(تحریر: امین محمد حطیط)
حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے گذشتہ ہفتے جمعرات کے روز اپنی تقریر میں امریکہ کو خبردار کیا تھا کہ اگر وہ لبنان میں سیاسی انتشار اور بدامنی پھیلانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوا تو اسلامی مزاحمت ایسی جگہ چوٹ لگائے گی، جو اس کیلئے بہت ہی حساس ہے، یعنی اسرائیل کو نشانہ بنائے گی۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ سید حسن نصراللہ نے امریکی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے نئی حکمت عملی متعارف کروا دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی اس تقریر پر غاصب صیہونی رژیم بھی ردعمل دکھانے پر مجبور ہوگئی ہے۔ صیہونی حکام اکثر عرب اقوام کو یہ طعنہ دیا کرتے تھے کہ "عرب اقوام یا تو کچھ پڑھتی نہیں ہیں اور اگر پڑھ لیں تو سمجھتی نہیں ہیں” لیکن اب ہم دیکھتے ہیں کہ یہی بات خود صیہونی حکمرانوں پر صادق آتی دکھائی دیتی ہے۔
میں قارئین کی خدمت میں 1975ء میں انجام پائے واقعات کی یاد تازہ کرنا چاہتا ہوں۔ جب اسرائیل نے فلسطین میں اسلامی مزاحمت کے خلاف منصوبہ بنایا اور اس کے بعد 1982ء میں لبنان پر فوجی جارحیت انجام دے کر اسے عملی شکل دی اور فلسطین کی اسلامی مزاحمت کو لبنان سے نکال باہر کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ آج بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کی سرکردگی میں استعماری اور تسلط پسندانہ نظام لبنان میں اسلامی مزاحمت کے خلاف وہی منصوبہ دہرانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یاد رہے جب 1975ء میں فلسطینی مجاہدین نے مقبوضہ فلسطین کے اندر گھس کر فدائی حملے انجام دیئے تو اس وقت کے صیہونی وزیراعظم نے کہا تھا: "اسرائیل ان حملوں کا جواب یوں دے گا، جو شیطان بھی تصور نہیں کرسکتا۔”
ابھی فلسطینی مجاہدین کے ان فدائی حملوں کو تین ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ لبنان میں فلسطینیوں سے بھری ایک بس بعض شرپسند عناصر کی جانب سے دہشت گردی کا نشانہ بنی اور یوں لبنان میں خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا۔ اس خانہ جنگی نے لبنان پر اسرائیلی فوجی جارحیت کا مقدمہ فراہم کیا۔ 1978ء میں صیہونی رژیم نے جنوبی لبنان میں سکیورٹی زون تشکیل دیا۔ 1982ء میں صورتحال یہ تھی کہ دارالحکومت بیروت سمیت لبنان کا نصف سے زیادہ رقبہ اسرائیل کے قبضے میں تھا اور اس نے وہاں سے پی ایل او سمیت تمام فلسطینی قوتوں کو باہر نکال دیا تھا۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل آج بھی ایک مشترکہ منصوبے کے تحت حزب اللہ لبنان کے خلاف وہی سازش دوبارہ دہرانے کے درپے ہیں۔
یہ مشترکہ منصوبہ 2019ء میں امریکہ کے سابق وزیر خارجہ مائیک پمپئو کی جانب سے پیش کیا گیا تھا، جو پانچ مرحلوں پر مشتمل ہے۔ اس کا مقصد لبنان میں سکیورٹی بحران پیدا کرکے حزب اللہ لبنان کو اپنی بقا کیلئے اسلحہ اٹھانے پر مجبور کرنا تھا، تاکہ اس طرح لبنان میں خانہ جنگی شروع ہونے کا الزام اسلامی مزاحمت پر عائد کیا جا سکے۔ اس امریکی اسرائیلی منصوبے کا مقصد لبنان میں خانہ جنگی پیدا کرکے حزب اللہ لبنان کو مسلح ہونے کے قانونی جواز سے محروم کرنا ہے، تاکہ اسے غیر مسلح کرنے کا امکان پیدا ہوسکے۔ ایسی صورت میں اسرائیل اپنی شمالی سرحدوں پر سکون کا سانس لے سکتا ہے جبکہ اسلامی مزاحمتی بلاک بھی اپنے ایک اہم رکن سے محروم ہو جائے گا۔ یوں اسرائیل کا یہ ڈراونا خواب بھی ختم ہوسکتا ہے، جو اسے مقبوضہ الجلیل خطے میں ہر لمحہ حزب اللہ لبنان کی فورسز گھس آنے کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔
لیکن پمپئو کا یہ منصوبہ ناکام ہوچکا ہے۔ اس کی ناکامی کی بنیادی وجہ لبنانی عوام کی مزاحمت ہے، جو کسی صورت اپنے ملک کو تنہاء نہیں چھوڑتے۔ لبنان میں اسلامی مزاحمت بھی تنہاء نہیں ہے اور اسے بھرپور عوامی حمایت حاصل ہے۔ مزید برآں، خطے میں اس کے حامی موجود ہیں اور وہ اسلامی مزاحمتی بلاک کا اہم رکن ہے۔ لہذا سید حسن نصراللہ نے اپنی حالیہ تقریر میں اس بات پر زور دیا ہے کہ حزب اللہ، امریکہ کو لبنان میں انتشار اور انارکی پھیلانے کی اجازت نہیں دے گی۔ حزب اللہ لبنان کے پاس امریکی اسرائیلی سازشوں کا مقابلہ کرنے کیلئے کئی آپشن موجود ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر حزب اللہ اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہو بھی جائے تو وہ اس سے غاصب صیہونی رژیم کو نشانہ بنائے گی۔ سید حسن نصراللہ نے اپنی حالیہ تقریر میں امریکہ کو یہی بات سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل نے امریکہ اور غاصب صیہونی رژیم کو اقتصادی اور سکیورٹی، دو شعبوں میں لبنان کے خلاف سازش سے خبردار کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ حزب اللہ لبنان کی طاقت امریکہ اور اسرائیل کے تصور سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے امریکہ کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا: "اگر امریکی حکام لبنان میں فتنہ انگیزی سے باز رہیں اور لبنان میں معمول کے مطابق سیاسی اور اقتصادی سرگرمیاں انجام پانے دیں تو خطے میں بھی امن و امان رہے گا، لیکن اگر انہوں نے لبنان کا اقتصادی محاصرہ جاری رکھا اور ملک میں انارکی اور انتشار پھیلانے کی کوشش کی تو ایسی صورت میں ہم فوجی راستہ اپنا کر غاصب صیہونی رژیم کے حساس مقامات کو نشانہ بنانے کے آپشن پر غور کریں گے۔”بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔