ہفتہ , 20 اپریل 2024

آہ ثاقب نقوی!

(تحریر: سید تنویر حیدر)

اک شخص جو تھا رشکِ کواکب، چلا گیا
بزمٍ جہانِ علم کا ثاقب، چلا گیا
برادر ثاقب مرحوم و مغفور کی نمازِ جنازہ پڑھ کر ابھی میں بوجھل دل اور بوجھل قدموں کیساتھ گھر پہنچا ہی تھا کہ میرے ہاتھ میں ایک بند لفافہ تھمایا گیا۔ کھول کر دیکھا تو برادر ثاقب مرحوم کی ادارت میں چھپنے والا رسالہ ”پیام“ تھا۔ یہ رسالہ ثاقب بھاٸی کبھی کبھار کسی ملاقات میں بدستِ خویش دے دیا کرتے تھے، لیکن اسے باقاعدگی سے حاصل کرنے کی تمنا تھی۔ کچھ عرصہ قبل اُن کے گھر ایک ملاقات میں، میں نے ان سے گزارش کی کہ آپ یہ رسالہ مجھے باقاعدگی سے میرے گھر کے پتے پر ارسال کریں۔ میری اس فرماٸش پر فوراً ہی انہوں نے اپنے بیٹے کو بلا کر کہا کہ وہ میرا ایڈریس لے اور مجھے باقاعدگی سے رسالہ بھیجے۔ مجھے ان کا رسالہ مل گیا ہے، لیکن افسوس کہ میں اب ان کے وٹس ایپ نمبر پر ان کا شکریہ نہیں ادا کرسکوں گا۔ ان کا رسالہ پیام آیا بھی تو ان کا آخری پیغام بن کر۔

برادر ثاقب کا مجھ سے تعلق تقریباً ستاٸیس سال پرانا تھا۔ اس وقت سے جب میں اپنے وقت کی تحریک جعفریہ کا مرکزی پریس سیکرٹری ہوا کرتا تھا اور برادر مقصود گِل سیکرٹری اطلاعات ہوتے تھے۔ برادر ثاقب نقوی ان دنوں تحریک جعفریہ کے مرکزی دفتر آتے جاتے رہتے تھے۔ میں تقریباً ایک سال تک دفتر میں رہا اور پھر جب تحریک کچھ اپنے اندرونی مساٸل کا شکار ہو کر اپنی وہ حیثیت باقی نہ رکھ سکی، جس کی وجہ سے میں یہاں تک کھنچا چلا آیا تھا، تو میں نے دلبرداشتہ ہو کر اپنی ذمہ داریوں سے استعفیٰ دے دیا۔ برادر ثاقب کو میں اس سے قبل ان کے اخباری کالموں کی وجہ سے جانتا تھا۔ امام خمینی نے گوربا چوف کے نام جو خط لکھا تھا، برادر ثاقب نے سب سے پہلے اس کا اردو میں ترجمہ کیا تھا، جو روزنامہ جنگ میں چھپا تھا اور جو میرے ذہن پر اب تک نقش ہے۔ تحریک جعفریہ چھوڑنے کے بعد ثاقب بھاٸی سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی منقطع ہوگیا اور پھر دوباہ یہ رابطہ اس وقت بحال ہوا، جب انہوں نے اسلام آباد رہاٸش اختیار کی۔

اسلام آباد میں اپنی پہلی ملاقات میں مجھ سے فرمانے لگے کہ میں کیونکہ ابھی یہاں نیا نیا آیا ہوں، اس لیے یہاں کے علمی و ادبی حلقوں میں میرا تعارف نہیں ہے۔ آپ کو کیونکہ یہاں کے ادبی حلقے جانتے ہیں، لہذا آپ کوٸی ایسی سبیل نکالیں، جس سے میرا ان سے تعارف ہوسکے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے گھر میں ایک ایسا مشاعرہ رکھیں، جس میں راولپنڈی اسلام آباد کے معروف شعراء کو دعوت دی جائے۔ چنانچہ ان کے دولت کدے پر ایک بھرپور قسم کے مشاعرے کا انعقاد کیا گیا، جس کی صدارت جناب افتخار عارف نے کی۔ اب وہ ثاقب نقوی کی جگہ ثاقب اکبر کہلائے جانے لگے۔

اس کے بعد ان کی سرپرستی میں ایک نعتیہ مشاعرہ اکادمی ادبیات پاکستان میں کیا گیا، جس کی نظامت میں نے کی اور شاید کسی بڑے مشاعرے میں میری بھی یہ پہلی نظامت تھی۔ کچھ عرصے بعد برادر ثاقب نے آیت اللہ مطہری شہید کے خطبات کا اردو میں ترجمہ کیا۔ اس ترجمہ شدہ کتاب کی تقریب رونماٸی خانہء فرھنگ ایران میں ہوٸی۔ اس تقریب کی نظامت بھی میرے حصے میں آٸی۔ اس کے بعد لوگوں کو ان کے قد کا اندازہ ہوا۔ ان کا گھر علمی و ادبی شخصیات کا مرکز بن گیا۔ اپنی علمی، ادبی اور مذہبی سرگرمیوں کو مزید منظم طریقے سے لوگوں تک لانے کیلئے انہوں نے ”البصیرہ“ کے نام سے ایک ادارہ قیام کیا۔ اس ادارے نے ان کی سرپرستی میں علمی اور فکری اعتبار سے جو خدمات انجام دیں، ان پر ایک کتاب آنی چاہیئے۔

میری اُن سے آخری ملاقات ہسپتال میں ہوٸی۔ اس ملاقات میں بھی اور باتوں کے علاوہ انہوں نے اپنے ادبی سلسلے کے حوالے سے بات کی۔ انہیں اس کی فکر تھی کہ کہیں ان کی بیماری کی وجہ سے ان کی ادبی سرگرمیاں ماند نہ پڑ جاٸیں۔ انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں اپنی یہ ذمہ داریاں آپ کو تفویض کروں گا۔ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ بعض ایسے پروگرام جن کی نظامت وہ کسی وجہ سے نہ کرسکتے تھے، اپنی جگہ مجھے اس کام پر معمور کر دیا کرتے۔ ان سے جو میرا قلبی تعلق تھا، اس کے کٸی پہلو تھے، جن کا ذکر ایک کالم میں نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح شہید حسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی کے جانے کے بعد ان کے خلا کو کوٸی پُر نہیں کرسکا، ثاقب نقوی کی چھوڑی ہوٸی جگہ کو بھی شاید ہی کوٸی پُر کرسکے۔

برادر ثاقب اکبر ملت تشیع کے باہمی اختلافات کی وجہ سے نہایت رنجیدہ خاطر تھے، اور کسی حد تک مایوس بھی۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک دفعہ میں نے ان سے کہا کہ جیسا کہ آپ ملت تشیع کے دونوں قاٸدین جناب مولانا ساجد نقوی صاحب اور جناب مولانا راجا ناصر عباس صاحب سے قریبی تعلق رکھتے ہیں تو کیوں نہ آپ کی قیادت میں ان دونوں بزرگان کو کسی ایک پلیٹ فارم پر لانے کیلئے ایک مہم چلاٸی جائے؟ آپ فرمانے لگے کہ ایسی کوششیں ہوچکی ہیں، لیکن میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں یہ حضرات کسی صورت میں بھی ایسا نہیں کریں گے۔ آج ملت کا ایک خیر خواہ شاید اسی وجہ سے ہم سے روٹھ گیا ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …