ہفتہ , 20 اپریل 2024

کیا ملک انارکی کی جانب جارہا ہے؟

(زاہد حسین)

ہمارا ملک پہلے ہی مسائل اور بحرانوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا شکار تھا مگر اب ملکی سیاست میں جو کچھ ہورہا ہے، اس نے ہمیں انارکی کی جانب دھکیل دیا ہے۔

ریاستی اداروں ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں اور نام نہاد جمہوری عمل بھی اب جمود کا شکار ہے جس سے ملک میں بے یقینی کی صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ آگے کیا ہونے والا ہے اس حوالے سے صرف اندازے ہی لگائے جاسکتے ہیں۔

اقتدار کے جاری اس کھیل میں اہم موڑ تب آیا جب پیر کو صدرِ مملکت نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا۔ صدر عارف علوی کی جانب سے انتخابات کی تاریخ دینے کے اختیار پر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعتراض کیا جس نے ان دونوں کے درمیان خیلج پیدا کی ہے۔

اس سے قبل صدرِ مملکت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ پر مشاورت کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا جس کا الیکشن کمیشن نے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ معاملہ ابھی عدالت میں ہے اس لیے اس پر مشاورت نہیں کی جاسکتی۔

جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن بھی بے یقینی کا شکار ہے اور اس نے 10 فروری کو دیے جانے والے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے کوئی واضح اشارہ بھی نہیں دیا تھا۔ اس فیصلے میں لاہور ہائی کورٹ نے آئین میں مقررہ مدت کے انتخابات کی تاریخ جلد از جلد دینے کا حکم دیا تھا۔ اس طرح اس قانونی جنگ کے ایک اور راؤنڈ کا آغاز ہوگیا ہے۔

حکومت اور الیکشن کمیشن دونوں ہی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے معاملے کو طول دینا چاہتے ہیں۔ صورتحال کو دیکھ کر یہ تاثر ملتا ہے کہ جیسے یہ سب انتخابات کے ذریعے آنے والی تبدیلی کے جمہوری عمل کو روکنے کے لیے کسی بڑے سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔

ہماری حالیہ سیاسی تاریخ میں ہمیں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جہاں 90 دنوں میں انتخابات کروانے کے آئینی مینڈیٹ کی اس طرح کھلی خلاف ورزی کی گئی ہو۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل ہوئے ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کی جانب سے اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنے کے حوالے سے کوئی اشارہ نہیں دیا گیا ہے۔

یہ بہت حیران کُن بات ہے کہ ایک ایسی حکومت جو جمہوریت کا راگ الاپتے نہیں تھکتی وہ خود ہی انتخابی عمل سے راہِ فرار اختیار کررہی ہے۔ یہ معاملہ صرف آئین کے اصولوں کے مطابق صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا نہیں ہے بلکہ یہ حکومت میں موجود اتحادی جماعتوں کے لیے بھی ضروری ہے جو حکومت کرنے کے لیے عوام کا تازہ مینڈیٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ملک کی بگڑتی ہوئی مالی صورتحال اور دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو بہانا بنانے سے حکومت کی قانونی حیثیت اور انتخابات کے امکانات کو نقصان پہنچے گا۔ نامکمل اسمبلی تمام ووٹروں کی نمائندگی کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے متعدد اراکین اسمبلی کے ڈی نوٹیفکیشن کو معطل کرنے کے فیصلے نے حکومتی اتحادیوں کی پوزیشن کو مزید متاثر کیا ہے۔

اپنی حکومت ختم ہونے کے ساتھ ہی پی ٹی آئی اراکین نے اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے طویل عرصے بعد ان استعفوں کو منظور نہیں کیا لیکن پھر اچانک ہی انہیں منظور کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ یہ اس وقت منظور کیے گئے جب پی ٹی آئی اپنے استعفے واپس لے کر قومی اسمبلی میں آنے پر غور کررہی تھی۔

پی ٹی آئی کا اسمبلی چھوڑنے کا فیصلہ پہلے ہی غیرمعقول تھا جبکہ اب اسپیکر اسمبلی کے جلدی میں لیے گئے اس فیصلے سے حکومت کی گھبراہٹ بھی عیاں ہورہی ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے ڈی نوٹیفیکیشن کو معطل کرنے کے باوجود بھی اسپیکر پی ٹی آئی اراکین کو اپنی نشستوں پر واپس آنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ یہ پوری کہانی جمہوری عمل کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اس سے یہ واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت آئینی دائرہ کار میں کام کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔

اندرونی اختلافات کا شکار اتحادی حکومت ملک کو درپیش مسائل کے انبار سے نمٹنے میں بری طرح سے ناکام ہوچکی ہے۔ ان کی تباہ کُن پالیسیوں نے ملک کو معاشی بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ ہم اس وقت سری لنکا جیسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام بحال کرنے کے لیے تاخیر سے اقدامات لینے کا آغاز کردیا گیا ہے لیکن اس بیل آؤٹ پیکج کے بحال ہونے کے حوالے سے ابھی کوئی حتمی فیصلہ بھی نہیں ہوا ہے۔

حکومت کی جانب سے لگائے گئے نئے ٹیکسوں میں جہاں غریب طبقے پر بوجھ ڈالا گیا ہے وہاں امیر طبقے کو چھوٹ بھی دی گئی ہے۔ کاروباری حضرات اور تاجر بڑی ان ٹیکسوں سے مستثنیٰ ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی غریب ترین طبقے کو سب سے زیادہ لوگوں متاثر کررہی ہے۔ اس سال کی پہلی ششماہی کے لیے اوسطاً 33 فیصد افراط زر کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس سے پاکستانی گھرانوں کی اکثریت کے متاثر ہونے کا امکان ہے جو پہلے ہی شدید مشکلات کے بوجھ تلے دبے ہیں۔

اس سے بھی تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ سخت فیصلے بھی آئی ایم ایف کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے ناکافی لگ رہے ہیں۔ ایک کمزور حکومت جس کے پاس محدود سیاسی قوت ہے اس کے لیے اس سنگین بحران کو قابو کرنا بہت دشوار ثابت ہورہا ہے۔ اکتوبر 2023ء میں ہونے والے انتخابات اور سابق وزیراعظم عمران خان کے بڑھتے ہوئے دباؤ نے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

چونکہ حکومتی مینڈیٹ کم ہوتا جارہا ہے، اسے دیکھ کر لگ رہا ہے کہ جیسے وہ کسی سہارے پر کھڑی ہے۔ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے غیرسیاسی ہونے کے دعوے کے باوجود کہیں نہ کہیں ان کے اثرات نمایاں ہیں۔ مخالفین کے خلاف بغاوت کے مقدمے بنانا حزبِ اختلاف کو دبانے اور ڈرانے کا ایک پرانا حربہ ہے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت نے ماضی کی کوتاہیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور وہ ایک بار پھر مخالفین کو دبانے کے لیے وہی روایتی ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے۔ نیب چیئرمین کے مستعفی ہونے کی بھی یہی وجہ بتائی گئی کہ جو کام حکومت ان سے کروانا چاہتی تھی وہ ان کے لیے ناقابلِ قبول تھے۔ اس سے ایک بار پھر ان الزامات کو تقویت ملی ہے کہ حکومت نیب کو مخالفین کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے۔

پنجاب کی نام نہاد نگران حکومت میں جو کچھ ہورہا ہے اس سے ان شکوک و شبہات میں اضافہ ہورہا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو ٹالنے کے لیے حکومت کسی نئے گیم پلان کی تیاری میں ہے تاکہ طویل مدتی عبوری سیٹ اپ رائج کیا جاسکے۔ فوج کی حمایت سے آنے والا اس قسم کا سیٹ اپ نہ ماضی میں کامیاب ہوا تھا اور نہ اب اس کے کامیاب ہونے کے کوئی امکانات ہیں۔ اس طرح کا کوئی بھی قدم ملک کو غیرمستحکم کرے گا جس سے اس کے اتحاد کو شدید نقصان پہنچے گا۔

تبدیل ہوتی اقتدار کی سیاست، اداروں میں ٹکراؤ کا باعث بنی ہے جس سے نظام بدحالی کا شکار ہوا ہے۔ گمان ہوتا ہے کہ جیسے ریاست مکمل تباہی کے دہانے پر ہے جبکہ سیاسی اختلافات ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ ملک کے سب سے بڑے اور طاقتور صوبے پنجاب میں کشیدگی بڑھنے کے ساتھ ہی خانہ جنگی کا خدشہ بڑھ رہا ہے۔

حالیہ بحرانوں نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بڑھتی ہوئی سیاسی تقسیم کی وجہ سے ملک میں انارکی پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ سیاسی مقابلے بازی اور تقسیم نے ریاستی اداروں کو کمزور کردیا ہے جس سے دیگر طاقتوں دخل اندازی کا موقع مل رہا ہے۔

آج ہم جس بحران کا سامنا کررہے ہیں، شاید اس نوعیت کا بحران ہماری ملکی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔ اس کے حل کے لیے سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہے۔ اپنی حکمرانی جاری رکھنے کے لیے غیرقانونی ذرائع استعمال کرنے کے بجائے پی ڈی ایم حکومت کو بڑھتی ہوئی سیاسی تفریق کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ملک کو جن مشکلات کا سامنا ہے اس کا حل انتخابات سے راہِ فرار اختیار کرنے میں ہرگز نہیں ہے۔بشکریہ ڈان نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …