جمعرات , 30 مارچ 2023

بدلتے کنارے

(تحریر: سید تنویر حیدر)

اُفقِ عالم پر آج ہم جس نوع کی جوہری تبدیلیوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ کسی نئی دنیا کی تخلیق کا ابتداٸی خاکہ ہیں۔ منصہء شہود پر نظر آنیوالے یہ تغیرات کئی طرح کے ہیں۔ یہ موسمی بھی ہیں، سیاسی و اقتصادی بھی اور جغرافیاٸی و تزویراتی بھی۔ ان کا تعلق بالائے زمین سے بھی ہے اور زیرِزمین جنم لینے والی تبدیلیوں سے بھی۔ حال ہی میں سولہ جنوری سے بیس جنوری تک ڈیواس میں ورلڈ اکنامک فورم کا ایک اجلاس منعقد ہوا، جس میں ساٸنس دانوں نے 2023 کو Disaster Year یعنی آفت کا سال قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق دنیا Planetary Crisis کا شکار ہونے جا رہی ہے (یا ہو گٸی ہے) یعنی دنیا میں ایسی تبدیلیاں رونما ہونیوالی ہیں جو اپنے دامن میں بے وقت بارشیں، بدلتے موسم اور زلزلوں جیسی قدرتی آفات لیے ہوئے ہیں۔ پلینٹری کراٸسز اپنی تین صورتوں کیساتھ دنیا کے سامنے آ رہا ہے۔ یہ بحران آپس میں ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔

ان میں سے ایک موسمیاتی بحران ہے جو موسموں کے نظام الاوقات کو بدل کے رکھ دے گا۔ دوسرا بحران آلودگی کا بحران ہے جو انسانی زندگی پر بُری طرح سے اثر انداز ہوگا اور تیسرا بحران حیاتیاتی تنوع (Biodiversity) کے نتیجے میں جنم لینے والا بحران ہے۔ ایک اندازے کے مطابق محض فضاٸی آلودگی کے نتیجے میں ہر سال تقریباً سات ملین افراد وقت سے پہلے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ بالائے زمین ہونیوالی تبدیلیوں کے اس موسم میں زیرِزمین بھی بہت کچھ تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے، جس کے گمبھیر اثرات لوحِ زمین پر بربادی کی نئی داستان رقم کر رہے ہیں۔ ترکی اور شام میں آنیوالے حالیہ تباہ کن زلزلے نے جہاں کرہء ارض کو ہلا کر رکھ دیا ہے، وہاں اس سے دنیائے سیاست کو بھی شدید جھٹکا لگا ہے۔ اس ناگہانی آفت نے کئی عالمی منصوبہ سازوں کی آرزوٶں کے محلات کو بھی زمیں بوس کر دیا ہے۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان خلافت عثمانیہ کی بحالی کی دیرینہ خواہش کو اپنے دل کے نہاں خانے میں دفن کر کے زلزلہ زدگان کی بحالی کیلئے کمر بستہ ہو چکے ہیں۔ ابھی کچھ عرصے قبل انہوں نے ایک تقریب میں شام کے کرد علاقے میں بھرپور فوجی کاررواٸی کا عندیہ دیا تھا۔ اس کاررواٸی کو اسی ہفتے انجام پانا تھا۔ عالمی مبصرین اور خود ترک میڈیا اس حملے کو شام کے علاقے میں ترکی کا اب تک کا سب سے بڑا آپریشن قرار دے رہے تھے۔ دنیا کی کئی طاقتیں اس حملے کو بظاہر روکنے کیلئے کوشاں تھیں۔ لیکن ایک وہ طاقت جو سب دنیاوی طاقتوں پر بھاری ہے اسے یہ منظور نہیں تھا۔ اقصائے عالم میں اب تک جو بھی بڑی آفات آٸی ہیں، انہوں نے دنیا کا سیاسی جغرافیہ بھی زیر و زبر کر دیا ہے۔ طوفان نوح کی طرح کوٸی قدرتی آفت ہو یا انسانوں کا خود اپنا سجایا ہوا جنگ اول و دوم کا میدان، سب ہی دنیائے رنگ و بو کے اُجڑنے کا سبب بنے اور اپنے پیچھے اپنی بربادی کی حکایتیں چھوڑ گئے۔

ماضی قریب میں ناٸن الیون کے سانحے کے بعد کہا جانے لگا کہ دنیا اب وہ نہیں رہی جو پہلے تھی۔ اس واقعے نے بھی عالمی سیاست کے افق پر نئے منظروں کو تخلیق کیا۔ باقی دنیا تو وہی رہی لیکن اسلامی دنیا کے نقوش اپنا رنگ و روپ کھو بیٹھے۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا تقریباً سارا ملبہ ”مسلم اُمہ“ کے سر پر گرا۔ افغانستان اور عراق کو ان کے جرم ضعیفی کی سزا دی گئی اور ان پر بھرپور قسم کی جارحیت کی گئی۔ کیوں کہ ”کمزوری ہمیشہ جارحیت کو دعوت دیتی ہے“۔ اس کے کچھ عرصے بعد ”عرب بہار“ کے نام پر کئی عرب ممالک کو خزاں کے پتوں کی طرح بکھیر دیا گیا۔ مسلم ممالک کی پے در پے شکست و ریخت نے طاغوت صفت عالمی حکمرانوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ ان ممالک کی سرزمین کو اپنے لاٶ لشکر کی مدد سے مزید پامال کریں۔ اب خدشہ یہ ہے کہ جس طرح افغانستان کی تباہی کے بعد افغانستان کی سرزمین کو بڑی طاقتوں نے اپنے خونی کھیل کیلئے میدان کے طور پر استعمال کیا ہے، اسی طرح ترکی کی سرزمین کو بھی اپنے گھناونے کردار کیلئے سٹیج کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

زلزلہ زدگان سے اپنی ہمدردی جتانے کیلئے اسراٸیلی وزیر خارجہ کا دورہء ترکی (پاکستان کو ایسی کسی ہمدردی کے لاٸق نہیں سمجھا گیا) اسی کھیل کا پہلا راٶنڈ ہے۔ نت نئے بحرانوں کی کوکھ سے جنم لینے والے نئے حالات میں ہر ملک اپنا اپنا حساب درست کرنے کی فکر میں ہے، لیکن ہم ہیں کہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے افلاطون کی طرح کی کسی خیالی دنیا میں غرق ہیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

جاگنے سے بھی رُکے ہیں کبھی غم کے آنسو
عمر بھر کی ہے یہ برسات، چلو سو جاٸیں
(قتیل شفاٸی)

 

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

عمران خان بند گلی میں؟

(عادل شاہ زیب) پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب نے لاہور جلسے میں …