(تحریر: اتوسا دیناریان)
یوکرین میں جنگ کے جاری رہنے، مختلف یورپی ممالک میں خراب معاشی اور سماجی حالات نیز مغربی ممالک کی پالیسیوں کے تحت یوکرائن کی جنگ میں مداخلت پر یورپی شہریوں نے اس براعظم کے مختلف ممالک میں احتجاج کیا ہے۔
اس سلسلے میں مختلف سیاسی حلقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد برلن میں جمع ہوئے اور انہوں نے یوکرین میں امن مذاکرات کے آغاز اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ یہ احتجاج ایک جرمن صحافی ویگن کنچٹ کی طرف سے پیش کردہ "امن منشور” کی پٹیشن کی حمایت میں کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، سینکڑوں ہسپانوی اور برطانوی شہریوں نے یوکرین میں جنگ کے پھیلنے اور طول دینے کی بنیادی وجہ کے طور پر نیٹو کی پالیسیوں پر احتجاج کیا۔ یوکرین کی جنگ میں برطانوی حکومت اور اداروں کے مرکزی کردار کے خلاف، لندن میں وسیع مظاہرے ہوئے ہیں، جہاں دسیوں ہزار برطانوی شہریوں نے نیٹو اور مغربی ممالک کی جنگ پسندانہ پالیسیوں کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔
برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے اور ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کی جنگ پسندانہ پالیسی، اس ملک کے ذرائع ابلاغ کی جانب سے یوکرین کی جنگ کی حمایت اور نیٹو کے جارحانہ عزائم کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرین نے سب سے پہلے بی بی سی کے ہیڈ آفس کا رخ کیا اور سرکاری میڈیا کی جانب سے جنگ مخالفین کے بائیکاٹ اور اس ابلاغیاتی مرکز کے دنیا بھر کے معاملات میں مداخلت پر مبنی پالیسی کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین اس کے بعد لندن شہر کے مرکز میں واقع ٹریفلگر اسکوائر پہنچے، جو پارلیمان اور وزیراعظم کے دفتر کے قریب واقع ہے۔ مظاہروں میں برطانوی پارلیمان کے متعدد ارکان، جنگ مخالف تنظیموں اور انسانی اور سماجی حقوق کے اداروں کے کارکنوں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی شامل تھے۔
احتجاجی ریلی میں شامل مظاہرین نے جنگ اور نیٹو کی مخالفت میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں ایسے بینر بھی دکھائی دیئے، جن پر درج تھا کہ ہتھیاروں کی ترسیل اور برآمدات بند کرو۔ جنگ مخالف مظاہرین یوکرین کی جنگ کے فوری خاتمے اور مغربی حکومتوں کی جانب سے "کی ایف” کی اسلحہ جاتی امداد کو روکنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے ارکان اور جنگ مخالف شخصیات نے نیٹو کو تحلیل کئے جانے اور "کی ایف” کو اسلحوں کی ترسیل روکنے کا مطالبہ کیا۔ قابل ذکر ہے کہ یوکرین کی جنگ کا ایک سال پورا ہوچکا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف یوکرین میں تباہی آئی ہے بلکہ عالمی سطح پر اس کے وسیع سیاسی، اقتصادی، سماجی حتی کہ ثقافتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، تاہم مغربی حکومتیں ہتھیاروں کی ترسیل سے باز نہیں آرہی ہیں۔
امریکہ اور یورپی ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کرکے حالات کو مزید پیچیدگی سے دوچار کر دیا ہے اور قیام امن کے راستے میں دیواریں کھڑی کر رکھی ہیں، جس سے جنگ کی آگ کے شعلے بھڑکتے جا رہے ہیں۔ روسی عہدے داروں اور بعض ماہرین نے اس جنگ کو مغرب اور روس کے درمیان پراکسی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک یوکرین کی جانب مغربی ہتھیاروں کی ترسیل نہیں رکتی، تب تک امن کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یوکرائنی جنگ کی طوالت اور اس کے نتیجے میں یورپی شہریوں کی زندگیوں پر پڑنے والے منفی معاشی، سماجی اور سیاسی اثرات نے یوکرائنی جنگ میں یورپی حکومتوں کے احتجاج میں شدت پیدا کر دی ہے۔ درحقیقت تقریباً ایک سال ہوگیا ہے کہ یورپی ممالک نے روس کے خلاف ہتھیار بھیج کر نیز روس کے خلاف پابندیوں کے پیکج منظور کرکے یوکرین کو مضبوط کیا ہے۔ یقیناً یہ پالیسیاں یورپی شہریوں کے لیے معاشی اور سماجی مسائل لے کر آئی ہیں۔
ان ممالک میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ، خوراک کی قلت اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نیز حکومتوں کی حالیہ کارکردگی شہریوں کے عدم اطمینان کا سبب بنی ہے۔ مختلف یورپی ممالک میں یوکرین میں جنگ کے آغاز کی سالگرہ کے موقع پر شہریوں، جنگ مخالف تنظیموں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول کارکنوں نے بے شمار اجتماعات کا انعقاد کیا۔ ان اجتماعات کے شرکاء نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن میں سے کچھ پر لکھا تھا "جنگ نہیں، نیٹو نہیں، ہتھیار بھیجنا بند کرکے جنگ بند کرو”، یوکرین کو مغربی ہتھیاروں کی حمایت کے خاتمے اور اس ملک میں جنگ کے خاتمے جیسے مطالبات درج تھے۔ جنگ مخالف کارکن ڈالیا سانچیز نے کہا ہے کہ "بہت سے لوگ اپنی جانیں گنوا چکے ہیں، قطع نظر اس کے کہ وہ کس طرف ہیں۔” میں یوکرین کو ہتھیار بھیجنے سے اتفاق نہیں کرتا، یہ کارروائی جنگ کو طول دے گی۔
عوامی شکایات کے باوجود یورپی ممالک کے سربراہان نے یوکرین میں جنگ پسندانہ پالیسیوں کو جاری رکھنے پر زور دیا ہے اور وہ دراصل کیف کو جدید ہتھیار عطیہ کرکے اس جنگ کو ہوا دے رہے ہیں۔ شائع شدہ اطلاعات کے مطابق یورپی یونین نے یوکرین کو تقریباً 12 ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی ہے۔ دریں اثنا، جنگ کے نتیجے میں ہونے والے معاشی اور سماجی اثرات کے علاوہ، بہت سے یورپی شہری اس بات سے پریشان ہیں کہ یوکرائنی فوجی دستوں کو غیر روایتی ہتھیاروں کی فراہمی اس جنگ کو عالمی یا دنیا کی بڑی طاقتوں کے درمیان جوہری جنگ میں تبدیل کر دے گی۔
فرانسیسی سیاست دان میری لی پین اس حوالے سے کہتی ہیں: "یہ تنازعہ اب تک یورپ اور روس کے درمیان تعلقات کو منقطع کرنے کا باعث بنا ہے اور اس عمل نے ماسکو کو بیجنگ اور نئی دہلی کا مراعات یافتہ شراکت دار بنا دیا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے اقدامات کو یوکرین میں امن کے قیام کی طرف لے جائیں۔” دوسری جانب یوکرین میں جنگ کے جاری رہنے اور اس کے دائرہ کار میں توسیع اور اسے طول دینے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ یوکرین میں جنگ میں مداخلت جاری رکھنے میں یورپی سیاستدانوں کے اقدامات کے باوجود؛ یورپی شہری ان اقدامات سے تنگ آکر مداخلتوں کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اگر یہ رجحان جاری رہا اور تنازعات شدت اختیار کر گئے تو یورپی ممالک کو نت نئے سیاسی اور سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔