(سید مجاہد علی)
ماضی میں توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والے سیاست دانوں اور سرکاری افسروں و صحافیوں کی معلومات عام ہونے کے بعد سے ملک میں ایک بار پھر اس ایک موضوع پر شدید مباحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اس مسئلہ کے سوا قوم تمام مسائل سے باہر نکل آئی ہے اور اب دیانت دار لیڈروں کی تلاش میں توشہ خانہ معلومات کو معیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال سنگین مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے اور نان ایشوز پر بات کا بتنگڑ بنانے کا رویہ ہے جس سے نہ تو اہل پاکستان کا کوئی بھلا ہو گا اور نہ ہی پیچیدہ اور تہ دار مسائل حل کرنے کی طرف کوئی پیش قدمی ممکن ہوگی۔
اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ توشہ خانہ اور غیر ملکی لیڈروں کی طرف سے ملنے والے تحائف کے حوالے سے عوامی مباحث کا آغاز ان اطلاعات کے بعد ہوا تھا جن کے مطابق عمران خان نے بطور وزیر اعظم توشہ خانہ سے قیمتی تحائف معمولی رقم ادا کر کے خریدے اور پھر انہیں دبئی وغیرہ میں فروخت کر کے کروڑوں روپے ذاتی بنک اکاؤنٹس میں جمع کرلئے۔ اس معاملہ پر الیکشن کمیشن میں معاملہ زیر غور آنے اور میڈیا مباحث کے دوران عمران خان اور تحریک انصاف کے لیڈروں نے کسی بھی قسم کی غیر قانونی حرکت میں ملوث ہونے سے انکار کیا۔ بلکہ عمران خان نے تو یہاں تک کہا کہ ’جو تحائف مجھے ملے تھے، میں انہیں رکھوں یا بیچوں، میری مرضی‘ ۔ لیکن معاملہ بہر حال اتنا سادہ نہیں تھا۔ الیکشن کمیشن اس معاملہ میں عمران خان کو قومی اسمبلی کی نشست سے نا اہل قرار دے چکا ہے اور وہ خود اسلام آباد کی عدالت میں قائم مقدمہ میں الزامات کا سامنا کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود عمران خان آج اس کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی میں حاضر نہیں ہوئے جس کے بعد ایک بار پھر ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔
تاہم اس بحث میں نیا موڑ اس وقت آیا جب ایک وکیل نے لاہور ہائی کورٹ میں توشہ خانہ سے تحائف خریدنے والے لوگوں کی فہرست عام کروانے کے لئے پٹیشن دائر کی۔ شہباز حکومت نے گزشتہ روز تقریباً ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل تحائف کی ایک فہرست جاری کی ہے جس میں 2002 سے لے کر 2023 تک کی معلومات دی گئی ہیں۔ یہ فہرست سامنے آنے کے بعد الزام تراشی کا ایک نیا طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ کیوں کہ ان معلومات سے یہ واضح ہوا ہے کہ ہر دور میں ہر سیاسی لیڈر نے قیمتی تحائف معمولی معاوضہ ادا کر کے خریدے۔ اب تحریک انصاف زرداری اور نواز شریف کو چور کہہ رہی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنے طور پر تحریک انصاف کو مطعون کرنے کا اہتمام کر رہی ہے۔ بدقسمتی سے ملک کی اعلیٰ ترین قیادت بھی اس معاملہ میں متوازن رویہ اختیار کرنے، ماضی میں بنائے گئے قواعد کو غیر منصفانہ یا ملکی مفاد کے خلاف تسلیم کرنے اور مستقبل میں اس کی اصلاح کا وعدہ کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ حالانکہ سرکاری معلومات تک عوامی رسائی کے قانون کا بنیادی مقصد تو یہی ہے کہ اگر معاملات عام ہوں گے تو اصلاح احوال کا موقع ملتا رہے گا۔ سب معاشروں میں یہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے اور پرانے طریقے اگر ناجائز اور غیر منصفانہ سمجھے جائیں تو انہیں تبدیل کرنے پر اتفاق کر لیا جاتا ہے۔
جب سیاسی لیڈر اور پارٹیاں جوابدہی سے گریز کرتے ہیں تب ہی بے چینی بھی پیدا ہوتی ہے اور بعض سہولتوں کو غلط طور سے استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں تھا کہ ماضی قریب میں آصف زرداری یا نواز شریف نے بھی توشہ خانہ سے تحائف خریدے اور انہیں ذاتی مصرف میں لایا گیا۔ البتہ توشہ خانہ سے خریدے گئے تحائف کی فہرست سامنے آنے کے بعد یہ واضح ہوا ہے کہ کس نے کتنے تحائف خریدے اور اس کے عوض اصل مالیت کا کتنے فیصد سرکاری خزانے میں جمع کروایا گیا۔ مختلف ادوار میں چونکہ تحائف خریدنے کے لئے مختلف قواعد بنائے جاتے رہے ہیں لہذا اسی حساب سے لیڈروں نے بھی پندرہ سے بیس فیصد تک معاوضہ ادا کر کے یہ تحائف حاصل کیے۔
اس بنیاد پر سیاسی لیڈروں کی کردار کشی اور یہ تاثر استوار کرنا کہ اگر توشہ خانہ کو ایسے لوٹا گیا تھا تو قومی خزانے پر کیسے کیسے ڈاکے مارے گئے ہوں گے، بنیادی طور سے ایک غیر متوازن اور گمراہ کن تبصرہ ہے۔ توشہ خانہ سے صرف وہی تحائف متعلقہ لوگوں نے خریدے تھے جو انہیں ان کی سرکاری حیثیت میں غیر ملکی شخصیات نے دیے تھے۔ حکومت پاکستان کے عہدیدار کے طور پر تحائف وصول کرنے والوں کے لئے توشہ خانہ قواعد و ضوابط میں گنجائش رکھی گئی تھی جو عمران خان کے نام نہاد شفاف دور حکومت میں بھی تبدیل نہیں ہوئی۔ اس لئے ایسے تحائف خریدنے والوں کو چور اچکا نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ یہ ضرور اہم ہے کہ سیاسی لیڈر اس صورت حال سے سبق سیکھیں اور اقرار کریں کہ یہ قواعد شاید مناسب نہیں تھے جنہیں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
شہباز شریف کو یہ کریڈٹ بہر حال دینا پڑے گا کہ ان کی حکومت نے نہ صرف گزشتہ بیس اکیس سال کی معلومات عام کی ہیں بلکہ اس سے پہلے وہ یہ اعلان بھی کرچکے ہیں کہ وزیر اعظم کو ملنے والے تحائف کو وزیر اعظم ہاؤس میں ہی ڈسپلے کیا جائے گا تاکہ عوام الناس انہیں دیکھ سکیں۔ اس فیصلہ سے قطع نظر بعض تحائف ایسے ہوتے ہیں جنہیں محفوظ نہیں کیا جاسکتا جن میں اشیائے خورد و نوش بھی شامل ہیں۔ اس لئے یہ اصول بنایا جاسکتا ہے کہ آئندہ کوئی عہدیدار یا سیاسی لیڈر توشہ خانہ سے رعایتی نرخ پر تحفے حاصل نہیں کرسکے گا بلکہ ان کی سرکاری نیلامی ہوگی اور جو بھی زیادہ قیمت دے گا، اسی کو وہ اشیا دے دی جائیں گی۔ اگر سیاسی لیڈر متوازن اور ذمہ دارانہ طریقہ اختیار کرتے تو اس معاملہ کو خوش اسلوبی سے حل کیا جاسکتا تھا لیکن سیاسی ماحول میں گرمی پیدا کرنے کے لئے ہر سیاسی رہنما نے مدمقابل کو چور اچکا قرار دینا خود پر فرض کر لیا ہے۔
اس حوالے سے عمران خان کے خریدے گئے تحائف اور ان پر ہونے والے مباحث یا قانونی کارروائی کو ویسا ہی طریقہ اختیار کرنے والے دیگر لیڈروں کے ساتھ ملا کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ عمران خان نے اگر قواعد کے مطابق رقم ادا کر کے تحفے خریدے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں تھا۔ لیکن بات یہیں تک رہتی تو شاید توشہ خانہ کا معاملہ عوامی مباحث کا حصہ ہی نہ بنتا۔ عمران خان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے قواعد کے مطابق یہ تحفے ذاتی استعمال کے لئے حاصل نہیں کیے بلکہ انہیں فروخت کر کے ان سے حاصل ہونے والی دولت کو اپنے مصرف میں لائے۔ اس طرح عمران خان پاکستان کی تاریخ میں پہلے سیاسی لیڈر بن گئے جنہوں نے غیر ملکی رہنماؤں سے ملنے والے تحائف عام مارکیٹ میں فروخت کر کے ذاتی دولت میں اضافہ کیا۔
اس کے علاوہ اس فروخت میں شفافیت بھی دکھائی نہیں دیتی اور نہ ہی عمران خان اپنی پوزیشن واضح کرنے پر آمادہ ہیں بلکہ وہ ان الزامات کو اپنے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا قرار دے کر اس افسوسناک بے قاعدگی کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ اس وقت اصل سوال یہ نہیں ہے کہ عمران خان نے کتنے تحفے کتنی رقم دے کر خریدے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ انہیں کہاں اور کتنے دام میں بیچا گیا۔ اگر یہ تحائف دبئی میں فروخت کیے گئے تو ابھی تک ان کی فروخت سے حاصل ہونے والے وسائل کو قانونی طریقے سے پاکستان منتقل کرنے کا دستاویزی ثبوت نہیں دیا گیا۔ اور جس نکتہ پر عمران خان نا اہل بھی ہوئے، وہ یہ ہے کہ انہوں نے یہ آمدنی اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کی۔ یادش بخیر پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ نواز شریف کو اس لئے نا اہل قرار دیا گیا تھا کہ انہوں نے اپنے ہی بیٹے کی ایک کمپنی میں عہدہ رکھنے کے باوجود اس کی تنخواہ کیوں وصول نہیں کی اور کیوں اسے اپنے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا۔
ہائی کورٹ سے لے کر عوامی مباحث تک میں توشہ خانہ کیس کے حوالے سے لاتعداد پہلوؤں سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں تاہم اس حوالے سے سب سے اہم سوال ابھی تک کہیں سننے میں نہیں آیا کہ اگر پاکستانی لیڈروں اور اہلکاروں کو ان کی سرکاری حیثیت میں غیر ملکی دوروں کے دوران یا غیر ملکی مہما نوں کی آمد کے موقع پر تحائف ملتے ہیں تو قومی خزانے سے بھی تو غیر ملکی مہمانوں کو خیر سگالی کے اظہار کے لئے تحفے دیے جاتے ہوں گے۔ درحقیقت ان تحائف کا حساب ہی عوامی مفاد میں ہو گا کیوں وہ سارے تحائف عوامی وسائل سے خریدے جاتے ہیں۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تمام دوست ممالک پاکستانی لیڈروں پر تحائف کی بارش کرتے ہیں اور حکومت کی طرف سے کسی غیر ملکی شخصیت کو کبھی کوئی تحفہ نہیں دیا گیا۔
عوامی وسائل کے مناسب استعمال کا سوال اٹھانے والوں کو یہی استفسار کرنا چاہیے کہ پاکستان نے مختلف ادوار میں کن لیڈروں کو کتنی مالیت کے تحائف دیے۔ ان تحائف کی پوری قیمت تو بہر حال قومی خزانے سے ہی ادا ہوئی ہوگی۔ یہ حساب کتاب سامنے آنے پر تخمینہ لگایا جاسکتا ہے کہ حکومت کو وصول ہونے والے تحفے سستے داموں خریدنے والے لیڈروں نے جوابی خیر سگالی میں قومی خزانے کو کتنا زیر بار کیا۔ اس حساب کتاب کے بعد پارلیمنٹ مناسب سمجھے تو ماضی میں توشہ خانہ سے استفادہ کرنے والے لیڈروں سے جوابی تحائف کی قیمت خرید وصول کرنے کے لئے قانون سازی کر سکتی ہے۔بشکریہ شفقنا نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔