جمعرات , 18 اپریل 2024

8 مارچ ، خواتین کا دن

(ڈاکٹر توصیف احمد) 

خواتین مردوں کے شانہ بشانہ زندگی کی دوڑ میں شامل ہو کر غربت و افلاس کا خاتمہ کرسکتی ہیں۔ خواتین کی مردوں کے ساتھ برابری کی حیثیت کے لیے جدوجہد کی ایک طویل تاریخ ہے۔

8 مارچ کا دن پوری دنیا میں خواتین کے عالمی دن کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دینے کے لیے یورپ کی محنت کش خواتین نے زبردست قربانیاں دی ہیں۔

نعیم مرزا کا تعلق پنجاب کے ترقی پسند خاندان سے ہے، ایک مارکسی دانشور ہیں۔ ان کی کتاب ’’تاریخ کی عظیم فیمینسٹ عورتیں، حیات ، نظریے اور تحریکیں ‘‘ خواتین کی بین الاقوامی جدوجہد کی تاریخ پر محیط ہے۔
اس کتاب کے آٹھویں باب میں کلارازیئکس کے عنوان سے خواتین کے عالمی دن کی تاریخی اہمیت کو بیان کیا گیا کہ ’’ عورتوں کا عالمی دن جو دنیا بھر میں ہر سال 8 مارچ کو بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس کا سہرا محنت کش عورتوں کو جاتا ہے۔

1906میں نیویارک میں ملبوسات سازی کی صنعت سے وابستہ سیکڑوں خواتین کے اوقات کار میں کمی اور اپنی یونین کی تشکیل کے مطالبے کے لیے شہر کے تجارتی مرکز مین ہیٹن (Manhattan) کے قریب رٹگرز اسکولز میں مظاہرہ کیا گیا۔

اس تاریخی مظاہرہ کا انعقاد 8 مارچ کو ہوا تھا ، یہ احتجاج اگلے برس کپاس تیار کرنے والی 30ہزار خواتین کے مظاہرہ کا باعث بنا اور امریکی محنت کش عورتوں کی پہلی مستقل ٹریڈ یونین کی تشکیل پر منتج ہوا۔ امریکی عورتوں کی شاندار کامیابی کی خبریں یورپ پہنچیں تو انقلابی سوشلسٹ عورتوں کی صفوں میں ہیجان آمیز خوش کن ہلچل مچ گئی۔

1909 میں امریکا کی سوشلسٹ پارٹی نے 28 فروری کو نیویارک شہر میں عورتوں کا عالمی دن منایا۔ سوشلسٹ عورتوں کی دوسری عالمی کانفرنس کوپن ہیگن میں 26 اور 27 اگست 1910 کو منعقد ہوئی۔ مصنف کا بیانیہ ہے کہ کانفرنس کے آغاز سے ہی گزشتہ تین برسوں میں (پرولتاری) مزدور عورتوں کی تحریک میں بڑھتی ہوئی قوت کا اندازہ ہو رہا تھا۔

اشتگارٹ میں اگر 50 مندوبین عورتیں موجود تھیں تو کوپن ہیگن میں 17 ممالک سے 100 عورتیں شرکت کررہی تھیں۔ کوپن ہیگن کانفرنس نے ہر سال عورتوں کا بین الاقوامی دن منانے کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی طے پایا کہ اگلے برس یہ دن سوشل ازم کے حصول کے لیے عورتوں کے ووٹ کی ضرورت کے حوالہ سے منایا جائے گا۔ سوشلسٹ عورتوں کی دوسری عالمی کانفرنس میں اپنی امریکی بیٹیوں کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کا بہترین موقع تھا۔

انٹرنیشنل سیکریٹری برائے سوشلسٹ وومن کی رہنما کلارازٹیکن نے اس موقع پر مندرجہ ذیل قرارداد پیش کی ’’ تمام ممالک سے تعلق رکھنے والی سوشلسٹ عورتیں ہر سال عورتوں کا ایک دن منائیں گی جس کا سب سے اہم مقصد عورتوں کو ووٹ کے حق کے حصول میں مدد دینا ہونا چاہیے۔ یہ مطالبہ سوشلسٹ تصورات کی رو سے عورتوں کے مجموعی سوال کے ایک حصہ کے طور پر لیا جانا چاہیے۔

عورتوں کے دن کا ایک بین الاقوامی تشخص ہونا چاہیے جس کو محتاط انداز سے وضع کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ تحریک منظور کر لی گئی۔ 8 مارچ کو ترجیح دی گئی، گو اس مرحلہ پر کسی رسمی تاریخ کا تعین نہ کیا گیا۔ عورتوں کو سوشلسٹ تحریک کی اولین رہنماؤں نے جو بیج بوئے تھے انھوں نے جڑیں پکڑنی شروع کر دیں۔

دوسری سوشلسٹ کانفرنس نے عورتوں کے عالمی دن کے علاوہ محنت کش عورتوں کے مسائل پر بحث کی اور متفقہ لائحہ عمل طے کیا۔ کانفرنس سے آٹھ گھنٹے کے اوقات کار، لازمی رخصت زچگی، بیمہ، زچگی قابل از زچگی، 16 مہینے کی چھٹی اور ناسازگار حالات میں عورتوں کے کام کی ممانعت کی قراردادیں منظور کیں۔

اس سے اگلے سال 18 مارچ 1911 کو آسٹریا، ڈنمارک ، جرمن ، سوئٹزرلینڈ میں 10 لاکھ سے زیادہ عورتوں نے پہلی بار عورتوں کا عالمی دن منایا۔ سوشلسٹ عورتوں کی تیسری عالمی کانفرنس اگست 1914 میں ویانا میں طے پائی تھی لیکن جولائی میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوگئی۔ باہمی صلاح مشورہ سے یہ کانفرنس 26 سے 28 مارچ 1915 کو سوئٹزرلینڈ کے شہر برن میں منعقد ہوئی۔ جنگ کی وجہ سے بیشتر مندوبین کانفرنس میں شرکت نہ کر پائے۔

اس کے باوجود30 کے قریب عورتیں برن پہنچ گئی تھیں۔ سوشلسٹ نظریات کی حامل پارٹیاں جنگ کی مخالف تھیں۔ ایسے نو آبادیاتی سامراجی اور انتہا پسند قوم پرست قوتوں کا عوام پر حملہ تصور کرتی تھیں۔ سوشلسٹ عورتوں کی کانفرنس کا بنیادی ایجنڈا جنگ مخالف مؤقف پر بحث اور حکمت عملی کا تعین کرنا تھا۔

اگست 1914 میں کلارازٹیکن اور دیگر ساتھیوں نے اسپارٹاکس لیگ کی بنیاد رکھی ، یہ انقلابی مارکسی پارٹی تھی۔ سرمایہ دارانہ نظام کا تختہ الٹ کر سوشل ازم کا نفاذ چاہتی تھیں۔ ان کے اخبار کا نام سرخ پرچم تھا اور جھنڈا سرخ رنگ کا تھا۔ یہ 20 ویں صدی کی پہلی دہائیوں میں غیر متزلزل ارادوں کی حامل انقلابیوں کی جماعت بن گئی۔

1915 میں امریکی امن پسند عورتوں اور فیمنسٹوں نے عورت امن پارٹی Women’s Peace Party تشکیل دی جس نے جنگ کے خاتمہ کے لیے رائے عامہ بیدار کرنے کے لیے مظاہرہ شروع کر دیے تھے۔ ان ہی دنوں 1917میں یورپ سمیت پوری دنیا لرز رہی تھی، یہ بھونچال روس کے سوشلسٹ انقلاب تھا۔ لینن کی قیادت میں مزدور زار شاہی کا تختہ الٹ کر مزدوروں کی حکومت قائم کرچکے تھے۔ سوویت یونین کے قائد لینن نے پٹرگارڈ میں محنت کش عورتوں کی ہڑتال کی یاد میں ہر سال 8 مارچ کو عورتوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا۔

یہ ہڑتال انقلاب کا سرچشمہ ثابت ہوئی۔ سوویت یونین کے آئین میں سوشلسٹ ریاست نے عورتوں کو وہ تمام حقوق دینے کا تاریخی اعلان کیا جو مزدوروں کو حاصل تھے ، 1907 میں امریکا میں محنت کش عورتوں کی ہڑتال 8مارچ کے دن ہوئی تھی۔

اس سے محنت کش عورتوں کی تحریک کا منظم آغاز ہوا تھا۔ دنیا بھر کی خواتین کی جدوجہد کو تسلیم کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے 8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان کی بانی بیرسٹر محمد علی جناح خواتین کو مردوں کے برابر حقوق کے سب سے بڑے حامی تھے۔ انھوں نے اپنی اہلیہ رتی کو اپنی سیاسی سرگرمیوں میں ساتھ رکھا۔

جب انگریز فوج نے امرتسر میں آزادی کے متوالوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا تو بمبئی کے اخبار کرانیکل نے اس واقعے کی خبریں شایع کی تھیں۔ حکومت نے اخبار پر پابندی لگادی تھی اور اس کے انگریز ایڈیٹر کو ہندوستان بدر کردیا تھا۔

بمبئی کی مزدور تنظیم نے اگلے ہفتہ احتجاجی جلوس نکالا۔ بیرسٹر محمد علی جناح اپنی اہلیہ رتی جناح کے ہمراہ اس احتجاجی جلوس میں شریک ہوئے تھے ، جب رتی مسٹر جناح کی زندگی سے دور ہوئی تو جناح صاحب نے اپنی ہمشیرہ فاطمہ کے ساتھ سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوئیں۔ 1973 کے آئین میں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دیے گئے۔

پاکستان نے اقوام متحدہ کے خواتین کے حقوق کے بارے بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کیے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں خواتین کے تحفظ کے لیے کئی اہم قوانین منظور ہوئے تھے مگر آج بھی جاگیردار ، سردار اور رجعت پسند گروہ خواتین کو گھر میں قید میں رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔

بلوچستان میں صرف سردار عبدالرحمن کھیتران کی نجی جیل ہی نہیں اور بھی بہت سارے سرداروں کی جیلیں ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سردار کھیتران کے خلاف قتل کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا نہ وہ لوگ گرفتار ہوئے جنھوں نے اس کی بیوی اور بچوں کو قید رکھا ہوا تھا۔ افغانستان میں طالبان اور پاکستان میں ان کے حامی گروہ خواتین کو دو ہزار سال پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں مگر دنیا کی تاریخ یہی ہے کہ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دیے بغیر غربت و افلاس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔

موجودہ حکومت کے برسرِاقتدار آنے کے باوجود رجعت پسند ابھی تک طاقتور ہیں۔ لاہور اور ملتان میں آج 8 مارچ کا دن منانے والی خواتین کو ہراساں کیا جارہا ہے۔ امید افزاء بات یہ ہے کہ جبر کے اس ماحول میں آج خواتین کا عالمی دن پاکستانی خواتین بھی منا رہی ہیں۔بشکریہ ایکسپریس نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …