(تحریر: سید رضی عمادی)
سات سال سے منقطع تعلقات کے بعد ایران اور سعودی عرب نے 10 مارچ کو بیجنگ میں چین کی ثالثی سے تعلقات کی بحالی کے ایک بیانیہ پر دستخط کیے ہیں۔ اس اعلامیہ کے مطابق دونوں ممالک کے سفارت خانے دو ماہ بعد دوبارہ کھولے جائیں گے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے کے خطے کے ممالک پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور تقریباً تمام ممالک نے اس معاہدے کا خیرمقدم کیا اور دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطہ کرکے اس معاہدے پر مبارکباد بھی دی ہے۔ دوسری طرف صیہونی حکومت مغربی ایشیائی خطے میں ایسی کھلاڑی ہے، جو نہ صرف اس معاہدے کا خیرمقدم نہیں کرتی بلکہ اسے اپنی واضح طور پر اپنی ناکامی سمجھتی ہے۔
صیہونی حکومت کے سابق وزیراعظم یائر لاپیڈ نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کے معاہدے پر ردعمل میں تاکید کی ہے کہ یہ معاہدہ صیہونی حکومت کی مکمل ناکامی ہے۔ صیہونی حکومت کے ایک اور سابق وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے بھی ایران اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والے معاہدے کے ردعمل میں نیتن یاہو کی کابینہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ یہ معاہدہ صیہونی حکومت کی حکومت کے لیے ایک شرمناک ناکامی ہے اور اس کے نتیجے میں داخلی کمزوری اور اندرونی اختلافات میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ اسرائیل کے لیے ایک خطرناک پیش رفت اور یہ ایران کی سیاسی فتح ہے۔
عرب ممالک کیساتھ اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے پر اس معاہدے کے اثرات
اسرائیل نے ہمیشہ اسلامی ممالک بالخصوص اسلامی طاقتوں جیسے اسلامی جمہوریہ ایران، سعودی عرب اور ترکی کے درمیان اختلاف کو ہوا دی ہے۔ اسرائیل اسلامی ممالک کے درمیان اختلافات کو ان ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اب ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی عرب ممالک سے تعلقات اور صیہونی مفادات کو متاثر کرسکتی ہے، جس کے لئے اسرائیل عرصے سے کوشاں رہا ہے۔
ایرانو فوبیا کی شکست
اس کے علاوہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ صیہونی حکومت کی ایرانوفوبک پالیسی کی شکست ہے۔ ایک طرف دو اہم اسلامی طاقتوں کے درمیان تعلقات بحال ہوں گے تو دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران کے حوالے سے سعودی پالیسی میں تبدیلی سے دوسرے عرب ممالک کے تہران کے ساتھ تعلقات نہ صرف بحال ہوں گے بلکہ یہ تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب نے دو ماہ میں تعلقات بحال کرنے پر اتفاق کیا ہے، جبکہ اسرائیل نے گذشتہ دو سالوں میں ریاض کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی بہت کوششیں کیں، لیکن وہ یہ اہم مقصد حاصل نہیں کرسکا۔
علاقائی سلامتی میں اسرائیل کے کردار کو کم کرنا
ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ریاض اور تہران کے درمیان تعلقات کی بحالی خطے کے اسلامی ممالک کو خطے کی سلامتی میں مضبوط کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرسکتی ہے۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے بیانات میں ہمسایوں کے ساتھ اجتماعی سلامتی پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے "ہم نے برسوں سے اعلان کیا ہے کہ ہم خطے کے ممالک کے ساتھ مل بیٹھنے اور خلیج فارس کو محفوظ بنانے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس خطے میں جارحیت کرنے والوں کے ہاتھ کو کاٹنا چاہیئے اور اس طرح کے اقدامات کرنے چاہیئں کہ کوئی دوسرے کے حقوق کو پامال نہ کرے۔” تعلقات کی بحالی اور حالیہ پیشرفت کا مطلب خطے کی سلامتی میں تل ابیب کے کردار کو کم کرنا ہوگا۔
تعلقات کی بحالی اور اسرائیل کی اندرونی کشیدگی میں شدت
آخری نکتہ یہ ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی کا معاہدہ مقبوضہ علاقوں میں داخلی بحران کی شدت کے ایام میں ہوا ہے۔ دوسری طرف اسلامی جمہوریہ ایران نے حالیہ مہینوں میں ایران مخالف منظم فسادات کو کنٹرول کرکے ختم کیا ہے۔ ریاض اور تہران کے درمیان تعلقات کی بحالی مقبوضہ علاقوں کی اندرونی پیش رفت کے ساتھ ساتھ فلسطین اور صیہونی حکومت کے درمیان تنازعات کو بڑھاوا دے سکتی ہے اور کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے، جس سے اسرائیل کے لیے داخلی سلامتی کے خطرات مزید بڑھ جائیں گے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔