ہفتہ , 20 اپریل 2024

بھارت بھر میں مسلمانوں کیخلاف ’بلڈوزر کلچر‘ عروج پر

(رپورٹ: جاوید عباس رضوی)

بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بلڈوزر کا استعمال اب ایک عام سی بات ہے۔ بلڈوزر کلچر کی ابتداء اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے چند برس قبل اس وقت کی تھی جب شہریت سے متعلق مودی حکومت کے متنازعہ قانون کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج شروع کیا تھا۔ اس وقت متعدد مسلم کارکنان کے مکانوں کو بلڈوزر سے نشانہ بنایا گیا تھا۔ گزشتہ برس بھی جب ہندوؤں کے تہوار ’رام نومی‘ کے موقع پر کئی ریاستوں میں ہندو مسلم فسادات ہوئے، تو دہلی اور ریاست مدھیہ پردیش سمیت کئی مقامات پر مسلمانوں کے مکانوں کو منہدم کر دیا گیا۔ پیغمبر اسلام (ص) کی توہین کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے حوالے سے بلڈوزر کا سب سے زیادہ استعمال اترپردیش میں کیا گیا۔ بلڈوزر کلچر کے خلاف مختلف ریاستوں کی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کی گئی ہیں تاہم اس پر ابھی تک سماعت نہیں ہوسکی اور سب درخواستیں التوا کی شکار ہیں۔ بی جے پی کے بلڈوزر کے خلاف بھارت کی حزب اختلاف پارٹیوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی تنظیموں نے آواز تو اٹھائی لیکن کارگر ثابت نہ ہوئی۔ بلڈوزر کلچر کو ’بابا کا بلڈوزر‘ یا ’ماما کا بلڈوزر‘ کا نام دے کر مسلمانوں کو ڈرایا گیا۔

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں تیس فیصد سے بھی زیادہ آبادی مسلمانوں کی ہے اور وہاں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی حکومت ہے۔ بلڈوزر کلچر کی یہ المناک تصویر بھارت کی ان متعدد ریاستوں میں دیکھنے میں آ رہی ہے، جہاں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی برسر اقتدار ہے۔ بالخصوص شمال مشرقی ریاست آسام میں یہ سلسلہ تو گزشتہ دو برسوں سے بلا روک ٹوک جاری ہے، جس کے نتیجہ میں اب تک تقریباً ساڑھے پانچ ہزار مسلم خاندان بے گھر ہوچکے ہیں۔ ریاست آسام میں ’بلڈوزر کلچر‘ منظم شکل اختیار کرچکا ہے۔ یہ بھارت کا وہ صوبہ ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ آسام کی کل آبادی میں مردم شماری 2011ء کے مطابق مسلم تناسب 35 فی صد سے زائد ہے۔ پہلے تو انہیں بنگلہ دیشی دراندازی کا ہوا کھڑا کر کے ایک عرصے تک پریشان کیا جاتا رہا۔ لیکن شہریت ترمیمی بل (این آر سی) کے نظرثانی شدہ رجسٹر تیار ہونے کے بعد ’بنگلہ دیشی دراندازی اور اسلامی ریاست بنانے‘ کا پروپیگنڈا پاش پاش ہوگیا۔ تاہم ریاست میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی دوبارہ برسر اقتدار آئی ہے تب سے مسلم آبادی، جس میں بیشتر بنگالی نژاد ہیں، کی زندگی تنگ کرنے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہے۔ انہیں کسی نہ کسی وجہ سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کی ستر، اسّی سال قدیم بستیوں کو غیر قانونی تجاوزات کے نام پر ضابطے کی کارروائی کئے بغیر بڑی بیدردی سے بلڈوزروں سے مسمار کیا جا رہا ہے۔

مئی 2016ء میں جب پہلی مرتبہ بی جے پی ریاست میں برسر اقتدار آئی تو اس کے بعد سے صرف بنگالی نژاد مسلمانوں کو ان کی آبادیوں سے بے دخل کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ سب سے پہلے قاضی رنگا نینشنل پارک کے پاس یہ کارروائی کی گئی جس کی مزاحمت کے دوران پولیس نے دو نوجوانوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ تھم گیا تھا۔ مئی 2021ء سے ستمبر 2022ء کے درمیان بی جے پی حکومت نے کل 4449 بنگالی مسلم خاندانوں کے مکانوں کو مسمار کیا ہے۔ یہ کارروائی پولیس کے سخت پہرے میں انجام دی جاتی ہے اور پولیس اہلکاروں کو طاقت کے استعمال کی کھلی چھوٹ حاصل ہے، جس سے ریاستی حکومت کا غیر انسانی چہرہ سامنے آتا ہے۔ خود ریاست کے وزیراعلٰی بھی یہ بیان دے چکے ہیں کہ ’غیر قانونی تجاوزات کھڑے کرنے والوں‘ کو پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں دیا جائے گا۔ کہا جارہا ہے کہ جب سے ریاست میں بی جے پی کی دوبارہ حکومت بنی ہے تب سے اس مہم کی شدت میں اضافہ ہوگیا اور علاقے میں بسے مسلمانوں کو انکی جائیداد سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے زیر اقتدار بھارت کی دیگر ریاستوں مدھیہ پردیش، اترپردیش اور اتراکھنڈ میں بھی مسلمانوں کے آشیانے مہندم کئے جارہے ہیں۔

بھارت کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھی بلڈوزر سے عام لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنے کا ایک نیا رجحان دیکھنے کو مل رہا ہے، بنا کسی نوٹس کے بلڈوزر بستیوں میں داخل ہوتا ہے اور لوگوں کو لمحوں میں بے گھر کیا جارہا ہے۔ مختلف سیاسی و سماجی کارکنوں نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ یہ کشمیر کو فلسطین بنانے کی کارروائی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی مودی حکومت برسہا برس سے اسرائیل کی پالیسیوں پر کاربند ہے۔ اس دوران بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی لیڈر الطاف ٹھاکر نے بلڈوزر کلچر کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’بابا کا بلڈوزر‘ تو چلے گا اور ہر جگہ چلے گا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جموں اور کشمیر میں ڈیڑھ لاکھ کنال کی زمینوں پر مختلف لوگوں کا قبضہ ختم کیا گیا۔ بلڈوزر کاراروائی سے آبادیوں میں خوف ہے اور کئی علاقوں میں احتجاج بھی ہوئے۔ لوگوں کو ڈر ہے کہ یہ زمینیں حاصل کر کے انکی نیلامی کی جائے گی اور پورے بھارت کے دولتمند لوگ یہ زمین خرید لیں گے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ایک کشمیری نوجوان کا کہنا ہے کہ ہماری تین نسلیں یہاں رہ چکی ہیں، ہم کہاں جائیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ خاکروب یا مزدور ہیں اگر ستر برس سے غیرقانونی نہیں تھا تو اب کیسے ہوگیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے مودی حکومت نے کہا کہ غریبوں کو چھیڑا نہیں جائے گا لیکن ہم کو فون پر نوٹس بھیج دیا گیا اور سات دن کے اندر مکان خالی کرنے کا حکم ملا، یہ کون سا انصاف ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …