کراچی:سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان میں آج جو صورت حال ہے وہ زندگی میں کبھی نہیں دیکھی کیونکہ ہر شخص پریشان ہے اور اُسے کوئی امید نظر نہیں آرہی۔
کراچی میں ری امیجنگ پاکستان مباحثے میں خطاب کرتے ہوئے شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آج ہر شخص سوال کررہا ہے کہ مسائل کا حل کیسے نکلے گا، مجھے معیشت کا تو نہیں معلوم لیکن سیاست کا دیوالیہ نکل چکا ہے، یہ جو کچھ ہورہا ہے صرف اس حکومت یا پچھلی حکومت کی وجہ سے نہیں بلکہ غلط فیصلوں کے تسلسل آئین شکنی کا نتیجہ ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آج کا نوجوان مایوس ہے اور یہ سب سے خطرناک بات ہے، ہم معیشت کو مل کر بہتر کرلیں گے مگر اس کے لیے سب کو آگے بڑھنا اور ساتھ چلنا ہوگا، میں بھی اس نظام کا حصہ رہا 35 سال خود کو بھی ملزم سمجھتا ہوں، اس نہج پر پہنچے ہیں تو صفائی دینے کے بجائے قبول کریں سب اس میں شریک ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ’آئین اس سال 50 سال کا ہوجائے گا، کون سی شق ہے جو ہم نے نہ توڑی ہو، جتنا مفصل آئین پاکستان کا ہے کسی ملک کا نہیں، اس کے باوجود ہر وقت اس کی تشریح کرتے رہتے ہیں، ہر آئینی عہدے کا حلف بھی آئین میں تحریر ہے۔ اس موقع پر سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس حلف کی پاسداری کی ؟‘
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ’کوئی قانون سازی عوام کو سہولت دینے کے لیے نہیں ہوتی، ان ناکامیوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا، سب سے پہلے قبول کرنا ہو گا کہ ہم نے غلطیاں کی ہیں، سب سے مشکل زندگی میں چلتے نظام میں تبدیلی لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے مسائل حل کرتے ہوئے اصلاحات لانا ہوں گی، طے شدہ بات کہ جس طرح چلارہے ہیں اس طرح ملک نہیں چلے گا، حل کی ابتدا آئین پر ملک کو چلانا ہے، 73 کے آئین کے تحت 10 الیکشن ہوئے سب چوری ہوئے اور ہم نے حکومتیں کر کے آئین کی نفی کردی۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’ہمارے یہاں فہرستیں بنتی ہیں اور واضح کیا جاتا ہے کہ جو حکم مانے گا وہ پارلیمنٹ کا رکن ہوگا، ضمیر بیچ کر پارلیمان میں آنے والے کس طرح مسائل حل کریں گے، پارلیمان کو کرپٹ کردیا تو کس سے توقع کریں کہ مسائل حل کرے گا، ہم تو خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہیں، ملک کے مسائل حل کرنے والو کو پارلیمان جانے سے روکیں تو مسائل کیسے حل ہوں گے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سیاستدانوں کے احتساب کے لیے آمروں نے ادارہ بنایا مگر اُن کے کسی ایک آدمی کا احتساب نہیں ہوا، نیب کی وجہ سے کوئی افسر کام کرنے کو تیار نہیں، جو دو ادارے نیب سے مستشنیٰ ہیں اُن کے ہی ریٹائرڈ لوگوں کو قومی احتساب بیورو کا سربراہ لگایا جاتا ہے‘۔
شاہد خاقان عباسی نے مطالبہ کیا کہ ’ہر رکن پارلیمان بتائے اُس خرچہ کہاں سے پورا ہوتا ہے، جب سیاست دان خود ٹیکس ادا نہیں کرتے تو وہ دوسروں پر ٹیکس نافذ کرنے کی ہمت کیسے کرسکتے ہیں جبکہ ہر شناختی کارڈ کا حامل پوٹینشل ٹیکس گزار ہے، ملک میں صرف نوکری پیشہ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں اور کوئی نہیں کرتا‘۔
سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ’ملک کو بہتر کرنے کے لیے کوئی معجزہ نہیں ہوگا بلکہ ہمیں فیصلے کرنے ہوں گے اور سب سے پہلا فیصلہ آئین کی پاسداری، ٹیکس ادائیگی کا ہونا چاہیے، اس کے بعد پانی کی قلت سمیت دیگر اہم مسائل پر بھی غور کرنا چاہیے‘۔
تقریب میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور سابق سینیٹر مصطفیٰ نواز کھوکھر سمیت دیگر نے بھی خطاب کیا اور پاکستان کو دوبارہ سے خوشحال کرنے کیلیے ایک نئے معاہدے اور سمت کی طرف آنے پر زور دیا۔