جمعرات , 25 اپریل 2024

کیا روس، یوکرین جنگ دنیا پر امریکہ کی بالادستی اور موجودہ عالمی نظام کے خاتمے کا آغاز ہے؟

(زبیر احمد)

یوکرین پر روس کے حملے کا دوسرا سال شروع ہو گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس جنگ نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ مغربی ممالک کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ اس جنگ نے موجودہ عالمی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کا نظام اصولوں پر قائم ہے اور ان قوانین میں تبدیلی کے واضح آثار اب موجود ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک (امریکہ اور یورپی ممالک) انڈیا، چین، جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے ترقی پذیر ممالک کو روسی جارحیت کے خلاف لڑنے کے لیے اپنا ساتھ دینے پر راضی کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔

مغربی ممالک یوکرین پر روس کے حملے کو نہ صرف یورپ پر حملہ بلکہ جمہوری دنیا پر حملہ قرار دے رہے ہیں اور اسی لیے وہ چاہتے ہیں کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقتیں یوکرین پر حملے کی وجہ سے روس کی مذمت کریں۔

لیکن انڈیا اور چین کے ساتھ ساتھ بہت سے دوسرے ترقی پذیر ممالک بھی روس اور یوکرین کی جنگ کو پوری دنیا کے لیے درد سر نہیں سمجھتے۔ یہ ممالک بڑی حد تک اس جنگ کو یورپ کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔

گذشتہ برس سلوواکیہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کرتے ہوئے، انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے یورپ پر زور دیا کہ وہ اس ذہنیت سے اوپر اٹھے کہ ’یورپ کے مسائل دنیا کا درد سر ہیں۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

یورپ اور امریکہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا اور چین کا روسی صدر پوتن کو جنگ کے لیے جوابدہ ٹھہرانے سے انکار موجودہ قوانین پر مبنی عالمی نظام کے وجود کے لیے خطرہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ترقی پذیر ممالک نے یوکرین کی جنگ کے حوالے سے انتہائی سوچ سمجھ کر غیر جانبداری کا راستہ چُنا ہے جو بین الاقوامی قوانین اور استحکام کے بجائے ان کے اپنے مفادات کو مقدم رکھتا ہے۔ اور غیر مغربی ممالک کا یہ رویہ بالآخر روس کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہا ہے۔

شام میں فرانس کے سابق سفیر اور پیرس میں قائم تھنک ٹینک انسٹیٹیوٹ مونٹیگن کے خصوصی مشیر مشیل ڈوکلو کا کہنا ہے کہ ’معاشی محاذ پر، روس کو انڈیا اور سعودی عرب جیسے ممالک کی طرف سے چلائی جا رہی سیاست سے فائدہ ہو رہا ہے۔‘

امریکی سکالر جان ایکن بیری کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کی زیر قیادت موجودہ عالمی نظام شدید مشکلات کا شکار ہے۔

ایکن بیری کہتے ہیں کہ ’موجودہ ورلڈ آرڈر دوسری جنگ عظیم کے بعد کے زمانے میں امریکہ نے بنایا تھا۔ پچھلے 70 سالوں سے، یہ ورلڈ آرڈر مغرب کے مرکز میں لبرل انٹرنیشنل آرڈر کی رہنمائی کر رہا ہے۔ یہ قواعد و ضوابط اور کثیرالجہتی تعاون کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں ’آج یہ بین الاقوامی نظام شدید مشکلات کا شکار ہے۔ مشرق وسطیٰ، مشرقی ایشیا اور یہاں تک کہ مغربی یورپ میں دیرینہ علاقائی نظام یا تو تبدیلی سے گزر رہے ہیں، یا وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ عالمی بین الاقوامی معاہدے، ادارے، تجارت اور ہتھیاروں کے کنٹرول سے۔ اور انسانی حقوق کا ماحول کمزور ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔‘

تاہم یوکرین میں جنگ شروع ہونے سے بہت پہلے موجودہ عالمی نظام کو چین جیسی ابھرتی ہوئی عالمی طاقتیں چیلنج کر رہی تھیں۔ اور انڈیا جیسے ممالک یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ ابھرتی ہوئی طاقتوں کو اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں میں نمائندگی کیوں نہیں دی جانی چاہیے؟

دلچسپ بات یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے ماہرین کا خیال ہے کہ امریکی قیادت میں بین الاقوامی نظام کا یہ بحران ابھرتے ہوئے ممالک کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گا۔ خاص طور پر چین، انڈیا اور دیگر غیر مغربی ترقی پذیر ممالک کے لیے۔ ان مواقع کی مدد سے یہ ترقی پذیر ممالک عالمی نظام کو نئی شکل دینے کے قابل ہو جائیں گے۔

ان ممالک میں نئے ورلڈ آرڈر کا مطالبہ کرنے والی آوازیں بلند ہوتی جا رہی ہیں۔ گذشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں اعلان کیا تھا کہ ’میں واضح طور پر دیکھ سکتا ہوں کہ کورونا وبا کے بعد ہم تیزی سے ایک نئے عالمی نظام، ایک نئی مساوات کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ بہت اہم موڑ ہے۔ ہم اس موقع کو گنوانا نہیں چاہتے۔ انڈیا کی آواز کو دنیا کے مرکزی سٹیج پر بلند اور صاف سُنا جانا چاہیے۔‘

لیکن، بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ابھرتے ہوئے ممالک ایک نیا ورلڈ آرڈر بنانے کے لیے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے قوانین اور اداروں کی اصلاح اور تنظیم نو کی کوشش کر رہے ہیں؟ یا وہ موجودہ ورلڈ آرڈر کی طاقت میں حصہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں؟

مصنف، صحافی اور انڈیا کے سابق وزیر مملکت برائے امور خارجہ ایم جے اکبر اس سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ’جب آپ ورلڈ آرڈر کہتے ہیں تو کوئی ایک ورلڈ آرڈر کامل ورلڈ آرڈر نہیں ہے۔ ہر ’ورلڈ آرڈر‘ ایک جزوی ورلڈ آرڈر ہے۔ دنیا کے موجودہ اصول و ضوابط کا فیصلہ دوسری عالمی جنگ کے فاتحین نے کیا تھا۔ مغرب بھی اپنے اندر کبھی متحد نہیں رہا۔ آخر روس بھی مغرب کا حصہ ہے۔‘

’پورا یورپ موجودہ ورلڈ آرڈر میں کبھی شامل نہیں تھا۔ یہ ایک جزوی ورلڈ آرڈر تھا اور جوں کا توں رہے گا۔ آپ اس وقت جو کچھ دیکھ رہے ہیں (روس کا یوکرین پر حملہ) دراصل پرانے تنازعات کے اسی سلسلے کی ایک نئی کڑی ہے، جسے میں تیسری عالمی جنگ کا نام دینا چاہوں گا۔ سرد جنگ دراصل تیسری عالمی جنگ تھی۔ اسے تیسری عالمی جنگ کا نام دیا گیا کیونکہ یورپ نے اس میں کبھی جنگ نہیں لڑی۔ لیکن، یہ جنگ ویتنام میں بہت لڑی گئی۔‘

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’افریقہ اور لاطینی امریکہ بھی میدان جنگ بن گئے۔ اور اب جنگ یورپ میں واپس آ گئی ہے.‘

ہانگ کانگ اور کوالالمپور میں مقیم ایک آزاد ایشیائی تھنک ٹینک گلوبل انسٹیٹیوٹ فار ٹومارو کے بانی اور سی ای او چندرن نائر کہتے ہیں ’یہ ایک اہم موڑ نہیں ہے۔ یہ ایک غیر ضروری جنگ ہے۔ لیکن، جب آپ اس کا موازنہ عراق یا افغانستان پر مسلط کی گئی جنگوں سے کریں تو یہ بہت چھوٹی جنگ ہے۔ اس بات کو آپ ان جنگوں میں مارے جانے والے لوگوں کی تعداد سے سمجھ سکتے ہیں۔‘

انڈیا کے وزیر خارجہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ ’ہم کسی کی طرف نہیں لے رہے لیکن اپنے لوگوں کے مفادات کا خیال رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، اگر روس سے سستا تیل ملتا ہے تو ہم خریدیں گے۔‘

یورپ روس سے جتنا تیل خریدتا ہے اس کے مقابلے ہندوستان بہت کم مقدار میں تیل خریدتا ہے۔ اگر یہ جنگ ایک اہم موڑ ہے تو یہ دو طرح سے ہے: پہلا یہ کہ دنیا اب اس جھوٹ سے آگاہ ہو چکی ہے کہ جنگیں ہمیشہ مغربی ممالک کے مفادات کی وجہ سے شروع نہیں ہوتیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ڈالر کے غلبے پر سنگین سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ تو یہاں حقیقی تبدیلی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مغربی ممالک کی منافقت بے نقاب ہو چکی ہے۔

نوآبادیاتی دور میں سفارت کاروں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ انھیں باقی دنیا کے ساتھ طاقت کا اشتراک کرنا ہے۔ اس کو قبول نہ کرنا اس کے زوال کا سبب بنے گا۔ اور بدقسمتی سے یہ سوچ صدیوں کے تسلط اور خود پسندی کا نتیجہ ہے جو اب لبرل ازم کے نقاب میں ملبوس ہے۔ لیکن اب یہ نقاب ہٹا دیا گیا ہے اور میرا امریکی اور یورپی دوستوں کو مشورہ ہے کہ وہ اپنی نسل پرستانہ سوچ سے جان چھڑائیں۔ آپ کو دوسروں کے ساتھ بانٹ کر کھانا سیکھنا ہو گا۔

مرکز برائے بین الاقوامی سیاست، تنظیم اور تخفیف اسلحہ، جے این یو کے پروفیسر ہیپیمون جیکب کہتے ہیں کہ ’موجودہ نظام نہ تو بین الاقوامی ہے اور نہ ہی منظم ہے۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے فاتحین کے لیے بنایا گیا امریکہ پر مبنی نظام تھا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس وقت ایک طرف امریکہ کی زیر قیادت ورلڈ آرڈر اور دوسری طرف چین، وسطی ایشیائی ممالک، روس اور ترکی وغیرہ کے درمیان کوئی نیا جیو پولیٹیکل آرڈر اُبھر رہا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’میں واضح طور پر دونوں کے درمیان دراڑ نہیں دیکھ رہا ہوں، جس کا ایم جے اکبر نے حوالہ دیا۔ ایسا کیوں؟ کیونکہ اول تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس جنگ کے بعد روس بہت کمزور ہو جائے گا اور دوسری بات یہ کہ چین اتنا بے وقوف نہیں کہ مکمل طور پر روس کے ساتھ ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ چین بڑی شان سے آگے بڑھ رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ دنیا کا ایک ایسا حصہ ہے، جو ابھی تک یہ طے نہیں کرسکا کہ وہ کس طرف جائے گا۔‘

’چین کسی بھی اوسط ترقی پذیر ملک جیسا نہیں رہا۔ تاہم میں انڈیا، برازیل، جنوبی افریقہ اور بیشتر افریقہ کو ترقی پذیر ممالک کی فہرست میں رکھوں گا۔ میری نظر میں اس کی وجہ ان کا طریقہ کار ہے، جس کے ذریعے وہ بین الاقوامی مسائل پر اپنی بات رکھنے اور قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

ایم جے اکبر کہتے ہیں کہ ’امریکہ کا غلبہ صرف دو وجوہات کی وجہ سے ہے اس کی فوج اور اس کی شاندار ایجادات اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی۔ یہ امریکی طاقت کے دو مضبوط ترین ستون ہیں۔ باقی چیزوں کا تعلق ان سے ہے خواہ وہ ان کی فلمیں ہوں یا میڈیا کی سافٹ پاور۔‘

چین کے علاوہ آج باقی دنیا کا تمام مواصلاتی نظام پانچ امریکی کمپنیوں کے کنٹرول میں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج، یوکرین کی جنگ واقعی کون لڑ رہا ہے؟ ایلون مسک کا سٹار لنک سیٹلائٹ یوکرین کی جنگ میں سب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ امریکیوں کی تکنیکی ترقی ہے جس کی وجہ سے امریکہ نے اپنے پرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے جتنی کامیابیاں حاصل کی ہیں اتنی ہی حکومتی طاقت کے بل بوتے پر حاصل کی ہیں۔‘

ایم جے اکبر کہتے ہیں ’اصل ترتیب جو اب اُبھر رہی ہے وہ یوریشین ورلڈ آرڈر ہے۔ اگر آپ اس میں روس اور چین کے زمینی علاقوں کو شامل کریں، جو اس صدی کے اس وقت سب سے اہم شراکت دار بن رہے ہیں، تو یہ زمینی علاقہ پولینڈ کی سرحد سے انڈیا تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ نیا ورلڈ آرڈر ہے۔ اس ورلڈ آرڈر میں آپ مشرق وسطیٰ کے ساتھی ممالک کے ساتھ ایران اور شام کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔‘

چندرن نائر کہتے ہیں انڈیا، چین اور دیگر ترقی پذیر ممالک ایک مختلف عالمی نظام چاہتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس حقیقت کے بارے میں بھی محتاط رہنا ہو گا کہ لوگ ایشیائی صدی چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ایشیائی صدی کا تصور ہی غلط ہے۔ کیونکہ ایشیائی صدی بالکل وہی سوچ ہے جو ترقی یافتہ طاقتوں کی تھی۔ دنیا نے برطانوی صدی کو سو سال تک دیکھا۔ اس کے بعد ہمیں امریکی سنچری کا سامنا کرنا پڑا۔ اور اب ہم ایشیائی صدی چاہتے ہیں۔ اس طرح ہم دنیا کو تباہ کر دیں گے کیونکہ ہم بہت بڑے اور بہت بڑے ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ترقی پذیر ممالک اصلاحات چاہتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اصول پر مبنی نظام مکمل طور پر بیکار ہے۔ مثال کے طور پر، میں نے دلیل دی ہے کہ انڈیا کو بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (P-5) کے مستقل ارکان میں شامل کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ یہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔‘

’چین انڈیا کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کی تجویز کرے۔ آپ انڈیا کو سلامتی کونسل میں لاتے ہیں اور پھر آپ افریقی یونین کو بھی شامل کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ اس کے سات مستقل ارکان (P7) بناتے ہیں۔ بہت ساری عالمی تنظیمیں ہیں جن میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، ورلڈ بینک اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں۔‘

چندرن نائر مزید کہتے ہیں کہ ’ہر ملک کا اپنا سیاسی نظام ہے اور وہاں جمہوریت کو زبردستی فروغ دینا یا مسلط کرنا اچھی بات نہیں۔ حال ہی میں میں جکارتہ میں تھا، جہاں لوگوں نے کہا کہ نظام میں اصل اہمیت نمائندگی کو دی جانی چاہیے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی سب سے زیادہ مقبول ہے اور اس کی مقبولیت مغربی ممالک کی کسی بھی سیاسی جماعت سے زیادہ ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ انھوں نے اپنے لوگوں کو وہ سہولیات دینی ہیں جنھیں وہ بنیادی حقوق کہتے ہیں۔ تعلیم، صحت کی سہولیات، مکان، نوکری وغیرہ کا حق۔ وہ احتجاج اور عمارتوں کو جلا کر راکھ کرنے کا حق نہیں دیں گے۔ چینی حکومت اسے برداشت نہیں کرے گی۔‘

ان کے بقول ’چونکہ انڈیا کی آبادی ڈیڑھ ارب کے قریب پہنچ رہی ہے، اس لیے میری نظر میں انڈیا کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ جمہوری نظام کے دائرے میں یہ حقوق کیسے دے پائے گا؟ یہ کام بہت مشکل ہے۔ اجتماعی مفاد کو انفرادی مفاد پر ترجیح دینی چاہیے۔‘

پروفیسر ہیپیمون جیکب کہتے ہیں ’یہاں تک کہ اگر دنیا میں ایسی کوئی تقسیم ہوتی ہے، جس کی طرف ایم جے اکبر نے اشارہ کیا ہے، تب بھی مجھے نہیں لگتا کہ انڈیا چین یا روس سے اپنی قربت بڑھائے گا۔ انڈیا کا روس سے دور ہونے کا سفر شروع ہو گیا ہے۔ انڈیا کے امریکہ اور مغربی ممالک کے قریب ہونے کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ انڈیا امریکہ کے اتنا قریب کبھی نہیں تھا جتنا آج ہے۔ لہٰذا یہ صرف وقت کی بات ہے کہ انڈیا مغربی ممالک اور اس کے مغربی پارٹنرز کے قریب تر ہو جائے گا۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ اور مغربی ممالک کو اس خطے میں انڈیا کے ساتھ کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی انڈیا کو اس خطے یا دیگر علاقوں میں ان کے قریب آنے کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ انڈیا اور مغربی ممالک اور امریکہ کے مفادات کہیں نہ کہیں ملتے ہیں یا ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔‘

’اس کی بنیادی وجہ چین ہے۔ بہت سے معاملات میں، امریکہ کے خلاف انڈیا کی مخالفت میں اس کمی کا تعلق پچھلے 15-20 سالوں میں چین کے عروج سے ہے۔ چنانچہ پچھلے تقریباً 20 سالوں میں اس سمت میں کافی ترقی ہوئی ہے اور چین ایک بڑا عنصر ہے جس نے انڈیا کو اس سمت میں دھکیل دیا ہے۔ چنانچہ چین کی طاقت جتنی بڑھے گی، انڈیا اتنا ہی مغربی ممالک کی سمت جائے گا۔‘

ایم جے اکبر کا کہنا ہے کہ ’موجودہ عالمی نظام کے خلاف شکایات کی ایک تاریخ ہے۔ اس کی بڑی وجہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کا ڈھانچہ بھی ہے۔ ویٹو کا حق صرف پانچ ممالک کو کیوں ملنا چاہیے؟ اقوام متحدہ کی دنیا ان ممالک کی نئی اقتصادی تبدیلیوں اور تزویراتی اثرات کی نمائندگی نہیں کرتی ہے جو نوآبادیاتی دور کے بعد کی دنیا میں ابھرے ہیں، خاص طور پر انڈیا۔‘

وہ کہتے ہیں ’انڈیا کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن بنانا آگے بڑھنے کا راستہ ہوسکتا ہے۔ کوئی نہ کوئی نیا بندوبست کرنا پڑے گا۔ جب تک سلامتی کونسل میں اصلاحات نہیں کی جاتیں اس وقت تک عالمی نظام جسے آپ امریکہ کی قیادت میں دنیا کہتے ہیں چیلنج ہوتا رہے گا۔‘

ایم جے اکبر کا کہنا ہے کہ ’انڈیا اور چین، دونوں ممالک دنیا کی بڑی طاقتیں ہیں۔ دنیا کو ماننا پڑے گا کہ یہ 1946 نہیں ہے۔ لیکن، چین کا معاملہ مختلف ہے، کیونکہ چین سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے۔ ایک طرح سے، چین کی موجودگی اس کی طاقت سے زیادہ ہے، کیونکہ حالیہ برسوں تک، پچھلی صدی کے آخر تک، چین کے پاس نہ تو معاشی طاقت تھی اور نہ ہی آج وہ سیاسی اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ لیکن، چین نے بھی امریکہ کے تسلط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔‘

اس بارے میں چندرن نائر کا خیال ہے کہ اگلے تین سال یا زیادہ سے زیادہ پانچ سالوں میں انڈیا کو کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن جانا چاہیے۔ لیکن ان میں افریقی یونین کو بھی شامل کرنا چاہیے۔

وہ کہتے ہی ںکہ ’انڈیا کے لیے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کے لیے ایسے معاشی اور سیاسی ماڈل کی ضرورت ہے، تاکہ اس کا وژن برقرار رہے اور ملک کی سیاسی صورتحال برقرار رہے۔ میری نظر میں اس میں ایک بڑا سوال پوشیدہ ہے کہ مودی کے بعد کون آئے گا؟ اگلے 30 سالوں کا پلان کس کے پاس ہے؟‘

وہ کہتے ہییں ’آپ پانچ سال کے چکروں میں اپنے چیلنجوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ اگر آپ 30 سال چاہتے ہیں تو اگلے تین سے پانچ سالوں میں انڈیا کم از کم سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن جائے گا۔ لیکن، اسے اگلے 30 سالوں تک اپنے وژن کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔‘

ان کے بقول انڈیا کو دور رس معاشی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ ’چینیوں نے یہی کیا ہے اور اس چیلنج سے چھٹکارا پانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘

پروفیسر ہیپیمون جیکب کہتے ہیں موجودہ صورتحال میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں اضافے کا امکان بہت کم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’چین نہ تو انڈیا کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے دے رہا ہے اور نہ ہی اسے این ایس جی میں شامل ہونے کی اجازت دے رہا ہے۔ اس وجہ سے میں نہیں سمجھتا کہ انڈیا کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی خواہش مستقبل قریب میں پوری ہونے والی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی نظم کی موجودہ انتظامیہ کا کوئی جواز نہیں ہے، اور اس کا کوئی اثر باقی نہیں رہا۔ یہ نظام یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف کچھ کہنے یا اعتماد سازی کا کوئی قدم اٹھانے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔‘

پروفیسر ہیپیمون جیکب کہتے ہی ںکہ ’ یہ موجودہ ورلڈ آرڈر یا اس نظام کے انتظامی ڈھانچے کے ٹوٹ پھوٹ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب اگر موجودہ عالمی نظام کا انتظامی ڈھانچہ منہدم ہو گیا ہے اور اب اگر بڑی طاقتوں کے درمیان یہ معاہدہ ہو جائے کہ نیا ڈھانچہ قائم کیا جائے یا نیا انتظامی ڈھانچہ بنایا جائے تو بھارت اس کا حصہ ہو گا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ انڈیا کو موجودہ نظام میں شامل کیا جائے گا۔‘بشکریہ بی بی سی

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …