جمعہ , 19 اپریل 2024

اب ارسطو بھی پریشان ہے

(تحریر: نذر حافی)

انسان کیلئے جھگڑوں سے فرار ممکن نہیں۔ انہی جھگڑوں کا قلمی نام تاریخِ بشریّت ہے۔ بیسویں صدی کا پہلا بین الاقوامی جھگڑا 28 جولائی1914ء کو شروع ہوا۔ اسے پہلی جنگِ عظیم کا نام دیا گیا۔ اس جھگڑے میں جرمنی، آسٹریا، ہنگری، ترکی اور بلغاریہ ایک طرف تھے جبکہ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، پرتگال، جاپان اور امریکا تھے۔ 11 نومبر 1918ء تک انسانی تاریخ کی یہ مہلک ترین جنگ جاری رہی۔ 11 نومبر 1918ء کو یہ جنگ ختم ہوئی۔ اس جنگ نے انسانوں کو صلح اور امن کی اہمیّت بتائی۔ جنگ رُکی تو جنگجو دھڑوں کے درمیان 28 جون 1919ء کو معاہدہ ورسائی شروع ہوا۔ معاہدہ ورسائی نے جنوری 1920ء کو جمعیتِ اقوام (لیگ آف نیشنز) یا جمعیت الاقوام کو جنم دیا۔ جمعیت الاقوام کا مرکز جنیوا میں قائم ہوا اور اس کی تشکیل میں 28 اتحادی اور 14 غیر جانبدار ممالک پیش پیش رہے۔

استعماری طاقتوں نے اس ادارے کو ایسے ہی ناکام کیا، جیسے آج کل اقوامِ متحدہ کی ناکامی سب کے سامنے ہے۔ چنانچہ کچھ سال مزاحمت کرنے کے بعد بالآخر 18 اپریل 1946ء کو اس جمعیّت کا خاتمہ ہوگیا۔ جمعیت الاقوام کی ناکامیوں نے دنیا میں دوسرے بین الاقوامی جھگڑے کو جنم دیا۔ اسے دوسری جنگِ عظیم کہا گیا اور یہ جھگڑا 1939ء سے 1945ء تک جاری رہا۔ اس جھگڑے میں اکسٹھ ممالک نے ایک دوسرے پر شب خون مارا۔ اسی فیصد انسان ہلاک، مہاجر، زخمی یا معذور ہوئے۔ ایک ارب سے زائد فوجیوں نے یہ لڑائی لڑی اور پانچ کروڑ انسان میدنِ جنگ میں مارے گئے۔ اس جنگ نے بنی نوعِ انسان کو ایک مرتبہ پھر یہ درس دیا کہ جنگ سے بچنا ضروری ہے۔

چنانچہ 25 اپریل سے 26 جون 1945ء تک امریکا میں سان فرانسسکو کے مقام پر پچاس ملکوں کے مابین ایک نمائندہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرس کے نتیجے میں 24 اکتوبر 1945ء کو اقوامِ متحدہ یعنی United Nations Organisation کا ادارہ وجود میں لایا گیا۔ اس کا نام United Nations Organisation انتخاب کرنے کی تجویز امریکا کے سابق صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ نے دی۔ اکیاون ممبران سے آغاز کیا گیا اور اس وقت 193 ممالک اس کے اراکین ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں امریکا اور روس کا مقابلہ اپنے متحدہ دشمن جرمنی کے ساتھ تھا۔ جب جرمنی اور اس کے اتحادیوں کو شکست ہوگئی تو اب بطورِ طاقت صرف امریکا اور روس ہی باقی بچے۔ دنیا میں دو ہی بڑی طاقتیں رہ گئیں اور دو ہی بلاک سامنے آئے، ایک امریکی بلاک اور دوسرا روسی بلاک۔

دنیا کو دو جیو پولیٹیکل زونز میں بانٹ دیا گیا۔ اسی بندربانٹ نے آگے چل کر سرد جنگ کو جنم دیا۔ اب جہاں استعماری طاقتوں کی طرف سے ایک طرف اقوامِ متحدہ کا ادارہ وجود میں لایا گیا، وہاں دوسری طرف سرد جنگ کا غیر اعلانیہ آغاز بھی کر دیا گیا۔ اقوامِ متحدہ نے گرم اسلحے کی جنگ کو تو روکے رکھا، لیکن سرد جنگ ساری دنیا میں پھیل گئی۔ 1940ء سے 1990ء کے درمیانی پچاس سالوں میں یہ جنگ انتہائی مہارت اور احتیاط کے ساتھ لڑی گئی۔ ٹیکنالوجی کی دوڑ، نئے اقتصادی و عسکری اتحاد، جاسوسی، سفارتکاری اور خلائی و جنگی ٹیکنالوجی کی دوڑ نے لڑائی جھگڑے اور لوٹ کھسوٹ کا ایک نیا انداز متعارف کرایا۔ اس نئے انداز کی طولانی اور اعصاب شکن جنگ کے باعث 1991ء میں روس کو شکست ہوئی اور اس کے حصّے بخرے ہوگئے۔

سرد جنگ کے دوران استعمار کی طرف سے انسانی دنیا کو تین حصّوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس تقسیم اور درجہ بندی کیلئے جی این پی، جی ڈی پی، ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس، اوسط عمر، شرح خواندگی اور دیگر بہت سارے معیارات کو بظاہر سامنے رکھا جاتا ہے۔ اس تقسیم کے تحت انسان پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کے لوگ کہلائے۔ استعماری مفادات کے حصول کیلئے یہ تقسیم ناگزیر تھی۔ یوں سمجھ لیجئے کہ دنیا کے تین ٹکڑے کئے گئے۔ ایک ٹکڑا امریکہ اور اس کے اتحادیوں (نیٹو فورسز) کا تھا۔ اسے پہلی دنیا کہا گیا۔ دوسرا ٹکڑا روس اور اس کے اتحادیوں کا تھا، اسے دوسری دنیا کہا گیا جبکہ تیسرا ٹکڑا اُن لوگوں پر مشتمل ہے، جو نیٹو فورسز میں بھی شامل نہیں ہوسکے اور کمیونسٹ بھی نہیں بن سکے، نیز دنیا کو کوئی معیاری نظام بھی نہیں دے پائے۔ ایسے لوگوں کی دنیا کو تیسری دنیا کا نام دیا گیا۔ تیسری دنیا کے ممالک وہ ہیں، جو ہاتھیوں کی لڑائی میں کھیت کا کام دیتے رہے۔

سردجنگ ختم ہوئی تو طاقت کے نکتہ نظر سے دوسری دنیا کا بلاک منہدم ہوگیا اور تیسری دنیا حسبِ سابق باقی رہی۔ اس وقت ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پذیر ممالک کی ایک نئی تقسیم متعارف کرائی گئی۔ نئی تقسیم کے باوجود دوسری دنیا کا بلاک طاقت کے اعتبار سے منہدم تو ہوا جبکہ اپنے وجود کے اعتبار سے وہ پہلی یا تیسری دنیا میں ضم بھی نہیں ہوا۔ یعنی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر سے ہٹ کر عملاً تین دنیائیں آج بھی موجود ہیں۔ تیسری دنیا والوں میں زیادہ تر دنیا و ما فیہا سے بے خبر لوگ بستے ہیں۔ اِن کے نزدیک کچھ بھی اس لئے درست یا غلط ہے، چونکہ ارسطو کے نزدیک درست یا غلط ہے۔ یہ درست یا غلط کو سمجھنے کی زحمت کرنا گوارا نہیں کرتے۔ ان کے ہاں خود تحقیق کرنا اور مسائل کو سمجھنا ایک فضول کام ہے، لہذا جو ارسطو نے کہہ دیا ہے، وہی حرفِ آخر ہے۔

پہلی دنیا اور دوسری دنیا کے لوگ ہماری اس تیسری دنیا کے لوگوں سے یکسر مختلف ہیں۔ اُن کے سارے جھگڑوں کی وجہ اُن کا مفاد اور فائدہ ہے۔ اُن کیلئے جمہوریّت صرف اس لئے اچھی نہیں ہے، چونکہ ارسطو نے اسے اچھا کہا ہے اور نہ ہی آمریت اس لئے بُری ہے کہ فلاں نے اُسے بُرا کہا ہے۔ اُن کے نزدیک جمہوریّت یا آمریّت اس لئے اچھی ہے، چونکہ اُن کے مُفادات کو پورا کرتی ہے۔ چنانچہ اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار کہلانے والی ریاستوں کے نزدیک خلیجی ممالک کی آمریّتیں نہایت ہی اچھی ہیں، چونکہ خلیجی ریاستیں اُن کے مفادات کے سامنے رُکاوٹ نہیں بنتیں۔ سارے ممالک کیلئے جمہوریّت کا معنی و مفہوم یکساں نہیں۔ برطانیہ کی جمہوریت چین کی جمہوریّت سے اور ہندوستان کی جمہوریت ایران کی جمہوریت سے، اسی طرح طالبان کی جمہوریت پاکستان کی جمہوریت سے قطعاً مختلف ہے۔ یہاں نہ صرف جمہوریت کی تعریف مختلف ہو جاتی ہے، بلکہ جمہوری عمل میں اختلاف بھی واضح ہے۔

پہلی دنیا اور دوسری دنیا کے ممالک اپنے مفادات کے تعیّن، اُن کے حصول کیلئے سفارتکاری، جدید نظریات کے بارے میں مکالمہ، پیچیدہ مسائل پر مذاکرات، نیز مطالعات اور مطالعات کے بعد تحقیقات اور تحقیقات کے بعد ایجادات کے راستے پر گامزن ہیں۔ اب رہ گئے تیسری دنیا کے لوگ تو۔۔۔ یہ تو ابھی تک ان بحثوں سے نا آشنا ہیں۔ یہ اپنے دوست اور دشمن نیز اپنے مفادات کو بھی نہیں پہچانتے اور نہیں جانتے۔ اس نہ پہچاننے اور نہ جاننے کا نتیجہ یہ ہے کہ استعماری حلقے تحقیقات و ایجادات کرتے ہیں اور تیسری دنیا کے لوگ صرف خریدتے اور خرچ کرتے ہیں۔ تیسری دنیا کے لوگ آج تک اپنے مشترکہ دوستوں اور دشمنوں کی شناخت، اپنے لئے مناسب نظامِ حکومت اور سیاسی عمل کا تعیّن، اپنے عوام کیلئے مطلوبہ نظامِ تعلیم، اپنے ہاں انسانی حقوق اور عدل و انصاف کا معیاری نظام بھی وضع نہیں کرسکے۔ یہ اپنے مشترکہ مفادات کا حصول بھی نہیں جانتے۔ یہی سب کچھ اُن کی عقب ماندگی کی دلیل ہے۔

استعماری طاقتوں کے نزدیک تیسری دنیا کے باشندے چونکہ عقب ماندہ ہیں، لہذا یہ صرف برائے نام انسان ہیں۔ قدرتی وسائل اور سائنس و ٹیکنالوجی نیز جدید تعلیم کے اوپر بھی انہیں صرف اتنا ہی حق حاصل ہے، جتنا ایک دکان میں خریدار کو ہوتا ہے۔ اسی لئے ان کے ہاتھوں میں قدرتی وسائل اور سائنس و ٹیکنالوجی کو بھی نہیں دیا جا سکتا۔ یہی وہ سوچ ہے، جو پاکستان اور ایران جیسے متعدد ترقی پذیر ممالک پر پابندیوں کا پیش خیمہ ہے۔ یہ سوچ استعماری طاقتوں کی مشترکہ سوچ ہے، لہذا اسے آسانی سے نہیں بدلا جا سکتا۔ اس وقت ترقی پذیر ممالک اور تیسری دنیا کے لوگوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے نظامِ حکومت، نیز تعلیمی نظام، خود کفالت اور سائنس و ٹیکنالوجی کے اعتبار ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ تاہم المیہ یہ ہے کہ تیسری دنیا کے لوگ ایرانی مقاومت اور پیشرفت و ترقی کے راز کو سمجھنے کے بجائے صرف بھیک مانگنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس راز سے بے خبری کا نتیجہ یہ ہے کہ تیسری دنیا کے لوگ صرف بھیک مانگتے، خریدتے اور خرچ کرتے ہیں۔

بس یوں سمجھ لیجئے کہ دنیا بھینس سے دودھ، دودھ سے دہی، دہی سے لسّی اور لسّی سے مکھن بنا کر بیچ رہی ہے اور ہمارے ہاں مکھن کو بھینس ثابت کرنے کیلئے دلائل لائے جا رہے ہیں۔ اگر یقین نہ آئے تو کبھی اپنے ہاں جمہوریّت کے موضوع پر ہی لوگوں کی گفتگو سُنئے گا۔ بس ارسطو نے جو کہا، وہی ٹھیک ہے۔۔۔ اب خود نہ سمجھنا اور ارسطو ارسطو کی رٹ لگائے رکھنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ اِسے اب ارسطو بھی حل نہیں کرسکتا۔ یقین جانئے کہ سمجھنے اور سوچنے کے بجائے ہماری اس "ارسطو نے کہا، ارسطو نے کہا” کی رٹ سے اب ارسطو بھی پریشان ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …