جمعہ , 19 اپریل 2024

تحریک انصاف پر پابندی سے مسائل حل نہیں ہوں گے

(سید مجاہد علی)

ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال پر غور کے لئے حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا ہے جو بدھ کو شام چار بجے منعقد ہو گا۔ اجلاس کا دو نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق دہشت گردی کی صورت حال کے علاوہ اداروں کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے بارے میں غور ہو گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومتی پارٹیاں گزشتہ دو روز سے تحریک انصاف کی سرکردگی میں آرمی چیف کے خلاف نفرت انگیز مہم کی مذمت کرتی رہی ہیں اور ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا جا رہا ہے۔

گزشتہ روز حکومت اتحاد میں شامل جماعتوں کا اجلاس پانچ گھنٹے سے زائد مدت تک وزیر اعظم ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اس کے علاوہ وزیر اعظم کی سربراہی میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم بھی ایک اجلاس میں شریک ہوئے۔ دونوں اجلاسوں میں ملک کے سیاسی بحران اور امن و امان کی صورت حال پر غور کیا گیا۔ ان اجلاسوں میں پرتشدد احتجاج کرنے والوں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔

اجلاس میں طے کیا گیا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی ہوگی جو فوج اور عدلیہ سمیت ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رہے ہیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ ان شرانگیز کارروائیوں میں شامل لوگوں کے خلاف تمام ثبوت و شواہد دستیاب ہیں، ان کی روشنی میں سخت اقدام کیا جائے گا۔ عوام سے کہا گیا ہے کہ فوج اور اس کے سربراہ کے خلاف چلائی جانے والی نفرت انگیز مہم کا حصہ نہ بنیں۔ حکومتی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تاثر قوی ہو رہا ہے کہ عدالتیں عمران خان کے ساتھ خصوصی سلوک کر رہی ہیں۔ ملک میں انصاف کا دوہرا معیار قبول نہیں کیا جائے گا۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت کی بجائے شرپسند عناصر کے گروہ کے طور پر طرز عمل اختیار کیے ہوئے ہے جنہیں کالعدم تنظیموں سے وابستہ عناصر تربیت دے رہے ہیں۔ اس دوران وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے ایک ٹی وی انٹرویو میں اتحادی جماعتوں کے اجلاس کے حوالے سے بتایا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں سپریم کورٹ کی طرف سے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کا حکم دینے کے معاملہ پر شدید تشویش کا شکار ہیں۔ ان دونوں صوبوں کا خیال ہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی وقت منعقد ہونے چاہئیں۔ اگر پنجاب میں اب انتخابات ہو گئے تو وہاں قائم ہونے والی حکومت قومی اسمبلی کے انتخابات پر اثر انداز ہو گی۔

حکومت اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس میں تحریک انصاف کے احتجاج اور پولیس پر حملوں کے علاوہ آرمی چیف کے خلاف چلائی جانے ولی مہم پر بھی سخت ردعمل ظاہر کر رہی ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مقصد درحقیقت پنجاب اور خیبر پختون خوا میں انتخابات کے فیصلہ مسترد کرنے اور تحریک انصاف کی مہم جوئی کے خلاف سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے۔ اس اجلاس میں فوج اور آرمی چیف کے ساتھ یک جہتی کے حوالے سے قرارداد بھی پیش کی جائے گی۔ اگرچہ بظاہر پارلیمنٹ کے اجلاس کا مقصد دہشت گردی کی صورت حال اور اداروں کے خلاف مہم جوئی کو مسترد کر کے کوئی مناسب حکمت عملی اختیار کرنا ہے لیکن درحقیقت اس اجلاس کو تحریک انصاف کے خلاف کسی نہ کسی قسم کی انتقامی کارروائی کے لیے جواز کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ حکومت یہ بھی چاہے گی کہ پارلیمنٹ دو صوبوں میں عام انتخابات سے پہلے پولنگ کروانے کے خلاف رائے کا اظہار کرے تاکہ سپریم کورٹ پر فیصلہ تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ واضح رہے سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ تین دو کی اکثریت سے پنجاب اور خیبر پختون خوا میں 90 دن کے اندر انتخابات کروانے کا حکم دے چکا ہے۔ اسی فیصلہ میں دیے گئے اختیار کے تحت صدر مملکت عارف علوی نے پنجاب میں 30 اپریل کو انتخابات کروانے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تیاری بھی شروع کردی ہے۔

خیبر پختون خوا میں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود گورنر حاجی غلام علی نے ابھی تک انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے مئی کے آخر میں انتخابات کی تجویز دی تھی لیکن بعد میں اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا۔ اس دوران سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے باوجود حکمران جماعتوں کی طرف سے دو صوبوں میں انتخابات کی شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔ ملک میں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ کسی کو بھی یقین نہیں کہ یہ انتخابات اعلان شدہ تاریخوں پر منعقد ہوں گے۔ یہی صورت حال جزوی طور سے تحریک انصاف اور عمران خان کی ناراضی اور سخت گیر احتجاجی رویہ کا سبب بھی بنی ہوئی ہے۔

اب حکومتی اتحاد نے جو ایجنڈا تیار کیا ہے اس میں تحریک انصاف کو کسی نہ کسی صورت سزا دینے اور عدلیہ کو دباؤ میں لانے کی حکمت عملی تیار کی گئی ہے۔ حکومتی اتحاد کے طویل اجلاس کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس درحقیقت یہی دو مقاصد حاصل کرنے کے لیے بلایا گیا ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ حکومت تحریک انصاف کے خلاف کس قسم کی کارروائی کرنا چاہتی ہے لیکن یہ واضح ہے کہ ایسی کوئی بھی کارروائی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے۔ حکومت کو خوف ہے کہ عمران خان کی موجودہ مقبولیت کے ماحول میں ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف کی کامیابی نوشتہ دیوار ہے۔ اتحادی حکومت میں شامل جماعتیں اور خاص طور سے مسلم لیگ (ن) اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اب تحریک انصاف کے کارکنوں کی پرتشدد کارروائیوں کو عذر بنا کر کوئی ایسا اقدام کرنے کی کوشش کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے جس میں تحریک انصاف کے ممتاز قائدین کو ایسے مقدمات میں الجھایا جائے جن میں انہیں نا اہل قرار دلوایا جا سکے۔ اسی لئے بالواسطہ طور سے عدلیہ کو بھی دباؤ میں لانے کے لئے انصاف کا دوہرا معیار ختم کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے علاوہ وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ تحریک انصاف کو ’دہشت گرد عناصر‘ کا آلہ کار قرار دے کر اس پر پابندی کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ یہ قیاس کرنا مشکل ہے کہ حکومت اس قسم کا کوئی انتہائی اقدام کر سکتی ہے۔ تاہم اگر سرکاری حلقوں میں ایسی کوئی احمقانہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے تو توقع کرنی چاہیے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایسے ہوشمند عناصر موجود ہوں گے جو اس قسم کے عاقبت نااندیش اقدام کے خلاف متنبہ کرنے کے لئے آواز بلند کریں گے۔ تحریک انصاف اور عمران خان کی تمام تر شدت پسندی اور احتجاج کی غیر معمولی سیاست کے باوجود یہ واضح ہونا چاہیے کہ عمران خان ایک مقبول سیاسی لیڈر ہیں اور عوام کا ایک بڑا طبقہ ان کی حمایت کرتا ہے۔ کسی انتخاب سے پہلے یہ پیش گوئی کرنا مناسب نہیں کہ کتنے فیصد لوگ تحریک انصاف کی حمایت کریں گے لیکن ضمنی انتخابات کو پیمانہ سمجھا جائے تو تحریک انصاف قابل ذکر تعداد میں اسمبلیوں کی نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ ایسی سیاسی پارٹی کو انتظامی طاقت سے روکنے کی کوئی بھی کوشش ناقابل قبول اور غیر جمہوری ہے۔ ماضی میں بھی ایسی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ کسی مقبول لیڈر کو طاقت کی بجائے سیاسی طریقوں سے ہی زیر کیا جاسکتا ہے۔ اتحادی حکومت کی سیاسی پارٹیوں کو بھی اس کا ادراک ہونا چاہیے ورنہ وہ اپنا اور ملک کا شدید نقصان کر سکتی ہیں۔

حکومت اب آرمی چیف اور فوج کے خلاف چلائی جانے والی نام نہاد مہم اور سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈز کو بنیاد بنا کر اس کا سارا الزام تحریک انصاف پر عائد کرنا چاہتی ہے۔ حالانکہ اسٹبلشمنٹ کے خلاف مہم جوئی کرنے میں عمران خان کو انفرادیت حاصل نہیں ہے۔ ان سے پہلے نواز شریف اور مریم نواز فوجی قیادت کا نام لے کر انہیں پارٹی کے خلاف سازش کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔ ملکی رائے عامہ سیاست میں فوجی مداخلت کے خلاف تیار ہو رہی ہے۔ اسی لئے جب نواز شریف ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نام پر فوج کو سیاست سے دور رکھنے کی مہم چلا رہے تھے تو لوگ اس وقت نواز شریف کی حمایت کرتے تھے۔ البتہ اپریل میں تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے عمران خان نے اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست کا آغاز کیا تو عوام کی بڑی اکثریت ان کے اس سیاسی موقف کی حامی ہے۔

کسی بھی ریاستی ادارے کے خلاف مہم جوئی ناپسندیدہ حرکت ہے اور اسے مسترد کرنا چاہیے لیکن قانون سازی یا انتظامی کارروائیوں کے ذریعے کسی سیاسی رائے کو مسترد کرنے کا طریقہ کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ ان حالات میں فوج و عدلیہ سمیت حکومت کو متوازن اور معتدل رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ فوجی قیادت ضرور خود کو غیر سیاسی رکھنے کی کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن ماضی کی غلطیوں کا بوجھ اس قدر زیادہ ہے کہ اعتماد کی فضا بحال ہونے میں کچھ وقت ضرور لگے گا۔ ایسے میں اگر حکومت نے عوام کے جذبات کا خیال کیے بغیر اداروں کی عزت کے نام پر سیاسی انتقام کا سلسلہ شروع کیا تو یہ ملکی سیاست کے لئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ جمہوری انتظام کے تحت اقتدار سنبھالنے والی سیاسی جماعتوں کو ایسی کسی حرکت سے بچنے کی کوشش کرنا چاہیے ورنہ وہ ملکی مسائل میں اضافہ کا سبب بنیں گی۔ پاکستان کو اس وقت جس معاشی دباؤ کا سامنا ہے، اس سے نکلنے کے لیے سیاسی ہم آہنگی اور اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ ایک پارٹی کو ٹارگٹ کرنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔

وزیر اعظم اس سے پہلے تمام پارٹیوں کو مل بیٹھنے کی دعوت دے چکے ہیں۔ زمان پارک میں ہونے والے تصادم کے بعد بھی شہباز شریف نے اس پیشکش کو دہرایا تھا۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وزیر اعظم وقت اور جگہ کا تعین کریں، ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں۔ اب بعض صحافی، انسانی حقوق کمیشن اور وکلا تنظیمیں انتخابات پر اتفاق رائے کے لئے کل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے پر زور دے رہی ہیں۔ فواد چوہدری نے بتایا ہے کہ ان گروہوں کے نمائندوں نے عمران خان سے ملاقات کی اور انتخابات پر اختلاف ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کے بقول تحریک انصاف اس تجویز سے متفق ہے۔

بہتر ہو گا کہ حکومت تحریک انصاف کو ’کچلنے‘ کے انتظامی منصوبے بنانے کی بجائے بات چیت کا راستہ اختیار کرے اور ملک کو ایک بڑے سیاسی و سماجی بحران سے نکالا جائے۔بشکریہ ہم سب نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …