جمعرات , 25 اپریل 2024

میونخ کانفرنس اور ایک مضبوط ایران

(تحریر: محمد کاظم انبارلوی)

1۔ تین سال پہلے، میونخ سکیورٹی کانفرنس کے منتظمین نے دو سوالات پوچھے اور شرکاء سے ان دو سوالوں کے جوابات طلب کیے، یہ دو اہم سوالات کچھ یوں تھے۔

دولت اور طاقت کا بہاؤ مغرب سے مشرق کی طرف کیوں منتقل ہوا۔؟ یہ راستہ کیسے بدلا جا سکتا ہے۔؟ پچھلے تین سالوں کے واقعات بتاتے ہیں کہ یہ بہاؤ تیز ہوا ہے اور دنیا تیزی سے ملٹی پولر یعنی کثیر قطبیت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ایران، روس، چین، ہندوستان وغیرہ اس طاقت کے سلسلہ کا حصہ ہیں اور اس تیز رفتار عمل سے اب کوئی فرار نہیں ہے۔ مغربی حکمت عملی کے ماہرین کا خیال ہے کہ روس کی جنگ نے ایک ایسا ماحول پیدا کیا ہے، جہاں ایران اپنے خلاف لگائی پابندیوں کے دباؤ کو کم کرسکتا ہے اور پابندیوں کو ایک موقع اور خارجہ پالیسی کے حوالے سے ایک نیا راستہ اختیار کرسکتا ہے۔ ایسا ماحول بنانے میں روس کے علاوہ چین بھی حصہ لے سکتا ہے۔

اس سال میونخ کانفرنس ایرانی حکام کو مدعو کیے بغیر منعقد ہوئی۔ منتظمین نے ایران اور روس کو ایک ہی ساتھ کھڑا کیا۔ اس کانفرنس میں دونوں ممالک کے حکام کو مدعو نہیں کیا گیا۔ یہ نقطہ نظر ظاہر کرتا ہے کہ وہ مغرب سے مشرق کی طرف طاقت کے بہاؤ سے متعلق ان دو سوالوں کا جواب دینے سے کترا رہے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایرانی حکام کو مدعو کرنے کے بجائے چند گمنام سیاسی مسخروں کو میونخ کانفرنس میں مدعو کیا، جنہوں نے امریکہ اور مغرب کی جانب سے ایرانی قوم کے خلاف مزید پابندیوں اور سیاسی اور فوجی دباؤ کا مطالبہ کیا۔ ایسا لگتا ہے کہ میونخ کانفرنس میں سکیورٹی تک پہنچنے کے بجائے جنگ اور کشیدگی کے لیے حکمت عملی تلاش کی جا رہی ہے۔

2۔ جھوٹ اور فریب کے پرچارک سعودی انٹرنیشنل چینل کی لندن سے واشنگٹن منتقلی سے پتہ چلتا ہے کہ دشمن کے سافٹ وار روم میں گھر کی صفائی اور فرنیچر کی منتقلی کے ساتھ ساتھ ایران کے خلاف مغرب کی نئی میڈیا حکمت عملی بھی سامنے آرہی ہے، جس کا آغاز اس منتقلی میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بعض مغربی ذرائع ابلاغ کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کی مخالفت کی بدولت گذشتہ چار دہائیوں میں امریکہ اور اس کے شراکت داروں کو نہ صرف بھاری قیمت چکانی پڑی ہے، بلکہ اس کا کوئی نتیجہ بھی نہیں نکلا۔ ایران کے علیحدگی پسندوں نے حالیہ بغاوت میں قوم کو مزید اتحاد و اتفاق کے لیے اکسانے کے سوا کچھ نہیں کیا۔

ان کا کہنا ہے کہ قومی جھنڈا جلانے، قرآن جلانے، اسلامی مقدسات پر حملے اور قرآن کی بے حرمتی کا منصوبہ معلوم نہیں کس تجزیے اور فہم کی بنیاد پر انجام پایا۔؟ ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ انقلاب مخالف اپوزیشن کم از کم ایک ہفتے تک سڑکوں پر اپنی موجودگی کو کیوں قائم نہیں رکھ سکی؟ جبکہ دوسری طرف 44 سال سے زائد عرصے سے انقلاب نے تہران کی سڑکوں، شہروں اور یہاں تک کہ دیہاتوں میں اپنی عوامی و سماجی موجودگی کو برقرار رکھا ہے۔ اہل مغرب اور انقلاب مخالف اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہے ہیں اور اپنے آپ سے کہنے لگے ہیں کہ ان سوالات کا جواب میونخ کانفرنس میں نہیں مل سکتا۔ اسے سافٹ وار اور وار سائنس کے بند کمروں میں تلاش کیا جانا چاہیئے، وہ بھی انتہائی خفیہ طور پر اور مکمل طور پر رازداری میں۔

3۔ مشرقی آذربائیجان کے عوام کے ساتھ ملاقات میں ایرانی قوم کی آواز کو اندر کے دشمن کی آواز پر غالب قرار دیتے ہوئے رہبر معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے ایک اہم سوال اٹھایا اور وہ یہ ہے؛ "مخالف کہتے ہیں کہ اسلامی نظام پسپائی اختیار کر رہا ہے اور بندگلی میں پہنچ چکا ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو آپ اسے گرانے کے لیے اتنا خرچ کیوں کر رہے ہیں؟” اس سوال کو دوسرے بہت سے سوالات میں شامل کرتے ہوئے کہنا چاہیئے کہ ان سوالوں کے جواب کا صرف ایک ہی نقطہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ایرانی قوم سے دشمنی کا سلسلہ بند کیا جائے۔ یہ وہ چیز ہے، جسے مغرب تسلیم نہیں کر رہا اور اس کے بارے غلط اندازہ لگا رہا ہے۔

4۔ ایک مضبوط ایران ہر روز کسی نہ کسی طریقے سے دنیا میں نمایاں ہو رہا ہے اور مضبوط ایران کا چرچا دن بدن گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ آج، امریکیوں کی میز پر تین فوری احکامات ہیں:
A۔ ایران کی جوہری سرگرمیوں کو جاری رکھنے سے روکنا۔
B۔ ایران کی فوجی طاقت کی توسیع اور ترقی کو روکنا۔
C۔ خطے میں ایران کے اثر و رسوخ کی ترقی میں خلل ڈالنا۔
یہ تینوں احکامات ظاہر کرتے ہیں کہ دشمن جانتا ہے کہ ہم نہ تو پسپا ہو رہے ہیں اور نہ ہی کسی ’’ڈیڈ اینڈ‘‘ کو پہنچے ہیں، بلکہ خود دشمن ہی ہے، جو ان دو کلیدی تصورات کے مفہوم کے ساتھ ہاتھ پاوں مار رہا ہے، جس سے مغرب کی حاکمیت میں "زوال” کو بآسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …