(تحریر: سید اسد عباس)
افغانستان اور چین کے مابین روابط نئے نہیں ہیں۔ ان ممالک کے مابین سفارتی روابط کا آغاز 1955ء سے ہوا، جس میں اتار چڑھاؤ آتا رہا۔ امریکی افواج کے افغانستان سے حالیہ انخلاء کے بعد ان دونوں ممالک کے روابط میں تیزی دیکھنے میں آئی۔ چین افغانستان کو ایک اہم اسٹریٹجک ملک تصور کرتا ہے، جس کے معدنی ذخائر بھی یقیناً چینی حکمرانوں اور پالیسی ساز اداروں کی نظر میں ہوں گے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اپنے ایک گذشتہ کالم میں، راقم نے افغانستان میں موجود معدنی ذخائر کے حوالے سے تفصیلات بیان کی تھیں۔ روسی ماہرین معدنیات و ارضیات کے مطابق افغانستان میں تقریباً ایک ٹریلن ڈالر سے زائد مالیت کے مختلف معدنی ذخائر موجود ہیں، جن میں انتہائی قیمتی دھاتیں، جو جہاز سازی کی صنعت سے لے کر الیکٹرانک و الیکٹرک آلات میں استعمال ہوتی ہیں، شامل ہیں۔ اسی آرٹیکل میں راقم نے تحریر کیا تھا کہ مغربی قوتوں کی افغانستان میں دلچسپی کی ایک بڑی وجہ یہی معدنی ذخائر ہیں۔
دنیا میں جیسے جیسے معدنی اور قدرتی وسائل کی مانگ بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے ان کی مقدار میں کمی ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے میں افغانستان ایک ایسی سرزمین ہے، جسے معدنی وسائل کی جنت سمجھا جاتا ہے اور دنیا کا سب سے بڑا سرمایہ کار اس جنت سے نابلد نہیں ہے۔ تانبا جو آج بہت سے الیکڑانک آلات میں استعمال ہوتا ہے، دنیا کی ضرورت ہے۔ چین اس سلسلے میں پچھلی افغان حکومت کے دور میں ہی اقدام کرچکا ہے اور افغانستان کی تانبے کی کانوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ تجارت کے اعداد و شمار رکھنے والے ایک ادارے کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں میں دونوں ممالک کے تجارتی روابط میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2016ء سے 2020ء تک افغانستان کی چین کو کی جانے والی ایکسپورٹس میں تقریباً 105 فیصد اضافہ ہوا ہے، جن میں پھل، خشک فروٹ، اون، جانوروں کے بال، موتی، قیمی پتھر، دھاتیں اور سکے شامل ہیں۔ چین نے زیادہ تر الیکڑانک اور الیکٹرک آلات، مشینری، بوائلر، گاڑیاں اور ریلوے کے آلات افغانستان کو ایکسپورٹ کیے۔
گذشتہ ماہ چین اور افغانستان کی طالبان حکومت کے مابین تیل کے اخراج کا ایک منصوبہ طے پایا۔ پچیس سالہ طویل اس منصوبے میں چین کی حکومتی کمپنی کی ایک شاخ افغانستان میں تیل نکالے گی، جس سے یقیناً نہ صرف افغانستان میں سرمایہ کاری ہوگی بلکہ ملازمت کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ یہ معاہدہ افغان طالبان اور زنگ جیانگ سینٹرل ایشیاء پیٹرولیم اور گیس کے مابین ہوا ہے۔ یہ کمپنی حکومتی ادارے چائنہ نیشنل پیٹرولیم کا ہی حصہ ہے۔ اس معاہدے کے تحت یہ کمپنی افغانستان کے علاقے امو دریا سے تیل نکالے گی اور پہلے سال یہ کمپنی 150 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی، جو آئندہ تین برسوں میں 540 ملین ڈالر تک بڑھا دی جائے گی۔
ایک اندازے کے مطابق افغانستان میں روزانہ ایک ہزار ٹن سے بیس ہزار ٹن تک تیل نکالا جائے گا۔ ذبیح اللہ مجاہد کی ٹویٹ کے مطابق افغانستان ابتداء میں اس تیل کا بیس فیصد افغانستان کا حصہ ہوگا، جو آہستہ آہستہ 75 فیصد تک پہنچ جائے گا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ امو درایا کے علاقے سے تیل کے اخراج کی مقدار 87 ملین بیرل تک پہنچ جائے گی۔ معاہدے کے مطابق یہ تیل افغانستان میں ہی پراسیس کیا جائے گا۔ چین افغانستان کے ساتھ سفارتی سطح پر متعدد فورمز پر کام کر رہا ہے، اس میں بیلٹ اینڈ روڈ، افغانستان سی پیک، چائنہ کرغستان ازبکستان افغانستان کوریڈور، نارتھ ساوتھ ٹرانس افغان ریلوے، پائن نٹس ائیر ٹرانسپورٹ کوریڈور، شنگھائی تعاون تنظیم وغیرہ شامل ہیں۔ چین افغانستان کو وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے لیے ایک پل کی حیثیت دیتا ہے اور اس حوالے سے اس نے افغانستان کو ازبکستان، مزار شریف، کابل، پشاور اور پاکستان کو ملانے والی ریلوے لائن کی تیاری کی بھی پیشکش کی ہے۔
چین کی اس سرمایہ کاری کے لیے افغانستان میں امن اور استحکام لازم ہے، یہی وجہ ہے کہ متعدد سفارتی فورمز پر چینی افغانستان میں امن و استحکام کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ افغانستان کے امن کو سبوتاژ کرنے والی قوتیں ان روابط سے پریشان ہیں اور تاک تاک کر ان اقتصادی اور امن منصوبوں پر حملے کر رہی ہیں۔ حال ہی میں چینی تاجروں پر کابل ہوٹل میں ہونے والے حملے کو اسی تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ ان حملوں کی ذمہ داری اگرچہ داعش خراسان نے قبول کی ہے، تاہم عراق اور شام کے حالات کے تناظر میں ہم جانتے ہیں کہ داعش کے پیچھے درحقیقت کون سی قوتیں موجود تھیں۔
افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی شام میں جنگ کے خاتمے کے بعد داعش کے امریکی ہیلی کاپٹروں میں تورا بورا کے علاقے میں لائے جانے کی خبر دی تھی۔ بہرحال یہ عالمی قوتوں کی سیاسی پالیسیاں اور حکمت عملیاں ہیں، جو دنیا بھر میں جاری ہیں اور جاری و ساری رہیں گی۔ ان اقدامات کے یقیناً پوری دنیا پر اثرات ہوتے ہیں، تاہم خطے کے ممالک ان اقدامات سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان کو بھی اس سلسلے میں متنبہ رہنے اور اپنے مثبت کردار کو ادا کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ افغانستان کا امن اور خوشحالی خطے کے لیے امن اور خوشحالی کا باعث بنے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔