جمعہ , 19 اپریل 2024

اس وقت سے ڈرو جب صدر …..!

(مظہر برلاس)

زلزلے کی خوفناک تباہی کے مناظر لوگوں کو سبق دے رہے ہیں، ہمت اور حوصلہ بھی، ساتھ ہی یہ بھی بتا رہے ہیں کہ انسانوں کی ساری ترقی لمحوں میں نیست ونابود ہو سکتی ہے۔ترکیہ میں اموات 36ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں۔شام میں آٹھ ہزار سے زائد افراد موت کی وادی میں اتر چکے ہیں، زخمیوں کی تعداد ان گنت ہے، بے گھروں کا بھی شمارممکن نہیں ابھی صرف اندازے ہی لگائے جا سکتے ہیں۔ 45سیکنڈز نے ملکوں کو ہلا کر رکھ دیا یہ ساری تباہی 45سیکنڈ میں ہوئی ان 45سیکنڈز نے گھروں کے مالکوں کو بے گھر بنا دیا وقت کئی بچوں کو چند سیکنڈز میں یتیمی دے گیا، عورتیں لمحوں میں بیوہ ہو گئیں شوہر بیویوں سے محروم ہو گئے بچے مائوں سے بچھڑ گئے، 45سیکنڈز میں اچھے بھلے کاروبار اجڑ گئے، بے روز گاری اترآئی، لمحوں میں انسان محتاجی کی گود میں اتر گئے۔

آفت کی اس گھڑی میں بہادر ترک رہنما طیب اردوان لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے ’’کبھی مت بھولو کہ اندھیری رات کے بعد صبح ہے، ہر خزاں کے بعد بہار ہے، یہاں ایک عظیم قدرت غم کو خوشی اور تاریکی کو روشنی سے بدل دیتی ہے۔وہ قوت جس نے یوسف ؑ کو جیل سے نکالا اور انہیں مصر کا بادشاہ بنا دیا، وہ قوت جس نے موسیؑ کی فرعون کے محل میں پرورش کی اور پھر وہاں کا حاکم بنا دیا،وہ قوت جو ظالموں اور سرکشوں کو ذلیل کرتی ہے وہ قوت جو مظلوموں کی آہوں کو سنتی ہے اور صبر کرنے والوں کو کامیابی دیتی ہے۔اللہ سے مدد مانگو، اس کے ساتھی بن جائو ،راستہ یہی ہے اس کے علاوہ غلبہ پانے کا کوئی راستہ میں نہیں جانتا، وہ جو آخری نبی ﷺتھے، وہ جنہوں نے شبِ معراج میں تمام انبیاء کی جماعت کی امامت فرمائی،وہ جو انسانیت کے رہبر و رہنما تھے ،انہیں اور ان کے ساتھیوں کو بھوکا رکھا گیا، ان پر ظلم کیا گیا، ان کی تحقیر کی گئی ،ہجرت پر مجبور کیا گیا، معاشرتی بائیکاٹ کیا گیا، معاملہ برداشت سے باہر ہوا ،توانہیں مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، انہوں نے اپنے باوفا دوست سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ غار میں پناہ لی ، آپ ﷺ نے ان کے چہرے پر پریشانی کے آثار دیکھے تو آپ کی زبان پر وحی الٰہی کے الفاظ جاری ہو گئے کہ ’’ غم نہ کرو، اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے، خوف نہ کھائو، کمزور نہ پڑو، غمزدہ نہ ہو، پریشان نہ ہو، مایوس نہ ہو، اللّٰہ ہمارے ساتھ ہے ‘‘۔

ایسی باتیں ایک بہادر رہنما ہی کر سکتا ہے، طیب اردوان نے مشکل ترین لمحات میں اپنی قوم کا حوصلہ ٹوٹنے نہیں دیا، ترکیہ کے سربراہ نے اپنے لوگوں کے لئے اپنا سب کچھ بیچ دیا، اپنی اہلیہ کے زیورات بھی بیچ دیئے اور لوگوں سے کہا کہ آپ ایک سال تک کرائے کے گھروں میں رہیں، کرایہ حکومت ادا کرے گی، ایک سال کے دوران آپ کو حکومت نئے گھر بنا کر دے گی۔ایک طرف طیب اردوان تو دوسری طرف ہماری اشرافیہ، ہمارے ہاں بھی سیلاب آیا مگر ہمارے حکمراں طبقے میں سے کسی نے اپنی بیرونی یا اندرونی جائیدادیں فروخت نہیں کیں، ہمارےلٹیروں میں سے کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ ان کی بیرون ملک جائیدادیں اسی قوم کے پیسے سے بنی ہیں، ان کے بینک اکائونٹس میں سرمایہ اسی قوم کا ہے، یہ ساری لوٹ مار یہیں سے کی گئی تو یہاں لگانے میں کیا حرج تھا مگر یہ کون سوچتا ہے ، سیلاب زدگان کیلئے ہمارے حکمراں کچھ نہ کر سکے ۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا ہوں کہ ہمارے حکمراں اپنے لوگوں کیلئے کچھ نہ کر سکے، بس ان کا موازنہ دنیا کے باقی حکمرانوں سے کیسے کر سکتا ہوں اسی سوچ میں تھا کہ اچانک پتہ چلا کہ بودی سرکار آ گئے ہیں۔

آج بودی سرکار بڑے غصے میں ہیں، آتے ہی دو حکم صادر فرماتے ہیں میرے لئے کڑوے تمباکوسے حقہ تیار کرائو اور میرے سامنے بیٹھ کر میری باتیں سنو۔تھوڑی دیر میں حقہ آگیا تو بودی سرکار بولے، ’’حالات خراب ہیں لوگ بہت تنگ ہیں، مہنگائی بڑھ چکی ہے آپ کو یاد ہے کہ ایک زمانے میں ایوان صدر کی دیواروں پر کوئی رات کو لکھ جاتا کہ صدر کو رہا کرو۔ پھر وہ بندہ پکڑا گیا اور وہ صدر خودتھے، صدر فضل الٰہی کے بارے میں یہ بڑی مشہوربات ہے۔ موجودہ صدر بھی یہ کرسکتا ہے مگر یہ اس طرح نہیں کرےگا، ہو سکتا ہے آج کل صدر مملکت کادل پریشان ہو،انہیں ملک میں جاری افراتفری اچھی نہ لگتی ہو، انہیں فوج کے خلاف مہم بھی پسند نہیں، انہیں غداری کےسرٹیفکیٹ دینابھی اچھا نہیں لگتا، انہیں پکڑدھکڑ بھی پسند نہیں، ملک میں جاری بدامنی کا کھیل بھی صدر کو اچھا نہیں لگتا، چوری اور راہزنی کی وارداتیں بھی صدر مملکت کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں، انہوں نے لوگوں کو بہت سمجھایا کہ ملک کی خاطر بہت سے غلط کام نہ کرو، خلاف آئین ہونے والے کاموں نے ڈاکٹر عارف علوی کوبہت رنجیدہ کر رکھا ہے، وہ اس ملک کے آئینی سربراہ ہیں، مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں مگر ان کے خطوں پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، ان کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیا جار ہا، وہ کوئی بڑا ایکشن ہی نہ کردیں، وہ اس ملک کو نئے بحران کا شکار تو نہیں کریں گے مگر یہ ہوسکتا ہے کہ وہ لیاقت باغ سے مہنگائی کے خلاف ریلی شروع کردیں۔انہیں کوئی بھی جوائن کرسکتا ہے، عام لوگوں کے علاوہ سیاسی کارکن،وکلا، صحافی اور سماجی رہنما بھی ان کے قافلےمیں شامل ہو سکتے ہیں، ہوسکتا ہے چند دنوں میں ملک کا صدر راولپنڈی اسلام آباد کی سڑکوں پر حالات کا ماتم کرتا ہوا نظر آئے اور مہنگائی کے ڈسے ہوئے لوگوں کی بڑی تعداد ان کے ساتھ شامل ہوجائے۔ اس احتجاج میں اگربپھرے ہوئےلوگ شامل ہوگئے توپھر کیا بنے گا؟…..‘‘

میں پہلے صرف مہنگائی کا سوچ رہا تھا بودی سرکار نے توتصویر کا ایک اور ہی رُخ پیش کر دیا ہے۔ اب بھی وقت ہے ہمارے ادارے، ہماری حکومتیں سمجھ جائیں ورنہ ہماری بدنامی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ بقول غالبؔ؎بشکریہ جنگ نیوز

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …