جمعرات , 25 اپریل 2024

امریکہ میں پامال ہوتی آزادی اظہار

(تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس)

کسی دور میں معاشرے میں اپنا نقطہ نظر پہنچانے کا سب سے اہم ذریعہ شعر ہوتا تھا، اسی لیے شاعر کی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔ قبیلے اور بادشاہ شاعروں کی پرورش کرتے تھے، تاکہ وہ ان کے بیانیوں کو معاشرے میں عام کریں۔ اسی طرح لوک دستانیں سنانے والے اور اعلان کرنے والے ہرکارے عام لوگوں تک بات پہنچاتے تھے۔ برصغیر میں اٹھارویں صدی میں پریس لگنے کے بعد اخبارات نکلنے لگے۔ اخبارات ایک پالیسی کے مطابق واقعات کو منظم انداز میں منعکس کرنے لگے۔ اخبارات کے زیادہ ہونے کے ساتھ ہی قوانین کا ایک پلندہ بھی آگیا کہ خبر لینی کہاں سے ہے؟ کونسی خبر چھاپنی ہے اور کونسی سنسر کر دینی ہے؟ یعنی حکومت و ریاست کی مرضی کا سچ ہی قوم کو دکھانا ہے۔ کبھی کبھی کچھ سر پھرے اخبار نویس حکومت کی مرضی کے خلاف خبریں لگاتے تو ان کے ایڈیشن ضبط کر لیے جاتے اور اخبارات کی رجسٹریشن بھی ختم کر دی جاتی اور بہت سے اخبار نویسوں نے تو لمبی مدت تک جیلیں کاٹیں۔

پھر ریڈیو شروع ہوا اور دنیا کے بڑے حصے پر بی بی سی اور اس طرح کے کچھ دیگر یورپی ریڈیو چینلز کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ یہ اپنی مرضی کی خبریں نشر کرتے تھے اور دنیا کی تقریباً تمام بڑی زبانوں میں نشریات پیش کرتے تھے۔ دنیا ریڈیو کے سحر میں ڈوبی ہوئی تھی کہ ٹی وی کی ایجاد نے ایک اور انقلاب برپا کر دیا۔ ٹی وی صرف ریاست کے کنٹرول میں تھا، اس لیے اس پر ریاست کی مرضی کی خبر ہی چل سکتی تھی۔ پھر پرائیویٹ چینلر بننے لگے اور پرائیویٹ چینلز مسابقت اور سب سے پہلے خبر کے چکر میں ایسے حد سے بڑھے کہ لوگوں کو اذیت ہونے لگی۔ لوگ وہ نہیں سننا چاہتے، جو وہ سنانے پر لگے ہوئے ہیں۔ انٹرنٹ کی ایجاد نے معلومات کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور دوسرے سارے ذرائع کی اہمیت پر سوالیہ نشان لگا دیئے۔

یوں موجودہ دور سوشل میڈیا کا دور ہے اور نوجوان نسل مکمل طور پر سوشل میڈیا سے جڑی ہوئی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک اپنے اپنے قومی مفادات کے پیش نظر سوشل میڈیا کی ان سائٹس اور ایپلیکیشنز پر نظر رکھتے ہیں۔ فیس بک اور ٹویٹر سمیت دنیا کی اہم ایپلیکیشنز بنا کر یورپ نے سوشل میڈیا پر اجارہ داری قائم کر لی۔ اسی طرح یوٹیوب کو ایک بڑا ڈیٹا بیس بنا دیا گیا۔ دنیا بھر سے جب بھی کوئی شخص کسی بھی سوشل میڈیا ایپلیکیشن پر آتا ہے تو وہ مغربی ممالک میں قائم ان کے ہیڈ کوارٹر کے ڈیٹا بیس میں رجسٹرڈ ہو جاتا ہے۔ پھر اس کی پوری نقل و حمل اور اس کی تحریر اور ویڈیوز یہاں تک کہ اس نے کیا کیا چیز کتنے گھنٹے دیکھی، ہر چیز کا ریکارڈ ان ممالک کے پاس چلا جاتا ہے۔ ان ایپلیکیشنز کو آرٹیفیشل انٹیلجنس سے منسلک کر دیا گیا، بعض اوقات ہم آپس میں بات کرتے ہوئے چند بار کوئی لفظ مثلاً سی ایس ایس سنتے ہیں تو ہمارا موبائل اگلے چند منٹس میں ایسے آرٹیلکلز اور ویڈیوز ہمارے سامنے لے آتا ہے، جو سی ایس ایس سے متعلق ہوتی ہیں۔

ان ایپلیکنشنز کے ذریعے مغربی اقدار و روایات کو زبردستی ہمیں دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل کو وہ تربیت بار بار دی جاتی ہے، جس کی ہماری تہذیبی روایات اجازت نہیں دیتیں۔ جب ان ایپلیکیشنز پر مغرب کی اجارہ داری تھی تو سب ٹھیک تھا، مگر اب دنیا کی کچھ اور طاقتیں اس میں داخل ہو رہی ہیں تو نئی کشمکش جنم لے رہی ہے۔ مذہبی مقدسات کی توہین کی وجہ سے پاکستان نے یوٹیوب پر پابندی لگائی یا ویکی پیڈیا سے کہا گیا کہ کچھ مخصوص مواد ہٹا دے اور انہوں نے نہیں ہٹایا تو اس پر کچھ عرصے کے لی پابندی لگائی گئی، اس پر پوری دنیا میں واویلا مچایا گیا کہ پاکستان میں آزادی اظہار کا قتل عام ہوگیا ہے اور لوگوں کو معلومات تک رسائی کے بنیادی حق سے محروم کیا گیا ہے۔ اسی طرح دنیا کے بہت سے ممالک پر امریکہ اور مغرب تنقید کرتے ہیں کہ انہوں نے انٹرنٹ کی بعض سائٹس پر پابندی لگا رکھی ہے۔

چین کی ایپ ٹک ٹاک دنیا بھر میں کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے اور نوجوان نسل تیزی سے اس پر آرہی ہے۔ خود امریکہ میں ہر ماہ دس کروڑ امریکی ٹک ٹاک استعمال کرتے ہیں۔ یوں امریکہ کی آبادی کے ایک تہائی سے کچھ کم ٹک ٹاک پر آچکا ہے، یعنی ٹک ٹاک امریکہ کی مقبول ایپ بن رہی ہے۔ کچھ عرصے سے جیسے امریکہ نے چینی کمپنی ہواوے پر الزام لگا رہا تھا کہ اس کے ذریعے چائینہ جاسوسی کر رہا ہے، اب یہی کچھ ٹک ٹاک کے خلاف کہنا شروع کیا اور اس پر پابندی کی باتیں ہونے لگیں۔ میں اسے بس خبر ہی سمجھ رہا تھا کہ پتہ چلا سینٹ نے اس پر باقاعدہ قانون سازی کرکے صدر کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ وہ ٹک ٹاک پر پابندی لگا سکتے ہیں۔ امریکہ کے شہری اس پر اپنا کلچر اور اپنے تہذیب پیش کر رہے تھے۔ ٹک ٹاک کے ترجمان نے درست کہا کہ یہ لوگوں کو آگاہی سے محروم کرنا ہے۔

جب تک ان ایپس کے ہیڈ کوارٹرز مغرب میں ہوں، جہاں امریکہ اور نیٹو کی رسائی ہو تو وہاں معلومات حکومتوں کو بھی نہیں ملتیں اور ڈیوائسز جاسوسی کے لیے بھی استعمال نہیں ہوتیں اور جب دنیا کی کوئی اور قوم سوشل میڈیا پر امریکی تسلط کو چیلنج کرے اور صارفین کو مغربی ایپس سے بہتر تفریح مہیا کرے یا سستے موبائل دے تو یہاں ملکی سلامتی کا کوئی بھی الزام لگا کر اسے بند کر دیا جائے۔ لگ یوں رہا ہے کہ جس طرح دنیا کے مختلف ممالک ٹیکنالوجی کے میدان میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں، اب یا تو مغرب اپنے آزادی اظہار کے تصور کو محدود کر دے گا، یا اسے دیگر اقوام کی بات بھی سننا پڑے گی۔ یہ بات بھی بڑی دلچسپ ہے کہ ٹک ٹاک پر پابندی لگانے پر ڈیموکریٹس اور ریپلکنز میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے، یعنی دونوں آزادی اظہار کے خلاف ایک جیسی سوچ رکھتے ہیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …