جمعہ , 19 اپریل 2024

ملک کو آخر خطرہ کس سے اور کیوں ہے؟؟

(مختار چودھری)

یوں تو ہر دوسرے تیسرے سال ہمارے ملک کو بچانے کا ایک نیا نعرۂ مستانہ اُبھرتا ہے۔ آج کل ایک طرف سے "الیکشن کراؤ ملک بچاؤ” کا نعرہ ہے تو دوسری طرف "عمران مکاؤ” ملک بچاؤ کا نعرہ ہے۔ اور مجھ ناچیز کو ایسے لگتا ہے کہ کسی ہرے بھرے کھیت پر………… کا قبضہ ہے اور وہ کھیت کی تباہی کرتے ہوئے یہ نعرہ بلند کرتے رہتے ہیں کہ "کھیت بچاؤ کھیت بچاؤ”لیکن مجھ کند ذہن کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ملک بچانا کیوں کر َاور کس سے بچانا ہے؟ یا پھر اس کرۂ ارض پر کوئی اور بھی ایسا ملک ہے جہاں روزانہ یہ صدا اُٹھتی ہو کہ "ملک بچاؤ”؟ کیا ہم پوری دنیا میں انوکھے لوگ ہیں اور ہمارا ملک بھی انوکھا ہے؟ عراق، ایران، شام، یمن، سوڈان، صومالیہ، اتھوپیا، ایرٹیریا اور کئی دوسرے افریقی ممالک جہاں کئی دہائیوں تک جنگیں رہیں اور یہ ممالک تباہ حال ہیں مگر یہ صدائیں وہاں بھی نہیں اُٹھیں کہ یہ کرو یا وہ کرو اور ملک بچاؤ، پھر ہمارے ہی ملک میں وہ کون سی ایسی بیماری ہے جس سے اُس کی جان کو خطرہ ہے؟ البتہ اگر کسی کھیت کے اُجڑنے کا خطرہ ہو تو اُس کھیت کو اجاڑنے والوں کو مکانا یا بھگانا ضروری ہوتا ہے۔

ہم نے ملک بچانے کے چکر میں اپنی نسلیں ہی مکانی تھیں تو ایسا ملک بنایا ہی کیوں تھا؟ جس برتن کو بنانے کے بعد کمہار کی باقی ساری زندگی اُسے بچانے میں صرف ہو جائے ایسا برتن بنانے کی کیا مجبوری تھی؟ ہم نے تو جب سے آنکھ کھولی ہے یہی سنتے آئے ہیں کہ ہمارا ملک خطرے میں ہے، ہمارا ملک مشکل دور سے گزر رہا ہے، ہمیں ملک بچانے کے لیے قربانی دینا پڑے گی، ہمیں ملک بچانے کے لیے ایٹم بنانا اور گھاس کھانا پڑے گی پھر ایٹم بچانے کے لیے پیٹ پر پتھر باندھنا پڑیں گے وغیرہ وغیرہ، ملک بچانے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے ایک اور بپتا بھی ہے اور وہ ہے "اسلام بچانے” کی۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم ملک بچائیں یا اسلام بچائیں؟ یہ سمجھ بھی نہیں آتی کہ ملک کو کس سے خطرہ ہے اور اسلام کو کون مار رہا ہے؟

ویسے ایک بار افغانستان کے لیے متعین ایک امریکی عہدیدار نے کہا تھا کہ پاکستان کو مارنے کی کس احمق کو ضرورت ہے۔ پاکستان کو مارنے کے لیے خود پاکستانی کیا کم ہیں؟ ایک زمانہ تھا جب بنگالیوں سے اِس ملک کو خطرہ تھا اور ہمیں یہ نعرہ دیا گیا کہ بنگالی مکاؤ اور ملک بچاؤ، پھر ایک نعرہ ملا، بھٹو مکاؤ اور اسلام بچاؤ، پھر نیا نعرہ بینظیر سیکیورٹی رسک سے ملک کو خطرہ ہے۔ پھر نواز شریف دشمن کو مینار پاکستان تک لے آیا تھا۔ اور اب دو نعرے ہیں۔ ایک طرف "الیکشن کراؤ ملک بچاؤ تو دوسری طرف عمران مکاؤ ملک بچاؤ، کیوں نہ ہم اِس نعرے (ملک بچاؤ) کو ہی مار دیں؟(ہم کو بھی غم نے مارا تم کو بھی غم نے مارا آؤ اس غم کو مار ڈالیں)

دو دن پہلے ناروے سے آئے ہوئے ایک دوست مجھے کہہ رہے تھے کہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ پاکستانی زندہ کیسے بچے ہوئے ہیں؟ تو میں نے عرض کیا کہ یہاں زندہ کون ہے؟ ایک طرف کھیت کو تباہ کرنے والے کود رہے ہیں اور باقی لاشیں ہیں۔ اس ملک کا المیہ دیکھیں کہ ہر وزیراعظم یہ فرما رہا ہوتا ہے کہ ملک میں یہ ہونا چاہیے، وہ ہونا چاہیے، ایسے ہونا چاہیے، ویسے ہونا چاہیے لیکن مجھ نا سمجھ کو پھر بھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ سب کیسے ہونا چاہیے اور کس کو کرنا چاہیے؟ ہم وزیراعظم کس کام کے لیے بناتے ہیں؟ صرف بیان بازی کے لیے؟ صرف اطلاعات دینے کے لیے؟ یا پھر ہر طرح کی دہشت گردی ہو جانے کے بعد یہ فرمان جاری کرنے کے لیے کہ ہم کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے، دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، شہدا کا خون رائیگاں نہیں جانے دیں گے، ہم دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں گے(اور بعد میں نئے بیج بو لیں گے)

مجھے ایک اور بات کی سمجھ بھی نہیں آتی کہ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ ملک مضبوط ہاتھوں میں ہے۔ اِس ملک کی طرف کوئی میلی نظرسے بھی نہیں دیکھ سکتا، اگر ایسا ہوا تو ہم اُس آنکھ کو ہی پھوڑ دیں گے وغیرہ وغیرہ تو پھر ہمارے ملک اور ہمارے اسلام کو خطرہ کس سے اور کیوں کر ہے؟ ہمارے پاس ایٹم بموں کا ذخیرہ ہے۔ بہترین میزائل کا نظام ہے۔ ایک بھاری بھر کم فوج اور جنرل ہیں۔ دنیا کی نمبر ون ایجنسیوں کا خزانہ ہے۔ سروں پر کفن باندھے اسلامی مجاہد ہیں۔ یہ سب ملا کر ایک کروڑ تو بنتے ہوں گے،باقی جذبات میں شرابور نعرے لگانے والے 22 کروڑ عوام ہیں تو پھر ہمیں خطرہ کیوں ہے؟

پھر کیوں نہ ایک بار ہم سب اپنی اپنی منجھی تھلے(چارپائی کے نیچے) ڈانگ پھیر کر دیکھ لیں کہ خطرہ ہمارے نیچے تو نہیں ہے؟ ہم نفرت اور عقیدت کے درمیان میں بھی دیکھ لیتے تو ہمیں سمجھ آ سکتی تھی۔ ہم خود ساختہ اسلام بچانے کی ٹھیکیداری نہ لیتے،خود اپنے ملک کے دشمن نہ بنتے اور دنیا کی بڑی طاقتوں کے آلہ کار بننے کی بجائے سب کے ساتھ منصفانہ تعلقات استوار کر لیتے،اپنے ملک میں جنگی جنون پیدا کرنے کی بجائے اپنے ہمسایوں کے ساتھ بامعنی گفتگو کر کے اپنی سرحدوں کو محفوظ رکھتے تو ہمارا ملک،خطرے میں ہوتا نہ ہمیں ایک ایسے دین کی بچانے کی فکر ہوتی جسے کبھی زوال ہی نہیں ہے۔ سب سے بڑھ کر ہم اپنے عوام کو نفرت اور عقیدت سکھانے کی بجائے اُنہیں کتاب اور ہنر سکھا کر بااختیار بناتے، کیونکہ جن ممالک کے عوام باشعور ہیں اور فیصلے کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، وہ ملک ترقی کی منازل طے کر گئے ہیں۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …