بدھ , 24 اپریل 2024

اٹھارہ لوگ اور سراج الحق

(محمد علی یزدانی)

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے پاس اٹھارہ لوگوں کی فہرست موجود ہے جن کے اکاؤنٹ میں چار ہزار ارب موجود ہے، یہ اٹھارہ لوگ کون ہیں اور یہ پاکستان کے مشکل وقت میں کیوں کام نہیں آ رہے؟ کیوں کہ اس وقت پاکستان جس مشکل صورتحال سے دوچار ہے جہاں ایک ایک پائی کی ضرورت ہے اور یہ اٹھارہ لوگ ملک و قوم کے ہزاروں ارب اپنے کھاتوں میں چھپائے بیٹھے ہیں۔ حکومت وقت امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی بات کو سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ ملک اس وقت پائی پائی کا محتاج ہے جس کیلئے آئی ایم ایف کے سامنے بھی ہاتھ پھیلا دیئے ہیں۔ قارئین کو بتاتا چلوں کہ پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل میں 23بار پھنس چکا ہے اور اتنی زیادہ تعداد میں دنیا کا کوئی دوسرا ملک آئی ایم ایف کے در پر نہیں گیا جتنا پاکستان گیا ہے آئی ایم ایف کا جائزہ وفد پاکستان میں دس دن گزار کر واپس جا چکا ہے ہے اور سٹاف لیول کا معاہدہ کرنے کیلئے حکومت پر امید ہے، اگر آئی ایم ایف نہ مانا تو مستقبل کا منظر نامہ کیا ہو گا؟۔

ماضی میں بھی آئی ایم ایف سے حکومتوں نے معاہدے کئے ہیں اور موجودہ حکومت بھی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے کہ کسی طرح سے آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو جائے، اس معاہدے کا عام آدمی کی زندگی پر کیا اثر پڑے گایہ کوئی نہیں سوچ رہا کیوں حکومت نے آئی ایم ایف کے کہنے پر شرح سود بیس فیصد کر دی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کا ایک طوفان ہے جو اس وقت عام آدمی کو روند رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف نے معاہدہ کرنے کیلئے تین بڑئی شرطیں رکھی ہیں، وہ کیا ہیں وہ ابھی تک سر بستہ راز ہیں۔ پچھلے دنوں ایک یہودی فیملی بھی پاکستان آئی ہوئی تھی جس کے ساتھ اسحق ڈار نے ملاقاتیں کی ہیں اب یہ ارب پتی یہودی فیملی پاکستان کیوں آئی انہیں وی آئی پی پروٹوکول کیوں دیا گیا یہ حل طلب سوال ہیں اور کہیں پاکستان کی ایٹمی سا لمیت پر تو کوئی سمجھوتہ نہیں ہو رہا ہے یہ وہ سوال ہیں جو اس وقت ہر محب وطن پاکستانی کے ذہن میں ہیں۔

کیوں کہ حکومت کو اس وقت ڈالرز کی ضرورت ہے اور حکومت کہتی ہے کہ پچاس لاکھ ڈالر روزانہ افغانستان سمگل ہو رہے ہیں، اس کی روک تھام کیوں نہیں کی جاتی، اس سمگلنگ میں کون سی بڑی شخصیات ملوث ہیں ان کا سراغ لگایا جائے اور سراج الحق صاحب تو کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی اٹھارہ شخصیات کے پاس ہزاروں ارب موجود ہیں۔ حکومت بڑی پر امید بھی ہے کہ معاہدہ ہو جائے گا خیر معاہدہ ہو یا نہ ہو لیکن حکومت کو ایسے اقدامات کرنے چاہئیں جن سے عام آدمی کو سکون میسر آئے اور وہ سکون سے دو وقت کی روٹی کما اور کھا سکے۔بجلی کو فی یونٹ چودہ روہے مہنگا کیا جا رہا ہے یہ چودہ روپے فی یونٹ مہنگی بجلی کرنے سے انڈسٹری پر کیا اثر پڑے گا۔ جس کی حکومت نے اگرچہ تردید کی ہے لیکن حکومت کا ٹریک ریکارڈ رہا ہے جس کی تردید کرتی ہے وہ کام ضرور کرتی ہے اگر پندرہ روپے فی یونٹ بڑھا تو اس کا عوام پر کیا اثر پڑے گا، عام آدمی اتنی مہنگی بجلی استعمال کرنے کی توسکت ہی نہیں رکھتا کیوں کہ عام آدمی دو وقت کی روٹی پوری کر ے وہ بڑی بات ہے وہ اتنی مہنگی بجلی کیسے استعمال کرے گا اور اگر استعمال کربھی لے گا تو اس کا بل کیسے بھرے گا اس پر ارباب اختیار کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔۔ ادھر پاک فوج نے بھی اپنے آپریشنل اخراجات میں کمی کا فیصلہ کیا ہے، ملک کے مشکل معاشی حالات کی وجہ سے فوج نے تو قربانی دے دی ہے اور سیاست دان اور دوسرے بیورو کریٹ جو اربوں کھربوں کے مالک ہیں وہ ملک کیلئے کب قربانی دیں گے کیوں کہ جب سے پاکستان بنا ہے ہماری پاک فوج اس ملک کی حفاظت اور سالمیت کیلئے قربانیاں دے رہی ہے تو ایسے میں ہمارے سیاست دانوں کو بھی چاہئے کہ وہ بھی پاک فوج کی تقلید کریں اور ملک کی خاطر اپنی جائیداد وقف کریں اپنے خفیہ اکاؤنٹس میں پڑے ہوئے اربوں روپے نکالیں اور ملک کی خاطر انہیں دان کریں تا کہ پتہ چلے کہ سیاست دانوں کو بھی ملک کا خیال ہے۔

وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ ان کی کابینہ نے کفایت شعاری اپنانے کا فیصلہ کیا ہے، کابینہ اور وزیراعظم کی اس کفایت شعاری مہم کا ملکی معیشت کو کیا فائدہ ہو گا اور یہ کفایت شعاری مہم کہیں دو روٹیوں کی جگہ ایک کھانے والی نہ ہو اگر حقیقی معنوں میں حکومت چاہتی ہے کہ کفایت شعاری مہم اپنائے تو پھر وہ اٹھارہ اکاؤنٹس کا سراغ لگائے جس میں حکومتی خاندان کے بھی نام آ رہے ہیں۔اگر خدا نخواستہ ملک ڈیفالٹ کرتا ہے جہاں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گی وہیں حکمرانوں کیلئے بھی حالات خراب ہوں گے۔ اللہ تعالی نے پاکستان کو وسائل دیئے ہیں ان کو درست استعمال کیا جائے تب کہیں جا کر پاکستان اس معاشی بھنور سے نکل سکتا ہے۔ کیوں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو بھی گیا تو وہ کوئی مستقل حل نہیں ہے مستقل حل پاکستان کی معیشت کو درست کرنے کا یہی ہے کہ پاکستان میں کاروباری افراد کو سہولیات فراہم کی جائیں، غریبوں کو روزگار دیا جائے، کیوں کہ اگر ملک معاشی طور پر مضبوط ہو گا تو سیاست بھی چلتی رہے گی اور سیاست دانوں کا دال دلیا بھی ہوتا رہے گا۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …