جمعرات , 18 اپریل 2024

کیا نیتن یاہو ایران پر حملے کا سوچ بھی سکتا ہے؟

بقلم ڈینی سیٹرینوویچ (صیہونی سکیورٹی ماہر)

بنجمن نیتن یاہو نے جیسے ہی چھٹی بار وزارت عظمی کا قلمدان سنبھالا تو اس کی حکومت نے اعلان کیا کہ ان کی توجہ کا مرکز ایران سے درپیش خطرے کے تمام پہلو، خاص طور پر ایران کا جوہری پروگرام ہے۔ نیتن یاہو کی باتوں اور اقدامات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس نے ایران کے بارے میں اپنا طریقہ کار تبدیل نہیں کیا۔ وہ ایران سے ہر قسم کے جوہری معاہدے کی مخالفت کا ارادہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی زور دے رہا ہے کہ اسرائیل ایران کی جانب سے جوہری ہتھیار تیار کرنے کے منصوبوں کو ناکارہ بنانے میں ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہو گا۔ اس تناظر میں یوں دکھائی دیتا ہے کہ نیتن یاہو تہران پر سیاسی اور اقتصادی دباو بڑھانے کیلئے امریکہ، دنیا اور علاقائی طاقتوں سے تعلقات بڑھانے پر خاص توجہ دے گا۔ لیکن اس کے باوجود جو کام گذشتہ چند سالوں تک نیتن یاہو کیلئے مشکل تھا وہ موجودہ عالمی حالات میں مختلف وجوہات کی بنا پر تقریبا ناممکن ہے۔

بنجمن نیتن یاہو کو درپیش سب سے بڑی حالیہ مشکل یہ حقیقت ہے کہ وہ بائیڈن حکومت کو ساتھ ملانے کیلئے مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔ اگرچہ دونوں ممالک ایران سے درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے میں اتفاق رائے رکھتے ہیں اور جو بائیڈن بھی اس سے پہلے یہ عہد کر چکے ہیں کہ وہ آخری آپشن کے طور پر ایران پر حملہ کرنے سے دریغ نہیں کریں گے، لیکن اس بارے میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان خلیج بدستور بہت گہری ہے۔ ایران اس وقت امریکی حکومت کیلئے پہلی ترجیح نہیں ہے بلکہ یوکرین جنگ اور چین کی جانب سے درپیش خطرات میں ڈرامائی اضافہ اس کی پہلی ترجیح قرار پا چکے ہیں۔ مزید برآں، بائیڈن حکومت کا عمل ظاہر کرتا ہے کہ اس کے خیال میں ایران میں ہنگاموں اور یوکرین جنگ میں ایران کی جانب سے روس کو مدد فراہم کرنے کے باوجود ایران پر مزید دباو ڈالنے سے وہ توازن بگڑ سکتا ہے جو اس وقت دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہو چکا ہے۔

دوسری طرف اگرچہ بائیڈن حکومت میں شامل اعلی سطحی حکام یہ تصور کرتے ہیں کہ ایران سے جوہری معاہدے میں واپسی کے امکانات بہت کم ہو چکے ہیں لیکن ان کی نظر میں ایران کو جوہری پروگرام مزید تیز کرنے سے روکنے کیلئے سیاسی میدان میں بورجام معاہدے کا نعم البدل بھی نہیں پایا جاتا۔ یہ امر نیتن یاہو کی پالیسیوں سے مکمل طور پر متضاد ہے جو تہران سے ہر قسم کی گفتگو اور مذاکرات کو رد کرتا ہے۔ حتی اگر بائیڈن حکومت ایران پر دباو بڑھانے کا فیصلہ کر بھی لے تب بھی اس کا مقصد ایران سے جوہری معاہدے کی جانب واپسی ہو گا اور گفتگو کے تمام مواقع گنوا دینے کی خاطر انجام نہیں پائے گا۔ ایران سے متعلق نیتن یاہو کے ممکنہ اقدامات پر بائیڈن حکومت میں تشویش پائی جاتی ہے جبکہ اسے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف نیتن یاہو کے یکطرفہ اقدامات کا تلخ تجربہ بھی ہے اور ان دونوں چیزوں نے امریکہ اور اسرائیل کی پالیسیوں میں موجود خلیج کو مزید بڑھا دیا ہے۔

ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر بنجمن نیتین یاہو ایسے قوانین بناتا ہے جو امریکہ میں موجود یہودیوں کی پوزیشن کمزور ہو جانے کا باعث بنتے ہیں یا ایسے اقدامات انجام دیتا ہے جن سے اسرائیل میں یہودی مہاجرین اور حکومت کے درمیان فاصلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ ایران کے خلاف امریکہ میں یہودی لابی کی حمایت بھی کھو دے گا۔ ایسی صورت میں حتی امریکی کانگریس میں موجود اسرائیل کے حامی اراکین بھی نیتن یاہو کا ساتھ نہیں دے پائیں گے، ڈیموکریٹک اراکین کانگریس کی حمایت تو دور کی بات ہے۔ اس کے باوجود یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ بائیڈن حکومت اور اسرائیل ایران سے متعلق مسائل پر وسیع سطح پر ایک پیج پر نہیں آ سکتے جیسا کہ تہران اور ماسکو میں بڑھتے تعلقات پر دونوں پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ایران کے جوہری پروگرام پر پھر بھی دونوں میں اختلافات موجود رہیں گے۔

حتی اگر نیتن یاہو ایران کے جوہری مسئلے کو پہلی ترجیح بنانے میں کامیاب بھی ہو جائیں تب بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس میدان میں ایران کی ترقی کو واضح طور پر روک سکیں گے۔ ایسی صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حتی نطنز اور فردو کو نابود بھی کر دیا جائے تو کیا اس علم کو ختم کرنا ممکن ہے جو ایران اس شعبے میں حاصل کر چکا ہے؟ دوسری طرف روس اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات تہران میں اسرائیل کے خفیہ اقدامات کو سیاسی اور سکیورٹی لحاظ سے مشکلات کا شکار کر سکتے ہیں۔ آج کا ایران وہ ایران نہیں جسے نیتن یاہو جانتا تھا اور جو تخریب کاری اور سائبر حملوں کے مقابلے میں بہت مشکل سے ردعمل ظاہر کر سکتا تھا۔ یہ وہ چیز ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کے خفیہ اقدامات کے نتیجے میں جنگ کا شدید خطرہ پایا جاتا ہے۔ اگر تو نیتن یاہو یہ سمجھتا ہے کہ وہ سعودی عرب جیسی علاقائی طاقتوں کی مدد سے ایران پر دباو بڑھا سکتا ہے تو اسے دوبارہ سوچنا چاہئے۔

کسی بھی حالت میں ایران کی جانب سے درپیش جوہری خطرے کو دور کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ مزید برآں، موصولہ رپورٹس کی روشنی میں ایران میں یورینیم افزودگی پر مبنی حق کے بارے میں سو فیصد اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ لہذا یوں دکھائی دیتا ہے کہ مستقبل میں ایران کسی صورت میں یورینیم افزودہ کرنے کی تنصیبات ختم نہیں کرے گا۔ 2018ء سے ایران کے بارے میں اسرائیل اور باقی دنیا کے درمیان خلیج شدت اختیار کر چکی ہے۔ لہذا اسرائیل کو چاہئے کہ دنیا سے ناامید ہو کر ایران کے مقابلے میں اکیلے میدان میں اترنے سے پہلے اپنی سیاست میں موجود اوہام و خیال سے باہر نکل کر حقیقت سے قریب ہونے کی کوشش کرے۔ دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ایران کے مسئلے کا بہترین اور شاید واحد راہ حل سیاسی ہے اور نیتن یاہو کی شدت پسندی ممکن ہے دنیا کو ایران سے معاہدہ کرنے میں جلدی پر مجبور کر دے۔ یہ اسرائیل کیلئے بدترین حالت ہو گی اور وہ گوشہ گیری کا شکار ہو جائے گا۔بشکریہ مشرق نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

غزہ میں جنگ بندی اسرائیل کی نابودی کے مترادف ہے، انتہاپسند صہیونی وزیر

یروشلم:بن گویر نے حماس کے ساتھ ہونے والی عارضی جنگ بندی کو اسرائیل کی تاریخی …