جمعرات , 8 جون 2023

"بیجنگ” میں "ایران – سعودی معاہدے” کا افق

(بقلم: ڈاکٹر سعد اللہ زارعی)

(ترجمہ: فرحت حسین مہدوی)

"بیجنگ میں” ریاض-تہران سمجھوتے نے مغرب اور بالخصوص امریکہ نیز عارضی صہیونی ریاست "اسرائیل” کو "تشویش” میں ڈال دیا ہے۔ واشنگٹن نے کہا کہ گویا وہ مذاکرات سے آگاہ تھا اور وہ مبینہ طور پر، خطے میں تناؤ کے خاتمے کا خیرمقدم کرتا ہے؛ تل ابیب کے حکام نے چھپ سادھ لی لیکن اپوزیشن کے سرغنوں بینٹ اور لاپید نے نیتن یاہو پر لعنت ملامت کرتے ہوئے اسے "عرب-اسرائیل بحالی کے دھارے کی بربادی کا اعلان” قرار دیا۔

دنیا کے زیادہ تر ذرائع نے ایران، سعودی عرب اور چین کے اعلیٰ سیکورٹی حکام کے سہ فریقی مذاکرات اور ان کے نتیجے میں منعقدہ سمجھوتے کو ایران کی اہم اہم کامیابی قرار دیا ہے اور اس کی شرح و تفصیل کا اہتمام کیا ہے۔ اس تاریخی واقعے کے کچھ قابل ذکر نکات حسب ذیل ہیں:

1۔ سعودی عرب نے، تقریبا سات سال قبل – اور یمن کے مظلوم عوام کے خلاف کئی جانبہ عربی-مغربی جنگ کے آغاز کے ایک سال بعد، اس واحد ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر لئے جو مظلوم یمنی عوام کے دوش بدوش کھڑا رہنے کے عزم کا اعلان کر چکا تھا؛ گوکہ اس نے – تہران میں اپنے سفارتخانے پر بالکل مشکوک حملے – کو تعلقات منقطع کرنے کا بہانہ قرار دیا؛ جو یقینی طور پر غیر واقعی بہانہ تھا کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران نے سب سے پہلے، اس واقعے کی مذمت کی اور ملوث افراد کو گرفتار کرکے سزائیں سنائیں گئیں۔ اور پھر دنیا بھر میں اس طرح کے متعدد واقعات رونما ہوتے ہیں جو سفارتی تعلقات کے انقطاع کا سبب نہیں بنتے۔ چنانچہ بالکل عیاں تھا کہ سعودی عرب نے ایک ظالمانہ جنگ میں یمن کے مظلوم عوام کے تئیں اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت پر احتجاج کرتے ہوئے تعلقات منقطع کر لئے تھے۔

2۔ یمن کے خلاف آٹھ سالہ جارحانہ جنگ کا کوئی بھی مرحلہ سعودیوں کے مفاد کے مطابق آگے نہ بڑھ سکا۔ سعودیوں کی توقع کے برعکس، جنگ کا دامن وسیع ہوتا گیا اور یمن سے سعودی اور اماراتی عملداری تک پھیل گيا؛ اور انصار اللہ یمن نے سعودی اور اماراتی بندرگاہوں، تیل کی تنصیبات اور تیل بردار جہازوں بے پناہ نقصان پہنچایا اور ایک مرحلے میں تو سعودی تیل کی برآمدات تک کو بری طرح متاثر کیا۔ اس جنگ کے اخراجات اس حد تک تھے کہ اس جنگ کے اخراجات نے سعودی زرمبادلہ کے ذخائر کو شدید تنزلی سے دوچار کیا اور تین چوتھائی ذخائر کو برباد کر دیا۔ امارات کو بھی – جس سعودیہ کی طرح یمن کو تر نوالہ سمجھ رکھا تھا – بڑے پیمانے پر نقصانات اٹھانا پڑے۔ دوسری طرف سے جنگ کے دوران یمنیوں نے اپنے فوجی نظام اور عسکری طاقت کی تعمیر نو کا کامیابی سے اہتمام کیا اور حیرت انگیز سطح پر پہنچ گئے۔ یمن کے اندر ہی 1000 کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر مار کرنے والے بلیسٹک میزائل اور قومی نجات حکومت کے ہتھیاروں کی کے حالیہ میلے نے یمن کے دشمن جنگ پرستوں کو دہشت میں مبتلا کر دیا؛ چنانچہ یمن کے سیکورٹی حکام، عمان کے دارالحکومت مسقط میں یمن کے راہنماؤں سے ملاقات پر مجبور ہوئے، اور انہیں جنگ بندی کی پیشکش دینا پڑی۔ یمنیوں نے جنگ بندی کے ایک سالہ عرصے میں اپنی صلاحیتوں میں کئی گنا اضافہ کیا اور ہزاروں جوانوں اور کیڈٹوں کو تربیتی مراکز تربیت دلائی۔ قومی نجات کے فوجی نفری اور ہتھیاروں کے پریڈوں نے ریاض کے حکمرانوں کو اس یقین تک پہنچایا کہ جنگ سعودی عرب کے مفاد کے برعکس، یہاں تک پہنچی ہے اور آٹھ سال قبل کا کمزور اور نہتا یمن، تر نوالہ نہیں رہا ہے۔

اسی دور میں سعودی عرب اور امارات سے وابستہ یمنی نیم فوجی گروپ بھی یکجہتی اور وحدت عمل کھو چکے اور شکست و ریخت سے دوچار ہوئے۔ جنوبی یمن میں امارات سے منسلک علیحدگی پسند ٹولے اور سعودی عرب کے اتحادی ٹولے ایک دوسرے کے خلاف صف بستہ ہوئے۔ عدن میں سعودی عرب سے وابستہ حکومت کا دھڑن تختہ ہؤا، بھگوڑا مستعفی صدر عبد ربہ منصور ہادی کو برخاست کیا گیا جو ممالک دھمکی یا رشوت پا کر یمن مخالف اتحاد میں شامل ہوئے تھے، ایک سال کا عرصہ گذرنے اور یمن میں کوئی تیزرفتار حصول یابی سے نا امید ہوکر، اس اتحاد سے الگ ہوئے تھے اور جنگ جتنی آگے بڑھتی رہی سعودی عرب تنہا سے تنہا تر ہو گیا۔ چنانچہ امریکہ کے مریض صدر جو بائیڈن نے ایران-سعودی سمجھوتے پر اپنے رد عمل میں جو جملہ کہا اس سے بخوبی عیاں ہوتا ہے کہ سعودی عرب یمن کی جنگ کے خاتمے کو قبول کر چکا ہے۔

3۔ یہ سمجھوتہ لندن، پیرس، روم، یا واشنگٹن میں نہیں بلکہ "بیجنگ” میں منعقد ہؤا؛ اور مغربی تجزیہ کار اس سمجھوتے کی رو سے ایران اور سعودی عرب کے رابطے کی تعمیر نو سے زیادہ سمجھوتے کے مقام کو اہمیت دے رہے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب گذشتہ عشروں سے ایک دوسرے کے خلاف میدان جنگ میں نہیں اترے ہیں، لیکن خطے کے ماحول میں کئی بار ان کی پوزیشن بالکل مختلف رہی ہے اور کبھی تو یہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بھی کھڑے نظر آئے ہیں۔ اور ہم یہاں ایران اور سعودی عرب کی پوزیشنوں میں تضاد کو عراق، یمن، شام، لبنان، فلسطین اور افغانستان میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہ جنگیں ایران کے خلاف نہیں تھیں بلکہ ایران کے حمایت یافتہ ممالک اور انقلابی تحریکوں کے خلاف تھیں اور وجہ بھی یہ تھی کہ سعودی عرب ان ممالک میں خودمختار حکومتوں کی تشکیل یا انقلابی تحریکوں کے قیام کو برداشت نہیں کر پا رہا تھا!

بیجنگ میں سعودی عرب کی طرف سے کسی ملک کے ساتھ سمجھوتے کا واقعہ مغرب کے لئے بہت دشوار ہے کیونکہ سعودی عرب امریکہ کے علاقائی کلب کا اہم رکن ہے چنانچہ مغربی قاعدے کے مطابق جنگ یمن جیسے بنیادی مسائل کو واشنگٹن میں زير بحث آنا چاہئے تھا، نہ کہ ایک ایسے ملک کے دارالحکومت میں، جس کو امریکی خفیہ ایجنسیوں کے مجموعے (National Intelligence Council [NIC]) نے امریکہ کا دشمن نمبر ایک قرار دیا ہے۔ چنانچہ بعض مغربی ذرائع نے – اپنے تجزیوں میں، جو البتہ مبالغہ آرائی سے خالی نہ تھے – میں "بیجنگ” میں "ایران-سعودی سمجھوتے” کو واشنگٹن سے سعودی عرب کی جدائی تک قرار دیا۔ واضح رہے کہ اس سمجھوتے کی بنیاد شی جن پنگ کے دورہ ریاض میں رکھی گئی تھی۔

چینی صدر دورہ ریاض میں ایران کے خلاف سعودی عرب اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن عرب ممالک کا لب و لہجہ نرم کرنے میں کامیاب ہوئے؛ یہاں تک کہ سعودی عرب اور چین کے مشترکہ اعلامیے میں بھی زبان اور لب و لہجہ بالکل بدل گیا تھا۔

ادھر، اگر مغربی ممالک کے لئے ممکن ہوتا تو وہ بیجنگ میں ایران اور سعودی عرب کا سمجھوتہ روک لیتے کیونکہ بعض مغربی ذرائع ابلاغ اور سیاسی حلقوں نے سمجھوتے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ "یہ واقعہ مغرب کے لئے انتہائی منفی اثرات کا حامل اور نئے [غیر مغربی] زمانے میں داخلے کی علامت ہے”۔

4۔ حالیہ بیجنگ سمجھوتے کا صحیح جائزہ لینے کے لئے ایک طرف سے سمجھوتے کی تصیلات تک رسائی کی ضرورت ہے اور دوسری طرف اس کے بارے میں بہت کچھ کہنا قبل از وقت ہے؛ وقت گذرے گا تو معلوم ہوگا کہ کیا سعودی عرب واقعی ایران کے ساتھ رابطے کو فعال کرنا چاہتا ہے یا نہیں بلکہ پرانے سیکورٹی رویے پر قائم رہتا ہے۔ بیجنگ سمجھوتے کی افادیت اور قدر و قیمت کا دار و مدار، فریقین کی طرف سے اس میں مندرجہ نکات کی پابندی پر ہے؛ مغرب اور صہیونی ریاست اس کے نفاذ میں روڑے اٹکانا اپنا حق سمجھتے ہیں، لیکن اسی اثناء میں یہ بھی بہت اہم ہے کہ یہ سمجھوتہ بین الاقوامی اور علاقائی سطح پر رونما ہونے والی بڑی تبدیلیوں کے تسلسل میں، سامنے آیا ہے اور دو ملکوں کے دارالحکومتوں میں اعلیٰ سطحی صلاح مشوروں کا ثمرہ ہے چنانچہ اس کے نفاذ کے حوالے سے پرامید رہنا بجا ہوگا۔

5۔ فلسطین، لبنان، یمن، عراق اور شام کی انقلابی اور مقاومتی تحریکوں نے بلا اسثنیٰ اس سمجھوتے کو سراہا ہے۔ کیونکہ بیجنگ میں ایران-سعودی سمجھوتے سے دو حقائق ابھر کر سامنے آئے:

الف۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سمجھوتے کی ضرورت؛

ب۔ خطے میں مقاومت و مزاحمت کے عمل پر سمجھوتے کے مثبت اثرات۔

البتہ حکومتوں کی سطح پر بھی سمجھوتے کا ہمہ جہت انداز سے خیر مقدم کیا گیا، چنانچہ دونوں ممالک کو – عوام اور حکومتوں کے لئے معرض وجود میں آنے والے – اس مثبت ماحول کو غننیمت سمجھنا چاہئے اور سمجھوتوں کو مستحکم کرنے کی طرف بڑھنا چاہئے۔ اس سے بھی بڑھ کر بیجنگ مذاکرات کے وسیع خیر مقدم سے نمایاں ہؤا کہ خطے کی اقوام ذمہ دارانہ ماحول میں استحکام اور مفاہمت کی خواہاں ہیں۔ خطے کی اقوام کی خواہش ہے کہ "خطے کے ممالک کے مابین مفاہمت” کے ذریعے فلسطین سے لبنان تک اور شام سے یمن تک کے عوام کو درپیش مصائب و آلام کا مداوا کیا جائے، مسائل کو حل کیا جائے اور ان بیرونی طاقتوں کی مداخلت کا سد باب کریں جو "خطے کے ممالک کے باہم اختلافات اور تناز‏عات کو اپنی خارجہ پالیسی کے لئے سرمائے” کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ ایران-سعودی سمھجوتے میں چین کا کردار "مددکار” اور "سہولت کار” سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھا اور جو کچھ سمجھوتے کی صورت میں حاصل ہؤا، وہ ایران اور سعودی عرب کے دوطرفہ مذاکرات کا نتیجہ تھا؛ جبکہ جو مذاکرات امریکہ یا برطانیہ کی ثالثی میں انجام کو پہنچتے ہیں، ان کا ایجنڈا اور دستورالعمل ان ہی کی طرف سے متعین کیا جاتا ہے اور اس میں فریق ممالک کا اپنا کوئی کردار نہیں ہوتا۔

البتہ ایک اہم نکتہ یہ بھی تھا کہ سمجھوتے کا متن عربی، فارسی اور چینی زبانوں میں لکھا گیا اور انگریزی کو یکسر نظرانداز کیا گیا جو ایک نیا واقعہ تھا۔

6۔ چین اس میدان میں ایک ماحول ساز اور منظم کرنے والی قوت کے طور پر نمودار ہؤا۔ یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے لئے چین کے پیش کردہ 12 نکاتی منصوبے کے منظر عام پر آنے کے کچھ ہی دن بعد، ایران اور سعودی عرب نے بیجنگ میں مذاکرات کا اہتمام کیا، اور یہ مسئلہ مغرب کے لئے خاص معانی کا حامل تھا۔ چینی حکومت کا ماڈل مرکوز (Centralized) ہے، اس کے باوجود اس نے بین الاقوامی سطح پر "سمجھوتوں” کے سہولت کار کا کردار سنبھال لیا ہے، جو امریکی اور یورپی طریقہ کار کے برعکس ہے جہاں ملکوں کے اندر تو حکومت وفاقی ہوتی ہے لیکن بیرون ملک "جبر اور زبردستی” کے عنصر سے کام لیتے ہیں؛ یہ مشرقی اور مغربی نظامات کے درمیان فرق اور مسائل کے حل کے مشرقی اور مغربی راستوں کے درمیان اختلاف ہے۔

ایشیا کے طاقتور ممالک کے درمیان نقطۂ اشتراک اندرون ملک سیاسی عمل کے جاری رہے اور بین الاقوامی سطح پر دوسرے ممالک کے مسائل کے حل میں مدد بہم پہنچانے سے عبارت ہے؛ جیسا کہ عراق، شام، لبنان اور فلسطین میں جمہوری حکومتوں کے قیام میں ایران کی کارکردگی نے بین الاقوامی سطح کے تعاملات و معاملات میں ایک نیا عملی نمونہ پیش کیا۔ مشرقی ممالک اس روش سے، بین الاقوامی روابط پر حکم فرما منطق میں تبدیلی لا سکتے ہیں اور سیاسی عمل کو مختلف فریقوں کی رضامندی کی طرف لے جا سکتے ہیں اور یہ وہی جیت – جیت (Win-win policy) ہے جس سے مغرب ہمیشہ گریزاں رہتا ہے۔بشکریہ ابنا نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

 

یہ بھی دیکھیں

عمران کی ’سیاسی تنہائی‘

(مظہر عباس) سابق وزیراعظم عمران خان 2002ءمیں الیکشن میں اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی …