جمعرات , 25 اپریل 2024

سیٹ کا نشہ

(تحریر: سید تنویر حیدر)

پھر ایک بار الیکش کا بگل بج گیا ہے۔ پھر ایک بار لیلیٰء اقتدار کے حصول کے لیے میدان سج گیا ہے۔ اس میدان کے کھلاڑیوں میں کئی پرانے کھلاڑی ہیں، جو اس میدان کے شہسوار ہیں اور کئی محض اپنے شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس میدان میں کود پڑنے کے لیے بے قرار ہیں۔ ان کے بارے میں یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ہمیشہ کی طرح اب بھی اس میدان کی محض خاک چاٹیں گے اور بدنامی کے تمغے کے حقدار ٹھہرائے جاٸیں گے اور پھر اپنی شکست کا داغ مٹانے کے لئے مصطفیٰ خان شیفتہ کا یہ شعرگنگناتے ہوئے نظر آٸیں گے:
ہم طالب شہرت ہیں، ہمیں ننگ سے کیا کام
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا

ہر میدان میں اترنے کا ایک میرٹ اور ایک پیمانہ ہوتا ہے۔ ریسلنگ کے میدان میں اترنے کے لیے بھی مطلوبہ ویٹ کا ہونا ضروری ہے۔ پچاس کلو گرام وزن رکھنے والے پہلوان کو اگر دو سو پچاس کلو گرام ویٹ رکھنے والے پہلوان کے سامنے چھوڑ دیا جائے گا تو وہ پہلے ہی مرحلے میں چاروں شانے چت ہو جائے گا۔ میدانِ سیاست میں اترنے کے لیے بھی ایک خاص میرٹ پر اترنا پڑتا ہے۔ سیاست میں مروجہ الیکشن ایک ایسی نمبر گیم ہے، جس میں بندوں کو گننے کے علاوہ پیسوں کو تولا جاتا ہے۔ لہذا اس میدان میں بھی قدم رکھنے سے قبل اپنے وزن اور اپنے قد کاٹھ کا اندازہ ہونا ضروری ہے۔ اگر کوٸی امیدوار اس مقابلے میں اپنی حیثیت کو نظر انداز کرتے ہوئے محض سیاست برائے اقتدار حصہ لیتا ہے تو اس کی ضمانت بھی ضبط ہوسکتی ہے۔ ایسی متوقع صورت میں کسی طالع آزما کو کم سے کم دو طرح کے نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

ایک تو اس کے دامن سیاست پر شکست کا داغ لگ جاتا ہے، دوسرا وہ عوام الناس کے سامنے ایکسپوز ہو جاتا ہے۔ اس کی جو ساکھ زمانے بھر کی نظروں سے اوجھل ہوتی ہے، اس کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ جاتا ہے اور اس کی نااہلی اور کمزوری سب کے سامنے طشت ازبام ہو جاتی ہے۔ ہماری کچھ مذہبی جماعتوں کا حال بھی کچھ اسی قسم کا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ اپنے ماضی ہی کی طرح کا ہے۔ وہ الیکشن کے ذریعے لیلیٰء اقتدار تک پہنچنے کی ہوس میں خود اپنی عزت و ناموس کو دشتِ سیاست کہ پنہاٸی میں کہیں گم کر دیتی ہیں۔ دین کے نام پر سیاست کرنے والی یہ جماعتیں اگر سیاست کو دین کا جزو سمجھتی ہیں تو وہ خود کو سیاست کے افق پر باقی رکھنے کے لیے کئی اور انداز بھی اختیار کرسکتی ہیں۔ ہماری یہ جماعتیں کئی بار قومی سطح کے انتخابات میں حصہ لے کر اپنی حیثیت کا جنازہ نکال چکی ہیں۔

ان کا اصل وظیفہ تو یہ تھا کہ وہ بار بار شکست کا جام نوش کرنے کے بعد اپنے لوگوں میں اپنی جڑیں مضبوط کرتیں اور قیادتوں کے بکھیڑے سے نکل کر ملت کو ایک مضبوط پلیٹ فارم دیتیں، لیکن مقام افسوس ہے کہ انہوں نے محض چند سیٹوں کی خاطر (جن کا امکان کم ہے) اپنے اعلیٰ و ارفع نظریات کی بنیاد پر کھڑی بلند و بالا عمارت کو زمیں بوس کر دیا ہے۔ ان سے کوٸی یہ پوچھے کہ جزوقتی مفاد کی خاطر داٸمی نقصان اٹھانے والی سیاست کہاں کی سیاست ہے۔؟ اس تناظر میں بعض لوگ ”حزب اللہ“ کی مثال دیتے ہیں۔ انہیں علم ہونا چاہیئے کہ حزب اللہ نے الیکشن کی سیاست میں وارد ہونے سے پہلے عوام میں اپنی جڑوں کو کئی حوالوں سے مضبوط کیا اور پھر ایک تن آور اور قد آور درخت کی صورت میں سیاست کے ریگزار پر اپنے آپ کو کھڑا کیا۔

یہی مثال ”حماس“ کے حوالے سے بھی دی جا سکتی ہے، جبکہ دوسری طرف ہماری مذہبی جماعتوں کی صورت حال اس سے قدرے مختلف ہے۔ عوام سے ان کا رابطہ براہ راست نہیں بلکہ سوشل میڈیا کی وساطت سے ہے۔ ملت کی فلاح و بہبود کے حوالے سے ان کے پاس کوٸی قابلِ ذکر و فکر پروگرام نہیں ہے۔ ان کے پاس ایسے تھنک ٹینکس نہیں ہیں، جو اس گمبھیر صورتِ حال میں ملت کے سامنے کوٸی ایسا لاٸحہ عمل یا اسٹریٹجی رکھیں، جو ملت کو اس کے درپیش مساٸل سے نجات دلا سکے۔ ان جماعتوں کے کسی بھی اجتماع کو ملت کا نماٸندہ اجتماع نہیں کہا جا سکتا۔ زمینی حقاٸق اور بیلٹ بکس کے نتاٸج کے مطابق ان تمام جماعتوں کے اراکین کی تعداد کل آبادی کا ایک فی صد بھی نہیں ہے۔

سیاسی میدان میں اپنا قد کاٹھ بنانے کے لیے عوامی ہونا پڑتا ہے۔ ہمارے بعض علمائے کرام اہل منبر تو ہیں، لیکن عوام کے ساتھ فرش پر بیٹھنا اپنا منصب نہیں سمجھتے۔ منبر اور فرش جب تک ایک دوسرے سے جڑے ہوئے نہیں ہوں گے، بعض علماء اپنے خود ساختہ حصار سے باہر نہیں آئیں گے اور تیسرے درجے کی سیاسی قیادتوں کے پہلو میں بیٹھ کر اپنے مقام اور مرتبے کا خود لحاظ نہیں رکھیں گے، تب تک کسی سیاسی رہنماء کے نذدیک ان کی حیثیت ایک ”اشرفی“ کے برابر بھی نہیں ہوگی۔ اپنے اس ویٹ کے ساتھ کسی سیاسی دنگل میں قدم رکھنا محض میدان سیاست کی خاک سے اپنے آپ کو آلودہ کرنے کے مترادف ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …