب ینقطع یوم القیامۃ الا ما کان من سببی و نسبی” [ii] معجم طبرانی نے ابن عباس سے اور اربعین الموذن نیز تاریخ الخطیب کے مولفین نے اپنی اسناد کے ساتھ جابر سے روایت نقل کی ہے: "ان اللہ عزوجل جعل ذریۃ کل نبی من صلبہ خاصہ وجعل ذریتی من صلبی و صلب علی ابن ابی طالب ان کل بنی بنت ینسبون الی ابیھم الا اولاد فاطمۃفانی انا ابوھم”[iii]

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ارشاد خداوندی ہے: "وجعلنا کم شعوبا وقبائل لتعارفوا ان اکمکم عند اللہ اتقاکم”[iv] "ہم نے تم کو قوموں اور قبائل میں سے قرار دیا، تمھارے تعارف کے لیے۔ یقیناً تم میں سے اللہ کے نزدیک وہی صاحب عزت ہے، جو متقی ہے۔” پس واضح ہوا کہ انساب کے علم کا مقصد نسلی تفاخر نہیں بلکہ نسلی تعارف ہے اور اللہ کے نزدیک وہی صاحب عزت ہے جو متقی ہے۔ ایران کے معروف نسابہ آیت اللہ سید محمد روضاتی کے مطابق صحابہ اور تابعین کے درمیان علم نسب کے بہت سے ماہرین موجود تھے، تاہم پہلا شخص جس نے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور کتاب تحریر کی، ھشام بنی محمد بن صائب کوفی المعروف ابو منذر کلبی(م ۲۰۴ھ) ہیں، جو امام جعفر صادق علیہ السلام کےخاص اصحاب میں سے تھے۔

انھوں نے انساب پر تقریباً بیس کتب تحریر کیں، جن میں کتاب الجمھرہ، جمھرۃ الجمھرۃ، المنزل یا المذیل، الفرید، الملوکی معروف ہیں۔ ان کے بعد مصعب بن عبد اللہ زبیری (م۲۳۶ھ) نے کتاب النسب الکبیر اور کتاب نسب قریش لکھی۔ اس کے بعد ابو الملک بن ھشام بن ایوب بصری مصری (۲۱۳یا ۲۱۸ ھ) نے کتاب سیرۃ النبویہ، انساب حمیر و ملوک تحریر کی۔ دوسری، تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں بہت سے نسابہ نے اس علم کے حوالے سے کام کیا، جو اس وقت دسترس میں نہیں ہے۔ بعد کے ادوار میں بھی بہت سے افراد نے اس علم پر کام کیا، جن کے آثار مفقود یا خطی نسخوں کی صورت میں ہیں۔ کتاب تذکرہ نسابین میں تقریباً ایسے ایک ہزار کے قریب نسابہ کا ذکر کیا گیا ہے، جن کے آثار دسترس میں نہیں ہیں۔

اولاد ابو طالب پر لکھی جانے والی پہلی کتاب ابو الحسین یحیی (م ۲۷۷ھ) بن حسن بن جعفر بن عبید اللہ اعرج بن حسین الاصغر بن امام زین العابدین علیہ السلام کی ہے، جو عبیدلی عقیقی کے نام سے معروف ہوئے۔ ان کی کتاب نسب آل ابی طالب کے نام سے معروف ہوئی۔ انساب کی کتب عموماً سطور کی صورت میں ہوتی تھیں، جنھیں مشجر مبسوط کہتے ہیں۔ تاہم الغضون فی آل یاسین میں نسب کو شجرہ کی کیفیت میں تحریر کیا گیا۔ یہ کتاب ابو عبداللہ حسین بن احمد بن عمر بن یحی بن حسین بن زید شہید بن امام زین العابدین کی تصنیف ہے۔ بعد کی صدیوں یعنی آٹھویں، نویں اور دسویں صدی ہجری میں علم نسب اپنے اوج کو پہنچا آٹھویں صدی ہجری میں سید تاج الدین ابن معیہ نے نہایہ الطالب فی انساب ال ابی طالب تحریر کی جو بارہ جلدوں پر مشتمل تھی۔ اس کے بعد سید جمال الدین ابن عنبہ نے جو کہ ابن معیہ کے شاگرد ہیں، انہوں نے نویں صدی ہجری میں کتاب عمدۃ الطالب تالیف کی، جو کہ انساب پر مستند ترین حوالہ تصور کیا جاتا ہے۔ آیت اللہ روضاتی کے مطابق بعد کی صدیوں میں ایران اور عراق میں ترتیب پانے والی کتب میں وہ گہرائی اور تحقیق نہیں کی گئی، جو اس سے قبل جاری تھی۔ [v]

علم النسب کی کتب تیسری صدی ہجری سے موجودہ صدی تک موجود ہیں۔ ہر قبیلہ، خاندان، علاقہ پر الگ سے کتب تحریر کی گئی ہیں، جن کی تعداد ہزاروں میں ہے۔نسب نامے اور قلمی شجرے اس کے علاوہ ہیں۔ آج کے دور میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو، جو دعویٰ کرسکے کہ وہ تمام انساب کا ماہر ہے۔ یہ ضرور ہے کہ وہ شخص علم انساب کے بنیادی اصولوں کو جانتا ہوگا، نیز ابتدائی منابع اس کے زیر مطالعہ رہے ہوں اور وہ ان میں سے درست رائے کو اخذ کرنے کا ملکہ رکھتا ہوگا۔ بہرحال اس وقت علم الانساب کسی بھی دوسرے علم کی مانند اپنے اصول و ضوابط، اپنی اصطلاحات رکھتا ہے اور اس کا ہدف و مقصد کسی بھی نسب کی جانچ پرکھ کے بعد اس سے حقیقت کا اخذ کرنا ہے۔ میری نظر میں یہ علم جانچ کا وہ پیمانہ ہے، جو اگر درست ہاتھ میں ہو تو اس سے غلطی کا امکان نہیں ہوسکتا اور اگر کسی اناڑی کو مل جائے تو تعمیر ہونے والا عمود ہو یا نسب اغلاط سے پاک نہیں ہوسکتا۔ بعض لوگ مشجر کو نسابہ پر محمول کرتے ہیں۔ مشجر شجرہ نویس ہے، جو اپنی ذاتی معلومات اور واقفیت کی بنا پر کوئی شجرہ ترتیب دیتا ہے، جبکہ نسابہ اس علم کا ماہر ہے، جو اس شجرہ کی درستگی یا خطا کی تشخیص کرتا ہے۔

جیسا کہ میں نے سطور بالا میں ذکر کیا کہ انساب پر لکھی گئی کتب بہت زیادہ ہیں اور سب کا مطالعہ کرنا کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہیں ہے۔ بالکل طب کے مختلف شعبوں کی مانند یہاں کوئی کسی ایک نسب کا ماہر ہے تو کوئی کسی دوسرے نسب کا، تاہم کہا سب کو ہی نسابہ جائے گا۔ میرے ساتھ اکثر ایسا ہوا کہ عراق میں کسی ایک نسابہ سے بات کی تو اس نے نسب کی تشخیص کے لیے کسی دوسرے فرد کا حوالہ دیا، جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ علم بھی اب بہت وسعت اختیار کرچکا ہے اور اس کے ماہرین الگ الگ ہیں، تاہم طب کی مانند بنیادی منابع تقریباً ایک جیسے ہیں۔علم الانساب کی چند اہم کتب بلحاظ زمانہ درج ذیل ہیں: جمھرۃ النسب الکلبی کوفی، نسب قریش مصعب زبیری، سر السلسلۃ العلویۃ نصر بخاری، المجدی فی انساب الطالبین علی العمری العلوی، المنتقلہ الطالبیہ ناصر حسنی بن طباطبا، تہذیب الانساب محمد الحسنی، لباب الانساب ابن فندق، الفخری فی انساب الطالبین المروزی الزورقانی، شجرہ مبارکہ امام فخر الدین رازی، المتذکرہ فی انساب المطہرہ المھنا حسینی، الاصیلی فی انساب الطالبین ابن طقطقی، عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب احمد حسنی ابن عنبہ۔

انساب کے ماہرین جب کسی نسب نامے کو سامنے رکھتے ہیں تو وہ اس نسب سے متعلقہ تمام منابع پر غور و فکر کرتے ہیں۔ مثلاً سادات کا ایک گھرانہ جو کسی ایک امامزادے کی نسبت کی وجہ سے معروف ہے، ان کے نسب نامے کو جانچنے کے لیے مختلف ادوار میں تحریر کردہ قابل وثوق کتب انساب، زمانے اور علاقے کے حوالے سے قربت کی حامل تصانیف سب کو مدنظر رکھ کر کسی نسب کی صحت یا عدم صحت کے بارے کوئی رائے قائم کی جاتی ہے۔ اسی لیے علم الانساب میں جہاں نسب کو جانچنے کے لیے اصول و ضوابط موجود ہیں، وہاں نسابہ کے لیے بعض خصوصیات کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ نسابہ ہر نسابہ کی بات کو آنکھیں بند کرکے قبول نہیں کرتے۔ نسابہ کو متقی، فواحش سے اجتناب کرنے والا، صادق و امین ہونا چاہیئے۔ کوئی بھی شخص جو تعصب کا حامل ہو، خواہ کتنا ہی عالم ہو، نسابہ اس کے قول کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔

اس عنوان سے نسابہ کے مابین بعض قدیم نسابین اور ان کی تصانیف اعتماد کا درجہ حاصل کرچکی ہیں، جن کی رائے کو بہرحال فوقیت دی جاتی ہے۔ انساب کی تشخیص کے لیے انہی کتب کو بطور حوالہ پیش کیا جاتا ہے۔ جب تمام قابل وثوق نسابہ ایک فرد کے عمود کے بارے میں ایک ہی رائے دیں تو اس کو اجماع نسابین کہا جاتا ہے۔ اگر بعض نسابہ کسی عمود پر مختلف رائے رکھیں تو وہ عمود بھی اختلافی رائے کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔ نسابہ نے نسب ناموں کے مختلف درجات قرار دیئے ہیں، جن میں صحیح، ضعیف، موضوع، مجہول ، متحیر بنیادی درجے ہیں۔ صحیح نسب کو پھر تین درجات میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ متواتر، مشہور، مقبول۔

متواتر: ایسا نسب نامہ جو قابل اعتماد ماہرین نسب کے لیے تواتر کا حامل ہو اور اس پر سب کا یقین یا اجماع ہو۔
مشہور: وہ نسب نامہ جو قابل وثوق علمائے انساب کے مابین تفصیلات پر کسی اختلاف کے بغیر معروف ہو، تاہم یہ نسب متواتر نہ ہو۔
مقبول: ایسا نسب نامہ جو بعض موثق نسابہ کے نزدیک قابل قبول ہو اور ایک یا اس سے زائد اس کا انکار کریں، تاہم اثبات تفصیلی ہو اور انکار اجمالی ہو تو اثبات مقدم ہوگا، ایسا نسب مقبول النسب کے زمرے میں آتا ہے۔
۲۔ ضعیف: کی بھی تین اقسام ہیں، فیہ نظر، فیہ خلاف، فیہ قطع۔
۳۔ موضوع: المنتحل، المردود
مردود النسب: ایسا نسب جو کسی قبیلے سے ہونے کا دعویٰ کرے اور وہ ان سے نہ ہو، اس قبیلے کے علم میں جب اس کا یہ دعویٰ آئے تو انھوں نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا ہو تو ایسا کرنے والا نسابہ کے نزدیک مردود النسب ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات
[i] الجامع الصغیر۱: ۲۶۱، حدیث ۲۶۸۲، ماخوذ از جامع الانساب، روضاتی
[ii] عمدۃ ۱۵۶، ماخوذ از جامع الانساب، روضاتی
[iii] مناقب آل ابی طالب ۲: ۱۳۳ (الجامع الصغیر۱:۲۳۰) ماخوذ از جامع الانساب، روضاتی
[iv] الحجرات :۱۳
[v] آیت اللہ روضاتی، جامع الانساب، مکتبہ المحقق طباطبائی، چاپخانہ جاوید ۱۳۶۷ھ, ، ص ۹،۱۰

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …