بدھ , 24 اپریل 2024

پاکستان میں اسرائیل لابی کی سرگرمیاں اور حکومت کی خاموشی

(تحریر: ڈاکٹر صابر ابومریم)

(حصہ سوم)

پاکستان میں جہاں ایک طرف امریکی اور برطانوی شہریت کے حامل پاکستانی نژاد شہری اسرائیل کے لئے سرگرمیاں کرنے میں ملوث ہیں، وہاں ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی مقامی اور خاص طور پر حیران کن بات یہ ہے کہ مذہبی شخصیات بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے تیار ہیں۔ گذشتہ مقالہ جات میں جہاں انیلہ علی اور نور ڈاہری کی پاکستان میں اسرائیل کے لئے سرگرمیوں سے متعلق آگہی فراہم کی گئی ہے کہ کس طرح مذکورہ بالا شخصیات صہیونیوں کی پاکستان میں خدمت میں مصروف تھے تو دوسری جانب کچھ مذہبی لبادے میں موجود شخصیات نے بھی موقع غنیمت جان کر اسرائیل کی حمایت میں بیانات دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسا ہو ا کہ ایک نجی محفل میں مشہور معروف عالم دین مولانا محمد شیرانی جن کا تعلق جمعیت علمائے اسلام سے تھا اور شاید اب بھی ہے انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کچھ خواص کو کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں کیا عذر ہے ہمیں اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیئے۔ یہ بات نہ صرف حیرت انگیز تھی بلکہ خطرناک حد تک تھی۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مذہبی حلقوں میں بھی اس بات پر کوئی زیادہ سخت رد عمل سامنے نہیں آیا تھا۔ حالانکہ مولانا شیرانی کی گفتگو کی باقاعدہ ویڈیو بھی نشر ہوئی تھی جو سوشل میٖڈیا پر وائرل ہوئی۔ دوسرا اہم واقعہ اس وقت رونما ہوا جب مولانا شیرانی کی جماعت سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اہم عہدیدار مفتی اجمل قادری نے نہ صرف اسرائیل کی حمایت میں بیان دیا بلکہ بعد ازاں ان کے اسرائیل یاترا کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ مفتی اجمل قادری پاکستان میں مذہبی حلقہ کے واحد آدمی ہیں کہ جو اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش رہے ہیں اور اسرائیل جا چکے ہیں۔ یہاں پر پھر ایک سوال جنم لیتا ہے کہ آخر جب یہ سارے معاملات انجام پذیر ہو رہے ہوتے ہیں تو ہماری حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بے خبر نظر آتے ہیں اور ان واقعات کے رونما ہونے کے بعد بھی قانون نافذ کرنے والے ان اداروں کی جانب سے کہ جن کے کاندھوں پر ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے وہ بھی کوئی ایسا ایکشن نہیں لیتے کہ جس سے عوام تک مثبت پیغام پہنچے۔

اب سیاستدانوں کی جہاں تک بات کی جائے تو پہلے دونوں مقالہ جات میں کچھ سیاست دانوں اور سابق حکومتی عہدیداروں بشمول سابق جرنیل کا بھی ذکر آیا ہے۔ گذشتہ برس جون کے مہینہ میں سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے ڈان نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اسرائیل کے لئے نرم گوشہ دکھاتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ پاکستان کے تعلقات پر تفصیلی بات کی۔ سلیم مانڈوی والا کی گفتگو کو ڈان نیوز نے نشر کردیا اور جیسے ہی پاکستان کے عوام تک یہ ویڈیو پہنچی تو ہر طرف سے پاکستان پیپلز پارٹی کی مذمت شروع ہوگئی اور عوامی حلقوں کی جانب سے سلیم مانڈوی والا کے اسرائیل حمایت بیانات پر شدید ردعمل نے ان کو اپنا بیان واپس لینے پر مجبور کیا۔ یہاں بھی یہ بات قابل غور ہے کہ نہ تو حکومت کی جانب سے ان کیخلاف کوئی کاروائی عمل میں لائی گئی اور نہ ہی پاکستان پیپلز پارٹی نے کوئی ایکشن لیا۔ حالات اور واقعات تیزی سے بدل رہے ہیں اور آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے کہ جو براہ راست پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی خلاف ورزی پر مشتمل ہوتا ہے۔

پاکستان اپنی تاریخ کے سخت ترین دور سے گزر رہا ہے کہ ایک طرف سیاسی عدم استحکام کی صورتحال سامنے ہے تو دوسری جانب معاشی بد حالی کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں امریکی و برطانوی شہریت کے حامل پاکستانی نژاد اسرائیلی ایجنٹ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی گھناؤنی سازشوں میں مصروف عمل ہیں۔ اسرائیل کے لئے لابنگ کرنے اور راہیں ہموار کرنے کے لئے پاکستان میں بین المذاہب ہم آنگی کے پلیٹ فارمز کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے پلیٹ فارمز کے تحت چند مذہبی لبادوں میں موجود عناصر اس بات کی کوشش کر ررہے ہیں کہ پاکستان میں اسرائیل کے لئے راستہ ہموار کیا جائے اور اس پلیٹ فارم کے ذریعہ عام اور سادہ اذہان کو منحرف کرنے کا باقاعدہ کام کیا جا رہا ہے۔اس گھناؤنے کام کو انجام دینے کے لئے پاکستان میں موجود چند عیسائی رہنما بھی ملوث ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ کچھ شیعہ و سنی مولوی نما شخصیات کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں انیلہ علی نے پاکستان کا دورہ کیا اور صحافیوں کو اسرائیل جانے کی دعوت کی پیش کش کی ہے لیکن پاکستان کے غیور صحافیوں نے انیلہ علی کی دعوت اور پیش کش کو ٹھکرا دیا ہے لیکن چند کالی بھیڑیں ایسی موجود ہیں کہ جو اس پیش کش پر اپنی رال ٹپکا رہے ہیں۔

امریکی شہریت رکھنے والی پاکستانی نژاد خاتون انیلہ علی جہاں کھلے عام پاکستان میں اسرائیل کے لئے افراد کی بھرتیاں کر رہی ہیں وہاں ساتھ ساتھ پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی کے پلیٹ فارم کا سہارا لے کر صہیونیوں کے مذہبی تہواروں کو پاکستان میں منعقد کر چکی ہیں، ان تقریبات میں کوئی بھی پاکستانی مقامی یہودی شریک نہ تھا کیونکہ شاید پاکستان میں اس وقت ایک بھی مقامی یہودی موجود ہی نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ایک بھی یہودی موجود نہیں تو پھر یہودی تہوار کا انعقاد کرنا اور پھر اس میں اسرائیل کے لئے حمایت کی بات کرنا یہ سب کچھ پاکستان اور بانیان پاکستان کے نظریات اور افکار کے خلاف کھلی اور سنگین سازش ہے۔ یہ کھلے عام پاکستان کے آئین اور قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات اور افکار کی توہین ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ حکومت وقت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلسل بانی پاکستان کی توہین پر خاموش ہیں لیکن اگر کوئی حکومت یا کسی اور کے خلاف کوئی بات کرے تو فوری کاروائی عمل میں لائی جاتی ہے لیکن اگر کوئی بھی امریکی شہریت کا حامل پاکستانی نژاد پاکستان میں پاکستان کے نظریات اور بانیان پاکستان کی توہین کرے تو کوئی ایسا قانون موجود ہی نہیں ہے کہ جو ان ملک دشمن عناصر کو سزا دے سکے۔

خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان کے عوام باشعور ہیں اور اسی شعور اور آگہی سے ہی ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان واقعی سنگین حالات سے گذر رہا ہے ایک طرف بیرونی دشمن ہے کہ جو سرحدوں پر خطرہ ہے تو دوسری طرف اندرونی دشمن اور صفوں میں موجود کالی بھیڑیں کہ جن سرکاری و غیر سرکاری، سابق حکومتی شخصیات، سابق فوجی شخصیات، صحافی، دین کے لبادے میں پنہاں مولوی حضرات اور پاکستان میں موجود اقلیتی برادری کی کالی بھیڑیں شامل ہیں۔ پاکستان کے عوام کو مزید چوکنا اور ہوشیار ہوکر ان تمام سازشوں اور سازشی عناصر کا مقابلہ کرنا ہے۔ پاکستان کے عوام یقینی طور پر اپنی نظریاتی سرحدوں کے دفاع کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور بانیان پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے پاکستان میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے لئے کام کرنے والے ملک دشمن عناصر کو معاف نہیں کریں گے۔ یہی قومی فریضہ ہے کہ ہم سب مل کر وطن کی حفاظت و دفاع کے لئے اپنے اندر موجود انیلہ علی، نور ڈاہری، اور مقالہ جات میں مذکورہ تمام اسرائیلی ایجنٹوں کو بے نقاب کریں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …