(تحریر: سید محمد تعجیل مہدی)
شہر سے آخری حسیں بھی اٹھا
آئینے دفن کر دیئے جائیں
شبیر حسن نے شاید اسی دن کے لیے یہ شعر کہہ رکھا تھا۔ طویل جدوجہد کی ایک داستان جسے رقم کرنا سہل نہیں۔ یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے انجینئرنگ کی اور اسی دوران شیعہ طلباء کی ملک گیر جماعت امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان (آئی ایس او پاکستان) میں شمولیت اختیار کی اور طالبعلم راہنماء کے طور پہ سامنے آئے۔ یہ وہ وقت تھا، جب ایران میں انقلاب نہیں آیا تھا اور جب آیا تو اس کے سفیران میں شہید ڈاکٹر کے شانہ بشانہ تھے۔ کئی یادگار اور تاریخی اقدامات انہی کے دست سے قدرت نے سرانجام دلوائے۔ ایک ایسی داستان ہے جسے رقم کرنے کو الفاظ کم پڑ جاتے ہیں۔
ایک درد ہے اور گھاو سا ہے، جو مسلسل کچوکے لگا رہا ہے۔ ابھی تو عمر ہے اور عمر بھی جدائی کی۔ کس کس پہلو پہ بات کی جائے کہ وہ شخصیت ہمہ جہت تھی۔ ڈاکٹر شہید کی شہادت سے کچھ دن قبل ہی اخوت اکادمی کی بنیاد رکھی، جو بعد میں البصیرہ میں بدل گئی اور کئی قابل ذکر کردار ادا کیے۔ دینی تعلیم کے لئے حوزہ علمیہ قم المقدسہ تشریف لے گئے اور حجت الاسلام والمسلمین بن کے لوٹے، مگر سر پر عمامہ نہ رکھا اور عام آدمی کی مانند عوام کے قریب رہ کر زندگی گزاری۔ قرآن و اہلبیت کے مطابق خود کو ڈھالا، اسلام ناب محمدی کی تفہیم کے بعد وحدت کے سفیر بن گئے۔ مختلف فرقوں کے درمیان کشیدگی اور غلط فہمیوں کے قدیمی سلسلے کو افہام و تفہیم اور دوسروں کو برداشت کرنے کا درس دیا۔
شدت پسندی کے خلاف ایک تحریک بن گئے اور فرقہ واریت کے دور میں رواداری، حسن خلق، باہمی برداشت، وسعت قلبی و وسعت ظرفی اور حلم کی ایک نئی مثال قائم کر دی۔ یہاں تک کہ اپنا نام ثاقب اکبر کر لیا کہ فرقہ پرستی کا عنصر نہ رہے۔بیشمار علمی و تحقیقاتی کام سرانجام دیئے۔ ایک نفیس انسان اور ایک ایسا تاریخی حوالہ جو صرف ایک نہیں بلکہ کئی پہلوؤں سے معتبر تھا۔ کوئی مشکل ہوتی تو بڑے تحمل سے حل بتاتے اور ہر ممکن مدد فراہم کرتے۔ ایسی شفقت و محبت سے پیش آتے تھے کہ کوئی مثال نہیں۔ اس عمر میں بھی بزرگی کے باوجود جوانوں سے بھی زیادہ متحرک ہونا یقیناً فکر امام خمینی (رہ) پہ ہونے کی نشانی ہے۔ جبھی تو ہر خاص و عام کی زبان پر جمال احسانی کا شعر تھا کہ
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
ابھی تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے
علالت کا سنا تو ایک دھڑکا سا لگا رہا اور کئی دوستوں کے ساتھ زیارت کا پروگرام بنا، مگر توفیق نہ ملی۔ ارتحال کا سن کے دل کٹ گیا اور کافی دیر تک یقین نہ آیا، مگر یہ جہان فانی جو ٹھہرا۔ سخت علیل رہے اور پھر ایسا عظیم دماغ، عالم دین و دنیا، بے پناہ ذہین و فطین شخصیت، دانشور، ادیب، محقق، مصنف، مدبر اور باکمال شاعر منوں مٹی تلے جا سویا۔ ہائے اب کس سے احوال دل کیے جائیں گے اور کیسے دل و دماغ کو یقین دلایا جائے گا کہ وہ ملیح آواز اور نفیس و نستعلیق شخصیت اب نہیں رہی۔لیاقت علی عاصم نے میرے جذبات کو کچھ یوں بیان کیا ہے کہ
بستر مرگ پر تھی اک دنیا
اور تم مر گئے کمال کیا!
اس موقع پر معروف لکھاری محمد علی سید صاحب نے یادگار جملہ کہا کہ "یہ بے شمار لوگوں کا ذاتی نقصان ہے” بلاشبہ ایسا ہی ہے اور یہ ان کا حسن اخلاق تھا کہ جس کسی سے ملتے، اسے گرویدہ کر لیتے۔ حقیقی معنوں میں مولا علی علیہ السلام کے اس فرمان کی عملی تفسیر تھے کہ "زندگی ایسے گزارو کہ لوگ ملنے کے مشتاق رہیں اور اگر مر جاو تو گریہ کریں” اور آج ہر آنکھ گریہ کناں تھی۔ کیا اپنے کیا پرائے سب ہی رنجیدہ تھے۔ تجہیز و تکفین و تدفین کے موقع پر امامیہ جوانوں کی کثیر تعداد موجود رہی اور کاروان امامیہ کے سربراہ مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان سمیت مختلف مسالک کے کئی جید علماء کرام اور سیاسی و سماجی شخصیات شریک ہوئیں۔ امامیہ اسکاوٹس کے چاک و چوبند دستے نے الوداعی سلامی پیش کی اور آئی ایس او پاکستان کے پرچم میں لپٹے ہوئے آخری ٹھکانے کی جانب لے چلے۔ اولاد و اعزہ سمیت نظریاتی وارثان آخری لمحات تک موجود رہے۔
امامیہ کاروان کے سابق سالار، امامیہ کا اثاثہ، امامیہ اسکاوٹس کی سلامی میں، امامیہ پرچم میں لپٹا ہوا، امامیہ ترانے کی گونج میں امام زماں (عج) کی بارگاہ میں پلٹ گیا۔بشکریہ اسلام ٹائمز
زندہ یہ بیداری رہے
یہ سلسلہ جاری رہے
ہم ہوں نہ ہوں اس بزم میں
قائم عزاداری رہے۔۔۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
آخر میں واجد امیر صاحب کا ایک شعر
خاک کو خاک بناتی ہے چلو مان لیا
موت لیکن لب و رخسار کہاں پھینکتی ہے!
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔