ماہ فروری میں دارالحکومت ریاض میں منعقدہ لیپ 2023ع نامی کانفرنس میں "اسرائیلی تاجروں اور سرمایہ کاروں” کی وسیع پیمانے پر شرکت کے لئے بلانے پر مبنی گھناؤنے اسکینڈل کے انکشاف کے بعد، لگتا ہے کہ سعودی حکومت نے امارات اور بحرین کے برعکس، "اسرائیل” کے ساتھ تعلقات یکبارگی سے بحال کرنے کے بجائے، بتدریج معمول پر لانے کا طریقۂ کار اپنا لیا ہے۔
ماہ فروری میں دارالحکومت ریاض میں منعقدہ لیپ 2023ع نامی کانفرنس میں “اسرائیلی تاجروں اور سرمایہ کاروں” کی وسیع پیمانے پر شرکت کے لئے بلانے پر مبنی گھناؤنے اسکینڈل کے انکشاف کے بعد، لگتا ہے کہ سعودی حکومت نے امارات اور بحرین کے برعکس، “اسرائیل” کے ساتھ تعلقات یکبارگی سے بحال کرنے کے بجائے، بتدریج معمول پر لانے کا طریقۂ کار اپنا لیا ہے۔
اس رسوائی کا انکشاف کرنے والے سفارتی ذرائع نے 6 سے 9 فروری کے دوران منعقدہ ریاض کانفرنس میں شریک یہودی-صہیونی تاجروں کی فہرست جاری کرنے کے بعد، اس اہم اور افسوسناک واقعے کا انکشاف کیا جس پر سعودی سعودی حکمرانوں نے پردہ ڈالنے کی کوششوں کی؛ یہاں تک کہ سعودی اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں سے کسی نے بھی کانفرنس میں یہودی تاجروں اور سرمایہ کاروں کی وسیع اور نمایاں موجودگی – اور اسرائیلی ریاست کی طرف سے تعلقات معمول پر لانے کی تفویضہ کردہ ذمہ داریوں – کے باوجود، ان کی شرکت کے بارے میں کچھ نہ کہا اور نہ لکھا۔
ریاض میں ٹیکنالوجی کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس میں مضبوط اسرائیلی کردار، سعودی عرب میں خطرناک اسرائیلی دراندازی کے زمرے میں آتا ہے؛ اور اس نقوذ اور دراندازی کا خطرہ اس حقیقت میں مضمر ہے کہ یہ سب کچھ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی پشت پناہی میں ہو رہا ہے۔
ریاض کانفرنس میں یہودی-صہیونی تاجروں اور سرمایہ کاروں کی اس بڑی تعداد کی موجودگی اور سعودی کمپنیوں کے ساتھ متعدد معاہدوں اور مفاہمت ناموں پر دستخطوں کے علاوہ،
کانفرنس میں اسرائیلی تاجروں اور سرمایہ کاروں کی اس بڑی تعداد کی موجودگی اور سعودی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کرنے سے بڑھ کر قابل ذکر واقعہ اس کانفرنس میں “ربی یعقوب ہرزوگ” (Rabbi Jacob Herzog) کی شرکت تھی جو ہمیشہ اپنی شناخت “سعودی عرب کے ربی” کے طور پر کراتا ہے، اور سعودی عرب کا مستقل رہائشی ہے۔ اس یہودی ربی نے کانفرنس میں اپنی شرکت کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ “میں صرف “نشر البرکۃ” (برکت پھیلانے) کی خاطر کانفرنس میں حاضر ہؤا ہوں!”بشکریہ ابنا نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔