ہفتہ , 20 اپریل 2024

یوکرین جنگ اور اسرائیل

(تحریر: مہدی فقیہ)

جنگ اور ٹکراو مختلف سیاسی کھلاڑیوں کے درمیان تعلقات کی فطرت میں شامل ہے لیکن بعض اوقات یہ ٹکراو صرف دو کھلاڑیوں میں محدود نہیں رہتا بلکہ علاقائی یا عالمی سطح تک پھیل جاتا ہے۔ روس نے 24 فروری 2022ء کے دن یوکرین کے خلاف جنگ کا آغاز کیا جسے اب ایک سال مکمل ہونے والا ہے۔ یہ جنگ بھی صرف ان دو ممالک تک محدود نہیں رہی بلکہ کئی دیگر ایسے ممالک بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ اس جنگ کا پلڑا روس کے حق میں بھاری ہو جائے۔ ان میں سے ایک اسرائیل ہے۔ یوکرین جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک روس اور اسرائیل کے درمیان تعلقات بہت سے نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیل نے دیگر اکثر ممالک کی طرح صرف یوکرین پر روس کی فوجی جارحیت کی مذمت کرنے پر ہی اکتفا کیا۔

لیکن دھیرے دھیرے روس اور اسرائیل کے درمیان تعلقات ماند پڑتے گئے اور روس حکومت نے ملک میں "یہودی ایجنسی” کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی۔ یاد رہے یہودی ایجنسی کی تشکیل 1929ء میں انجام پائی تھی جو "عالمی صیہونی تنظیم” کی ذیلی شاخ ہے اور اس کی سرگرمیوں کا بنیادی ترین مقصد دنیا بھر سے یہودیوں کو اسرائیل نقل مکانی کرنے میں سہولت فراہم کرنا ہے۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل سے روس کو نکال باہر کرنے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ روس اور چین نے بھی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا ہے جس میں عالمی عدالت انصاف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ قبضے پر قانونی رائے دے۔ جنوری میں وائٹ ہاوس کے قومی سلامتی کے مشیر جک سلیوان نے مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا۔

اس دورے میں اسرائیلی حکام سے ان کی گفتگو کا ایک مرکز یوکرین جنگ تھی۔ اسی طرح امریکی وزیر خارجہ اینتھونی بلینکن نے بھی اسرائیل دورے کے دوران اعلان کیا: "امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل سے روس کی فوجی جارحیت کے مقابلے میں یوکرین کی حمایت اور مدد کے خواہاں ہیں۔” ان واقعات کے بعد صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے فرانسیسی چینل ایل سی آئی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ یوکرین کو فولادی گنبد نامی فضائی دفاعی سسٹم فراہم کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں لیکن ساتھ ہی اس اقدام کے ممکنہ سیاسی اور فوجی نتائج کی جانچ پڑتال بھی کر رہے ہیں کیونکہ وہ روس اور اسرائیل کے درمیان مضبوط تعلقات محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکی خبررساں ادارے ایکسیوس نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ یوکرین سے متعلق اسرائیلی پالیسیوں پر نظرثانی کر رہی ہے اور ممکن ہے اسے فولادی گنبد فراہم کر دے۔

یوکرین جنگ سے متعلق اسرائیل کی فعالیت کے دو اہم اسباب درج ذیل ہیں:
1)۔ یوکرین جنگ کا یہودی ہو جانا: ویت نام جنگ کے بارے میں ایک مشہور اصطلاح پائی جاتی ہے جو "ویت نام جنگ کا ویت نامی ہو جانا” ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جنگ کے دونوں طرف صرف ویت نامی فوجیں موجود ہیں۔ یوکرین جنگ میں بھی ملتی جلتی صورتحال ہے۔ یعنی دونوں طرف یہودی فوجی موجود ہیں۔ اسرائیل میں مقیم بڑی تعداد میں یہودی روس نژاد ہیں جبکہ اسرائیل سے باہر یہودیوں کی سب سے زیادہ تعداد بھی ماسکو میں آباد ہے جو 80 ہزار کے قریب ہے۔ 1980ء کے عشرے کے آخری سالوں سے 1990ء کا عشرہ اختتام پذیر ہونے تک تقریباً 10 لاکھ یہودیوں نے سوویت یونین سے اسرائیل نقل مکانی کی تھی۔ اسی طرح یوکرین پر روس کے فوجی حملے کے بعد بھی بڑی تعداد میں روسی اور یوکرینی یہودی اسرائیل کا رخ کر چکے ہیں جن کی تعداد 30 ہزار کے قریب ہے۔

2)۔ ایرانی ساختہ ڈرونز کے بارے میں معلومات حاصل کرنا: یوکرین جنگ میں شامل ہونے، خاص طور پر فولادی گنبد نامی فضائی دفاعی سسٹم یوکرین بھیجنے کی اسرائیلی خواہش کا ایک اور اہم مقصد ان ایرانی ساختہ ڈرونز کے بارے میں معلومات حاصل کرنا ہے جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ روس یوکرین کے خلاف بروئے کار لا رہا ہے۔ اسرائیل اپنے فضائی دفاعی سسٹم کے ذریعے ان ڈرونز کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے درپے ہے۔ اسرائیل کیلئے یہ معلومات اس لئے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر چکی ہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہوں کے پاس مشابہہ ایرانی ڈرونز موجود ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔ خاص طور پر یہ کہ حال ہی میں فلسطینی مجاہدین نے خودکش ڈرونز کا تجربہ بھی کیا ہے۔

اسرائیل میں بنجمن نیتن یاہو کے دوبارہ وزیراعظم بننے کے بعد روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اس سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور مبارکباد دی۔ اسی طرح عالمی صورتحال کے تناظر میں دوطرفہ تعلقات پر بھی بات چیت انجام پائی۔ روسی صدر نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات ہمیشہ ترقی کی جانب گامزن رہیں گے۔ لیکن عمل کے میدان میں روس اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں بہتری نہیں آئی۔ روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروا نے یوکرین کو فوجی امداد فراھم کرنے پر مبنی نیتن یاہو کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا: "جو بھی یوکرین کو اسلحہ فراھم کرنا چاہتا ہے اسے جان لینا چاہئے کہ ہم اپنی مسلح افواج کو اس فوجی سازوسامان کو نشانہ بنانے کا حکم دیں گے۔”بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …