ماسکو:روسی میڈیا "نزاویسیمایا گزٹا” نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے حوالے سے سعودی عرب کے موقف کی تبدیلی کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ریاض، تہران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات کے خراب ہونے سے خوفزدہ ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سعودی حکام نے تمام فریقین سے ایرانی جوہری پروگرام کی بحالی کے لئے مذاکراتی میز پر واپس آنے کا مطالبہ کیا ہے۔ حالانکہ بائیڈن انتظامیہ اس موضوع پر صراحت کے ساتھ اعلان کرچکی ہے کہ وہ تہران کے خلاف عالمی شکایات کے سبب مذاکرات کی ٹیبل پر نہیں ہے۔ لیکن ریاض نے اس امر کی جانب زور دیا ہے کہ اس سلسلے میں عدم سفارتکاری کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام آئے گا۔ اس حوالے سے بین الاقوامی مسائل کے ماہر روسی تجزیہ کار "کریل سمنوف” نے روسی جریدے سے گفتگو میں کہا کہ ایرانی جوہری معاہدے کے حوالے سے ریاض کا موقف تبدیل ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاض مدتوں تہران پر پابندیوں میں اضافے اور جوہری مذاکرات پر دباو ڈالنے کا متلاشی رہا ہے اور وہ یہ سمجھتا تھا کہ اس عمل سے خطے میں ایران کی فعالیت کم ہو جائے گی۔
روسی تجزیہ کار نے سعودی عرب کے ایران کے حوالے سے موقف کی تبدیلی کے بارے میں بتایا کہ ممکن ہے کہ موقف کی یہ تبدیلی یمن کی وجہ سے ہو، تاکہ ایران حوثیوں کو سعودی عرب کے ساتھ امن معاہدوں پر دستخط کے لئے راضی کرے۔ سعودیوں کے مطابق ایران کو یمن میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے حوثیوں کو امن کے لیے قائل کرنا چاہیئے۔ اس روسی رپورٹ میں امن عمل میں یمن کی ثالثی کا بھی حوالہ دیا گیا۔
رپورٹ میں لکھا گیا کہ ہوسکتا ہے کہ ریاض اور تہران کے درمیان رابطہ ہو اور یہ روابط ہی سعودی عرب کے ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں موقف میں تبدیلی کا سبب ہوں، جیسا کہ سعودی حکام نے اس تسلسل کو ایک اچھا واقعہ قرار دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب سعودی وزیر خارجہ "فیصل بن فرحان” نے اٹھارہ فروری کو اپنی گفتگو میں ایرانی جوہری مذاکرات کی جانب اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جامع ویژن اور خلیج فارس ممالک کے تعاون کے ساتھ ایرانی جوہری معاہدے پر واپس آنا چاہتے ہیں۔