جمعرات , 18 اپریل 2024

ڈاکٹر محمد علی نقوی، میرا استاد

(تحریر: سید منیر حسین گیلانی)

ڈاکٹر محمد علی نقوی کو اپنے گھر بھلہ سٹاپ سے شیخ زید ہسپتال جاتے ہوئے 7 مارچ 1995ء کو دہشت گردوں نے لاہور کے یتیم خانہ چوک میں شہید کر دیا۔ وہ عظیم تنظیمی، سیاسی اور سماجی رہنماء تھے۔ میرا ان سے بہت قریبی تعلق رہا ہے۔ ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ میں کوئی تنظیمی نہیں، بس چھوٹا سا کاروباری آدمی تھا۔ حوزہ علمیہ جامعة المنتظر کیساتھ میرا مذہبی اور روحانی تعلق پیدا ہوا، جو وقت گزرنے کیساتھ مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ ان دنوں اس عظیم اسلامی درسگاہ کی انتظامیہ میں شامل ثاقب نقوی سے رابطہ ہوا۔ ضیاء الحق کا مارشل لائی دور تھا، میری کچھ تنظیمی فعالیت بڑھی تو مجھے تحریک جعفریہ پاکستان کی مرکزی کونسل کا ممبر بنا دیا گیا۔ یہیں ایک دبلے، پتلے اور پُھرتیلے ڈاکٹر محمد علی نقوی سے بھی رابطہ اسی ملی پلیٹ فارم سے استوار ہوا۔ وقت گزرنے کیساتھ مجھے سمجھ آیا اور یہ بات آج بھی بلا خوف تردید کہہ سکتا ہوں کہ اپنی زندگی میں ایسا متدین، فہم و فراست کا حامل، دانشمند اور متحرک آدمی میں نے نہیں دیکھا۔ بہت جلد ان سے میری علیک سلیک قربت میں بدل گئی۔ ہم نے ڈاکٹر محمد علی نقوی کے تنظیمی دروس ٹاون شپ میں شروع کر دیئے۔ درس کے لئے آتے تو ہمدرد چوک میرے گھر بھی ڈاکٹر صاحب کا آنا جانا شروع ہوگیا۔

میں آج بھی دل سے محسوس کرتا ہوں کہ تحریک جعفریہ کو تنظیمی اور سیاسی طور پر جو عروج ملا، اس میں بنیادی قوت اور محور بلاشبہ قائد ملت جعفریہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی ہی تھے، جن کے گرد تمام تنظیمی نظام چلتا تھا۔ ہماری بدقسمی کہ وہ 5 اگست 1988ء کو شہید کر دیئے گئے۔ اس کے بعد تنظیمی اداروں کے اعتماد سے قیادت شہید قائد کے دست راست علامہ سید ساجد علی نقوی کے پاس آئی، مگر تنظیمی امور میں بلاشبہ ڈاکٹر محمد علی نقوی کی مشاورت اور جدوجہد کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ تنظیمی مسائل کا حل اور توسیعی منصوبوں میں ان کا کوئی ہم سر نہیں تھا۔ وقت گزرتا گیا، ڈاکٹر صاحب کے ساتھ میری قربتیں مزید بڑھنے لگیں، جبکہ ان کی تنظیم سازی کے حوالے سے کاوشیں بہت نمایاں ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے بعد یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی جگہ متبادل نہ آیا، لیکن شہید ڈاکٹر کی شہادت کے بعد میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں کہ ان کا متبادل ہمیں دستیاب نہ ہوا اور تنظیمی ڈھانچہ بکھرنے لگا۔

قائد ملت جعفریہ کی شہادت کے بعد ڈاکٹر صاحب کی شہادت نے مختلف تنظیمات پر منفی اثرات چھوڑے۔ راقم الحروف ان کی مشاورت اور رہنمائی سے سیاسی میدان میں شہید قائد کے دور سے متحرک تھا اور اپنی ذمہ داری کو نبھانے کی پوری کوشش کی۔ میڈیکل کے شعبے کا ماہر ڈاکٹر محمد علی نقوی خداداد صلاحیتوں کا مالک اور خاتم الانبیاء کا حقیقی عاشق تھا۔ جو پاکستان میں تمام مکاتب فکر کیلئے مسلمہ اسلامی نظام کے نفاذ اور کسی بھی مکتبہ فکر کو نظرانداز نہ کرنے کی بات کرتا تھا۔ ان کی زندگی کے چند اہم واقعات بھولنا میرے لئے ناممکن ہے۔ ہماری بہت سی ملاقاتیں مذہبی اور سیاسی جماعتوں سے اکٹھے ہوتی تھیں۔ میں پیپلز پارٹی کے ابتدائی دور سے ہی سیاسی کارکن ہوں۔ ان دنوں تحریک جعفریہ بھی اپنی سیاست شروع کرچکی تھی۔ تو ہم نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔ اس حوالے سے تحریک جعفریہ پاکستان کا پہلا "سہ جماعتی” سیاسی اتحاد تحریک استقلال اور پاکستان عوامی تحریک کیساتھ ہوا۔ جس کے اکثر اجلاس ڈاکٹر طاہرالقادری کی میزبانی میں تحریک منہاج القرآن سیکرٹریٹ ماڈل ٹاون میں منعقد ہوا کرتے تھے۔

ایک بار ڈاکٹر محمد علی نقوی اور میں ان کے پاس اجلاس کیلئے گئے تو انہوں نے "سہ جماعتی اتحاد” کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالی۔ اُن کی گفتگو کے دوران ہی ڈاکٹر محمد علی نقوی نے کچھ کہنا چاہا تو ڈاکٹر طاہر القادری نے انہیں روک دیا۔ پھر انہوں نے اپنی باری پر گفتگو کی تو عوامی تحریک کے سربراہ بہت متاثر ہوئے اور چند ملاقاتوں کے بعد ڈاکٹر طاہرالقادری نے "سہ جماعتی اتحاد” کی تنظیم سازی میں مصروف افراد سے کہا کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی کی تجاویز پر عمل کیا جائے۔ ان کی فکر اور بصیرت متاثر کن اور باتیں مدلل ہوتی ہیں۔ پھر تینوں جماعتوں کے اتحاد کی مشترکہ تنظیم سازی کا کام ہی ان کو سونپ دیا گیا۔ جب تحریک جعفریہ نے سیاسی اقدامات کرنا شروع کئے تو ہماری ملاقاتیں پیپلز پارٹی کے رہنماء چودھری اعتزاز احسن اور خواجہ طارق رحیم سے ہوئیں۔ ان کی خواہش تھی کہ تحریک جعفریہ سے انتخابی اتحاد نہیں، سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر لی جائے۔ ڈاکٹر صاحب سے مشاورت سے یہی طے پایا کہ ہمیں کچھ بھی فائنل کرنے سے پہلے محترمہ بینظیر بھٹو سے ملاقات کرنی چاہیئے۔ اپنے فیصلے سے ہم نے پیپلز پارٹی کے رہنماء سردار فاروق احمد خان لغاری، خواجہ طارق رحیم اور احمد سعید اعوان کو مطلع کر دیا کہ حتمی بات چیت کیلئے وہ بے نظیر بھٹو سے ملنا چاہتے ہیں۔

اتفاق ہونے پر میں ڈاکٹر محمد علی نقوی کے ہمراہ کراچی پہنچا۔ تمام معاملات پر اتفاق رائے ہوگیا تو طے ہوا کہ ہم محترمہ بینظیر بھٹو سے ملے بغیر کسی چیز کو فائنل نہیں کریں گے۔ ملاقات شروع ہوئی، میں نے ڈاکٹر محمد علی نقوی کا تعارف محترمہ بے نظیر بھٹو سے کروایا تو پوچھنے لگیں! کیا، یہ آپ کے بیٹے ہیں۔؟ میں نے کہا کہ”نہیں! یہ میرے استاد ہیں۔” وہ حیرت زدہ ہوئیں۔ بہرحال دونوں جماعتوں کے انتخابی اتحاد کے حوالے سے بات چیت شروع ہوئی۔ اس کی تفصیلات خود نوشت ”سیاسی بیداری“ میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔ پھر بینظیر بھٹو نے فوری فیصلہ کر لیا کہ تحریک جعفریہ اور پیپلز پارٹی انتخابی اتحاد کا حصہ ہوں گی۔ ملاقات کے بعد جب ہم بلاول ہاوس سے باہر نکلے تو ڈاکٹر محمد علی نقوی نے بینظیر بھٹو کی قوت فیصلہ کو سراہا۔ کہنے لگے کہ بینظیر بھٹو نے ہمارے دلائل کی بنیاد پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بجائے، انتخابی اتحاد کا فیصلہ فی الفور کر لیا اور بات کو ٹال مٹول اور مشاورت کی نذر نہیں کیا۔

پیپلز ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی اے) میں دونوں جماعتوں کیساتھ تحریک استقلال اور مسلم لیگ (قاسم گروپ) بھی شامل تھیں اور فیصلہ ہوا کہ بے نظیر بھٹو، علامہ ساجد علی نقوی، ائیر مارشل اصغر خان، ملک قاسم بائی روٹیشن آئندہ اجلاسوں کی صدارت کریں گے۔ جدوجہد کے اس سفر میں ڈاکٹر محمد علی نقوی دوبار گرفتار بھی ہوئے۔ لیکن دونوں بار نوجوانوں کے احتجاج کے بعد انہیں رہا کروا لیا گیا۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی کو خطرات تھے۔ جس پر تنظیمی دوستوں اور خاندان کے افراد کا اصرار تھا کہ وہ ملک چھوڑ جائیں۔ لشکر جھنگوی کے دہشت گرد آپ کا پیچھا کر رہے ہیں۔ آپ کی جان کو خطرہ ہے، مگر وہ خود کہتے تھے اور انہیں یقین تھا کہ ان کی موت شہادت سے ہی ہوگی۔ وہ بزدلی کی زندگی نہیں، یقین کی شہادت چاہتے ہیں۔ انہوں نے کئی دوستوں اور مولانا صفدر حسین نجفی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات میں بھی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ملک چھوڑ کر ایران عراق جنگ کے دوران میں ایران کی طرف سے شہید ہونا چاہتے ہیں۔

ایک بار ہم بس حادثے میں جاں بحق ہونیوالے حافظ آباد کے تحریکی کارکن کی تعزیت کرکے لاہور واپس آرہے تھے، تو گوجرانوالہ میں ایک ہوٹل میں کھانے کی میز پر ہم نے یہی بات شروع کی کہ ڈاکٹر صاحب آپ کی جان کو خطرہ ہے۔ آپ بیرون ملک چلے جائیں۔ یہ سنتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ میں شہادت کے لیے اگلے مورچوں پر جانا چاہتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر محمد علی نقوی کو اپنی شہادت کا کافی عرصے پہلے ہی پتہ چل چکا تھا اور کئی بار کہہ چکے تھے کہ میں شہید کر دیا جاوں گا۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنی وصیت بھی لکھ دی تھی۔ ہم آج بھی ڈاکٹر محمد علی نقوی کو ان کے افکار زندہ کی شکل میں اپنے ساتھ محسوس کرتے ہیں۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …