جمعہ , 19 اپریل 2024

کیا اسلامی ممالک ماضی کے اختلافات کو بھلا کر ایک نیا آغاز کر رہے ہیں؟

(رجنیش کمار)

گزشتہ چند برس کے رحجان پر نظر دوڑائیں تو ایسا لگتا ہے کہ مغربی ایشیا کے اسلامی ممالک باہمی اختلافات کو بھلا رہے ہیں۔اس کی مثال یہ ہے کہ سنہ 2021 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کے خلاف ناکہ بندی ختم کردی تھی۔ برسوں بعد سعودی عرب اور ایران کے درمیان عراق میں مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں، یمن کے بارے میں سعودی عرب کا رویہ بھی بدل رہا ہے۔ ترکی اور متحدہ عرب امارات بھی اپنے اختلافات بھول چکے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطحی دورے ہو چکے ہیں۔

اس کے علاوہ ترکی نے بھی سعودی عرب کے ساتھ اختلافات کو بظاہر بالائے طاق رکھ دیا ہے اور صدر اردوغان نے گذشتہ اپریل میں سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا۔

پیر کو سعودی عرب نے اعلان کیا تھا کہ وہ ترکی کے مرکزی بینک میں پانچ ارب ڈالر جمع کرائے گا۔ یوں سعودی عرب نے زلزلے سے تباہ حال ترکی کے لیے اپنے خزانے کا منھ کھول دیا ہے۔

یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ترکی کے مغرب کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں ہیں اور سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔

اس تناظر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا وہ اسلامی ممالک جو پہلے آپس میں دست وگریبان تھے، کیا وہ اب واقعی متحد ہونے کی کوشش کر رہے ہیں؟

خلیجی ممالک میں انڈیا کے سابق سفیر تلمیز احمد نے اردوغان کے دورہ سعودی عرب کے دوران بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’افغانستان کے بارے میں الجھن بڑھ گئی ہے اور اس سے مشرق وسطیٰ میں امریکہ پر عدم اعتماد کا خلا مزید گہرا ہو گیا ہے۔ خلیجی ممالک کو لگتا ہے کہ انھیں اس شعبے میں اپنی سفارت کاری خود کرنا ہو گی۔ سعودی عرب خود ایران سے بات کر رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات خود ترکی جا رہا ہے۔ یوں ایک نیا ماحول پیدا ہو چکا ہے۔‘

تلمیز احمد کے خیال میں امریکہ نے جس طرح افغانستان کو طالبان کے حوالے کیا اور بوریا بسترا لپیٹ کر افغانستان سے نکل گیا، اس سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ امریکہ کسی بھی کام کو منطقی انجام تک نہیں پہنچاتا۔ اسی لیے اب امریکہ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں عدم اعتماد کا ماحول ہے۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار ویسٹ ایشین سٹڈیز کے پروفیسر اے کے مہاپاترا کو نہیں لگتا کہ اسلامی دنیا کمزور ہو رہی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ صدر اردوغان اسلامی دنیا کا رہنما بننا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ترکی سلطنت عثمانیہ کا اصل وارث ہے اور مسلم دنیا کی رہنمائی ان کا حق ہے۔

’دوسری جانب سعودی عرب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی وجہ سے اسلامی دنیا کی قیادت کرنا اپنا فطری حق سمجھتا ہے۔ سعودی عرب کے سامنے اردوغان کی نرمی ان کی سیاست کا محض ایک روپ ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اسے باہمی اختلافات کے کمزور ہونے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔‘

ان کے مطابق ’مغربی ایشیا وہ خطہ ہے جہاں قطر ایک امیر ریاست ہے تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی امیر ہیں۔ تینوں ممالک اپنی دولت کی بنیاد پر اپنے علاقے میں اثر و رسوخ میں اضافہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سعودی عرب نے ترکی میں پانچ ارب ڈالر جمع کرانے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد مالی منافع اور علاقے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔

’شاید جلد بازی میں ہم اسے ایسے دیکھنا شروع کر دیں گے جیسے اسلامی دنیا کی دشمنی ختم ہو رہی ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سعودی عرب بنیاد پرست اسلام سے لبرل اسلام کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ ترکی سیکولر اور جدید اسلام سے بنیاد پرست سیاسی اسلام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یوں دونوں ممالک کے سیاسی اسلام میں بہت فرق ہے۔‘

جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار ویسٹ ایشین سٹڈیز کے ایک اور پروفیسر آفتاب کمال پاشا سمجھتے ہیں کہ اردوغان نے گزشتہ برسوں میں ترکی کو سفارتی اور تزویراتی لحاظ سے خودمختاری دی اور یہ بات مغرب کو پسند نہیں آئی ہے۔

پروفیسر پاشا کہتے ہیں کہ ’سنہ 2003 سے پہلے ترکی پر فوج کا غلبہ ہوا کرتا تھا۔ ترک معیشت میں بھی فوج کی مداخلت زیادہ تھی، لیکن اردوغان نے اس طویل روایت کو ختم کر دیا۔ ان کی آمد کے بعد سے ترکی میں نجی کاروباری افراد ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ترک حکومت میں فوج کی مداخلت ختم ہو گئی۔ اس لحاظ سے ارودوغان نے ترکی کے سیاسی نظام کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ میرے خیال میں یہ ان کی کامیابی ہے۔‘

سعودی عرب نے اسی ہفتے پیر کو زلزلہ زدگان کی مدد کے لیے ترکی کے مرکزی بینک میں پانچ ارب ڈالر جمع کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

سعودی فنڈ فار ڈیولپمنٹ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ امداد اس بات کا ثبوت ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کے درمیان قریبی تعاون اور تاریخی تعلقات ہیں۔

ترکی 2018 سے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا کر رہا ہے۔ اور جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو ترکی میں بھی توانائی اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ اس کے علاوہ توانائی کے لیے بھی ترکی کا تمام دارومدار اس کی درآمدات پر ہے۔

اسی لیے مغرب کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے بعد سے ترکی گزشتہ چند برس سے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ترکی کے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں گزشتہ سال گرمجوشی آئی ہے۔ ترک صدر نے گزشتہ سال فروری میں متحدہ عرب امارات اور اپریل میں سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا۔اس کے بعد گزشتہ سال جون میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بھی ترکی گئے تھے۔

استنبول سے تعلق رکھنے والے ماہر اقتصادیات انور اراکان نے سعودی عرب کے 5 ارب ڈالر کی رقم جمع کروانے پر عرب نیوز کو بتایا کہ ’سعودی عرب نے ترکی کی انتہائی مشکل وقت میں مدد کی۔ ترک معیشت پہلے ہی بحران کاشکار تھی لیکن زلزلے کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی۔

ابتدائی اندازوں کے مطابق زلزلے سے ترکی کو 34 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ ترکی کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رواں سال 30 سے 40 ارب ڈالر کے درمیان رہے گا۔ زلزلے کے بعد تعمیرات کے لیے بھی رقم اور وسائل درکار ہوں گے۔ ایسے وقت میں سعودی عرب کی مدد کی بہت اہمیت ہے۔

گزشتہ سال ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا کی قدر میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی تھی۔ 2021 میں ڈالر کے مقابلے میں لیرا 44 فیصد کمزور ہوا۔ اس کے علاوہ گزشتہ پانچ برسوں میں ترکی میں زرمبادلہ کے ذخائر نمایاں طور پر کمزور ہوئے ہیں اور اب ترکی کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 20 ارب ڈالر سے بھی کم رہ گئے ہیں۔

سنہ 2002 میں جب صدر اردوغان نے ترکی کی کمان سنبھالی تو اس سے پہلے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات غیر فعال تھے۔

اردوغان سے پہلے کی حکومتوں کو مغرب کا دوست سمجھا جاتا تھا اور ترکی مشرق وسطیٰ میں بہت کم دلچسپی رکھتا تھا۔ تاہم جب اردوغآن اقتدار میں آئے تو انھوں نے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو دوبارہ پٹری پر لانے کی کوشش کی۔

جب عرب دنیا میں مختلف حکومتوں کے خلاف ’عرب سپرنگ‘ کا آغاز ہوا تو اس حوالے سے ترکی اور سعودی عرب کا موقف بالکل مختلف تھا۔ آپس کے نظریاتی اختلافات کی وجہ سے اس دوران حکومتوں کے خلاف ہونے والے مظاہروں کو دونوں ملکوں نے اپنے اپنے انداز میں دیکھا۔

عرب سپرنگ میں حکومتوں کے خلاف باغیوں کی آوازوں نے سعودی عرب سمیت مشرق وسطیٰ میں بہت سی بادشاہت اور آمرانہ حکومتوں میں یہ خوف پیدا کر دیا تھا کہ ان کی کرسی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

ابتدائی طور پر اردوغان عرب سپرنگ کے بارے میں کوئی واضح مؤقف نہیں رکھتے تھے لیکن بعد میں انھوں نے اس کی حمایت شروع کردی۔

چونکہ ترکی میں فوجی آمروں کے اقتدار پر کنٹرول کی بھی تاریخ رہی ہے، اس تناظر میں اردوغان کی جانب سے عرب سپرنگ کی حمایت کرنا زیادہ حیران کن نہیں تھا، لیکن ترکی کے اس موقف نے سعودی عرب کو ناراض کر دیا تھا اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات پٹری سے اتر گئے تھے۔

اسی لیے جون 2017 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کے خلاف ناکہ بندی کی تو ترکی نے اس کی مخالفت کی۔ ترکی نے قطر کی ناکہ بندی کی ہر لحاظ سے خلاف ورزی کی اور اس کی حمایت میں اپنی فوج بھی بھیجی۔ چاروں ممالک نے ترکی کے اس اقدام کو ان کے ساتھ دشمنی سمجھا۔

لیکن پھر واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل نے دونوں ممالک کے تعلقات کو بہت خراب کر دیا۔ جمال خاشقجی کا تعلق سعودی عرب سے تھا اور وہ وہاں کے بادشاہت کے نظام کے خلاف کھل کر لکھا کرتے تھے۔ ان کے قتل کا الزام سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان پر عائد کیا گیا تھا۔

ترکی نے خاشقجی کے قتل کی آڈیو جاری کی تھی اور براہ راست سعودی عرب کے ولی عہد پر الزام عائد کیا تھا۔ اس وقت سعودی ولی عہد کی شبیہ مغرب میں ایک اصلاح پسند رہنما کی شکل اختیار کر رہی تھی لیکن خاشقجی کے قتل سے سب کچھ الٹ گیا۔

جنوری 2021 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کے خلاف ناکہ بندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے ترکی نے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے خود پہل کی۔

کہا جاتا ہے کہ ترکی نے خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات کو اس وقت بہتر بنانا شروع کیا جب وہ مغرب میں مکمل طور پر الگ تھلگ ہو گیا تھا۔ یہاں تک کہ ترکی نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بھی بہتر بنایا اور برسوں بعد دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ہاں اپنے سفیر بھیجے۔

گزشتہ سال اپریل میں ترکی نے ملک میں خاشقجی کے قتل سے متعلق کیس بند کر کے سعودی عرب کے حوالے کر دیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ترکی کے اس فیصلے پر تنقید کی تھی لیکن ترکی کا کہنا تھا کہ اس نے یہ فیصلہ اپنے مفاد میں کیا ہے۔

خاشقجی کے قتل سے پیدا ہونے والے تنازع کے بعد سعودی عرب نے غیر اعلانیہ طور پر ترک مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سعودی عرب کو ترکی کی مصنوعات کی برآمدات میں 90 فیصد کمی واقع ہوئی۔ بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ ترکی کو جھکنا پڑا کیونکہ اس کی معیشت بری طرح متاثر ہو چکی تھی، تاہم سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے باوجود ترکی کی معیشت کی حالت بہت اچھی نہیں رہی ہے۔

بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ترکی اور سعودی عرب کو بین الاقوامی سیاست میں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ یمن میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی وار جاری ہے۔ دوسری جانب ایران کے ترکی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ضرورت پڑنے پر ترکی دونوں ممالک کے درمیان ثالث کا کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر ترکی اس لڑائی میں سعودی عرب کی مدد کرنا چاہتا ہے تو وہ فوجی مدد بھی دے سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں سعودی عرب میں ایرانی ڈرونز کے خطرے میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں ترکی اپنے ڈرونز کے ذریعے سعودی عرب کی مدد کر سکتا ہے۔

واشنگٹن ڈی سی میں قائم عرب سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق ’سعودی عرب اور ترکی کے درمیان کشیدگی زیادہ ذاتی رہی ہے جبکہ متحدہ عرب امارات اور ترکی کے درمیان تناؤ نظریاتی رہا ہے۔ سیاسی اسلام اور اخوان المسلمون کے بارے میں دونوں ممالک کے خیالات مختلف ہیں۔ انقرہ میں بہت سے لوگوں کا الزام ہے کہ متحدہ عرب امارات 2016 میں اردوغان کے خلاف ناکام بغاوت میں بھی ملوث تھا۔ متحدہ عرب امارات نے بھی لیبیا میں ترکی کی فوجی مداخلت پر اتفاق نہیں کیا۔ اسی دوران سعودی عرب نے 2014 میں اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ سعودی عرب نے یہ قدم قطر پر دباؤ ڈالنے کے لیے اٹھایا تھا۔

تلمیز احمد کہتے ہیں ’امریکہ پر عدم اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ ترکی کا نقطہ نظر سٹریٹجک خودمختاری ہے۔ وہ کسی کے ساتھ مستقل اتحاد میں نہیں ہے۔ اسی لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اب بھی ترکی اور دیگر اسلامی ممالک کے درمیان جو تعلقات قائم ہو رہے ہیں وہ مسائل پر مبنی ہیں۔ یہ کوئی دیرپا اتحاد نہیں ہے. کوئی مجبوری نہیں ہے کیونکہ اس میں جہاں تعاون ہے وہاں مسابقت بھی موجود ہے۔‘بشکریہ بی بی سی

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …