یروشلم:اسرائیلی حکومت کی جانب سے عدلیہ کے ادارے میں اصلاحات کے خلاف دسیوں ہزار اسرائیلیوں نے پیر کو اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ حکومت کی طرف سے پیش کردہ متنازع عدالتی اصلاحات منظور ہو جاتی ہیں تو سپریم کورٹ کے فیصلوں کی وقعت کم ہوجائے گی اور پارلیمنٹ عدلیہ پر بالادست تصور ہوگی۔
عدالتی نظام میں مجوزہ ترامیم اسرائیلی پارلیمنٹ کو 120 نشستوں والی پارلیمنٹ میں 61 اراکین کی سادہ اکثریت سے سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کو کالعدم کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔اس سے عدالتی نظام اور ججوں کی تقرری کے طریقہ کار پر سیاستدانوں کی گرفت بھی مضبوط ہو گی۔
یہ مظاہرہ جس میں شرکاء کی تعداد کا تخمینہ تقریباً ایک لاکھ لگایا گیا تھا ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب حکومت نے پیر کو اس قانون کے مسودے پر جو بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنائے گئے پر ابتدائی ووٹنگ کی۔
ہفتے کو وزیر انصاف یاریو لیون کے قانون پر نظرثانی کرنے والی کمیٹی نے تجویز کی کچھ شقوں کی منظوری دے دی اور یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ بل کو پہلی رائے شماری پر کب ووٹ دیا جائے گا۔کسی بھی قانون کے موثر ہونے کے لیے اسے تین مکمل ریڈنگز کے ذریعے ووٹ دینا ضروری ہے۔
کمیٹی کے اجلاس میں جھڑپیں دیکھنے میں آئیں اور حزب اختلاف کے ارکان کو اس وقت اپنی نشستیں چھوڑنے پر مجبور کیا گیا جب وہ کمیٹی کے سربراہ سمکھا روٹمین کے ساتھ زبانی طور پر لڑ پڑے۔ تاہم سکیورٹی فورسز صورتحال پر قابو پا لیا اور اپوزیشن کے دو اراکین کو ہٹا دیا۔
بعد ازاں پیر کو اپوزیشن لیڈر سابق وزیر اعظم یائر لپیڈ نے صحافیوں کو بتایا کہ بل کی منظوری کا مطلب "اس ملک کے لیے جمہوریت کے دور کا خاتمہ” ہے۔لیپڈ نے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کو "انتہا پسند اور بدعنوان” قرار دیا۔
اسرائیلی پرچم لہراتے ہوئے مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن میں عدالتی اصلاحات کے خلاف نعرے درج تھے جن میں "اسرائیل کی جمہوریت بچاؤ” اور "پوری دنیا دیکھ رہی ہے”جیسے نعرے شامل تھے۔ اسرائیلی صدر اسحاق ہرزوگ نے ایک غیر معمولی اقدام میں اتوار کے روز اسرائیلیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عبرانی ریاست "قانونی اور سماجی تباہی کے دہانے پر ہے۔”
ہرزوگ نے نیتن یاہو پر زور دیا کہ وہ مجوزہ ترامیم کو روکیں اور کسی سمجھوتے تک پہنچنے کی امید میں اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ پہلی ریڈنگ میں بل پر ووٹ نہ دیں۔”
نیتن یاہو اور حکومت میں ان کے اتحادیوں جسے اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ دائیں بازو کے طور پر بیان کیا جاتا ہے کا کہنا ہے کہ عوامی منتخب نمائندوں اور سپریم کورٹ کے درمیان طاقت کا توازن نہ ہونے کی وجہ سے یہ ترامیم ضروری ہیں۔
حکومت وزیر انصاف کی نگرانی میں بار ایسوسی ایشن کے وکلا، ججوں اور ارکان پارلیمنٹ پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی تقرری پر خود کو موثر کنٹرول دینا چاہتی ہے۔