ہفتہ , 20 اپریل 2024

نگران حکومت کی ’’نگرانیاں‘‘

(پیر فاروق بہاو الحق شاہ)

دنیا کی بڑی جمہوریتوں میں نگران حکومت کا تصور ہی موجود نہیں۔ پہلے سے کام کرنیوالی حکومت انتخابات کے دنوں میں از خود اپنے اختیارات محدود کر لیتی ہے اور الیکشن کمیشن عملاً، نظام حکومت سنبھال لیتا ہے۔

ہمسایہ ملک بھارت میں بھی یہی روایت ہے۔ بنگلہ دیش میں بھی 2008 ء کے بعد ایک آئینی ترمیم کے ذریعے نگران حکومت کا معاملہ ختم کر دیا گیا۔ پاکستان میں نگران حکومت کا تصور 1973ء کے آئین میں موجود ہی نہیں تھا۔ جنرل محمد ضیاالحق نے 1985ء میں آرٹیکل 48/5 (B)کے ذریعے نگران حکومت کے تصور کو دستور کا حصہ بنایا۔

1988 ء میں غلام مصطفیٰ جتوئی پہلے نگران وزیراعظم مقرر ہوئے لیکن انکی غیر جانبداری کا یہ عالم تھا کہ وہ خود نواب شاہ سے قومی اسمبلی کا انتخاب ہار گئے۔ پنجاب میں 1993ء میں پہلی مرتبہ نگران وزیر اعلیٰ کے طو پر شیخ منظور کا تقرر ہوا بعد میں مختلف انتخابات سے قبل میاں افضل حیات، اعجاز ناصر، نجم سیٹھی اور حسن عسکری رضوی نگران وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز رہے۔ ماضی کے نگران وزرائے اعلیٰ پر جانبداری کا کوئی بڑا الزام نہ لگا۔ البتہ نجم سیٹھی کے دامن پر ’’ 35پنکچروں کے دھبے‘‘ لگے۔

ان دنوں محسن نقوی اس منصب پر فائز ہیں۔وہ اپنی خدمات سے کسے خوش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ نگران وزیر اعلیٰ صحافی برادری سے تعلق رکھتے ہیں لیکن نگران حکومت کی ساری توجہ اس وقت انتخابات کروانے کے بجائے انتخابات رکوانے پر مرکوز ہے۔ انتخابات کیلئے سازگار ماحول پیدا کرنے کی بجائے مزید خراب کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جان بوجھ کر ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں کہ انتخابات کا آزادانہ اور منصفانہ انعقاد ممکن نہ رہے۔ پنجاب میں عام انتخابات کیلئے ریٹرننگ افسر عدلیہ کی بجائے انتظامیہ سے لئےگئے ہیں۔

پنجاب حکومت کے ماتحت افسران کس حد تک غیر جانبدار رہیں گے یہ کوئی راز نہیں۔ تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کے دوران پنجاب حکومت کا رویہ اس امر کا غماز تھا کہ وہ کس ہدایت کار کے اشاروں پرسیاست کے ڈرامے میں اداکاری کے جوہر دکھا رہی ہے۔عام انتخابات کے اعلان کے بعد انتخابی ریلی منعقد کرنا ہر سیاسی جماعت کا حق ہے اور انتظامیہ پر لازم ہے کہ وہ اس کیلئے سیکورٹی کے مناسب انتظامات کرے۔لیکن نگران حکومت نے اپنی ’’نگرانی‘’ کا سارا فوکس زمان پارک اور تحریک انصاف پر مرکوز رکھا اور لاہور کی سڑکوں پر بے رحمانہ تشدد کی نئی مثالیں قائم کی گئیں۔

اب یہ سوال پیدا ہو رہاہے کہ کیا موجودہ نگران، انتخابات کروانے آئے ہیں یا عمران خان کو دیوار سے لگانے؟ ان کے لہجے میں وہ طنز کی کاٹ کیوں ہے جو مسلم لیگی رہنماؤں کے لہجے میں نظر آتی ہے؟نگرانوں کے بیانات میں وہ تلخی کیوں ہے جو مسلم لیگی رہنماؤں کی تقریروں میں دکھائی دیتی ہے؟ میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ انہوں نے غیر جانبداری کے لفظ کو ایک نیا معنی عطا کر دیا ہے۔تحریک انصاف کے مخالف اتحاد کو یہ یقین ہو گیا ہے کہ سیاسی میدان میں مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں رہی۔ اسی لئے وہ پولیس کا سہارا لے کر تحریک انصاف کے کارکنوں پر چڑھ دوڑے ہیں۔جبکہ پوری وفاقی حکومت نگرانوں کے کارناموں پر پردہ ڈالنے اور ان کے اقدامات کو سند جواز بخشنے میں مصروف ہے۔

حکمرانوں کو اب نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے۔نہ ان سے حکومت چل رہی ہے نہ معیشت سنبھل رہی ہے۔اس فرسٹریشن کا اظہار غریب کارکنوں پر تشدد کر کے کیا جا رہا ہے۔ یہ رجحان پاکستانی سیاست کیلئے کسی طور بھی سود مند نہیں۔اس کا خمیازہ آنے والے دنوں میں ان تمام کرداروں کو بھگتنا پڑے گا جو آج عارضی اقتدار کے منصب پر بیٹھ کر پاکستان کی سیاسی اقدار کو پامال کر رہے ہیں اور تشدد کی نئی روایات جنم دے رہے ہیں۔ملک کی سیاسی اشرافیہ کو بھی باتوں سے بڑھ کر عمل کی طرف آنا ہوگا۔

گزشتہ دنوں کراچی میں ہونے والی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ یقیناً کسی بھی محب وطن پاکستانی کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی ہیں لیکن انہیں یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان کی’’ری امیجنگ‘‘ کیلئے ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی جکڑ بندیوں کو توڑ کر میدان میں اترنا پڑے گا۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ ایک طرف’’اسٹیٹس کو ‘‘کی علمبردار جماعت سے منسلک ہوں اور ساتھ ہی’’نئے پاکستان‘‘ کی بھی بات کریں۔

جناب مصطفیٰ نواز کھوکھر،مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی کو اس حقیقت کا یقیناًادراک ہوگا کہ معاملات اب زبان و بیان کی سرحدوں سے آگے نکل چکے۔پاکستان کے موجودہ حالات عمل کے متقاضی ہیں۔ اگر آپ کو پاکستان کی بقا کی جنگ لڑنی ہے تو آپ کو پرانے بوسیدہ نظام کی رسیوں سے خود کو آزاد کرانا ہوگا۔

مقدمات، جیلوں، پابندیوں کے زمانے گزر گئے ہیں۔پیمرا کے ذریعے تقاریر پر پابندی کو بھی کون خاطر میں لاتا ہے۔غیر اعلانیہ سنسر شپ اب کیسے چل سکتی ہے۔معاشی اور معاشرتی بگاڑ اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب شہ دماغوں کو پرانی ڈگر ترک کر کے نئے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا۔جس طرح توشہ خانہ کیس نے تمام شرفاء کے نقاب الٹے ہیں، اس نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔

توشہ خانہ کی آنے والی ہوش ربا تفصیلات نے ’’جعلی امیج‘‘ کا بت توڑ دیا ہے اور پاکستان کی صحیح معنوں میں’’ ری امیجنگ‘‘ کی اہمیت کو واضح کردیا ہے۔ نگرانوں کو بھی اپنی توجہ انتخابات کیلئے سازگار ماحول بنانے پر صرف کرنی چاہئے تاکہ ملک بحران سے نکل کرترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔بشکریہ جیو نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …