(تحریر: تصور حسین شہزاد)
چین کے صدر شی جن پنگ ماسکو کا تین روزہ دورہ آج مکمل کر رہے ہیں۔ پوری دنیا کی نظریں اس دورے پر لگی ہوئی تھیں اور امریکہ سمیت اہم ممالک اس دورے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کی جامع شراکت داری اور اسٹریٹجک تعلقات کو نئے دور میں داخل کرنے کیلئے اہم اعلامیے پر دستخط کئے گئے ہیں۔ چینی وزارت خارجہ نے شی جن پنگ کے دورے کو امن کا دورہ قرار دیا ہے، جس کا مقصد حقیقی کثیرالجہتی پالیسی پر عمل کرنا، عالمی طرز حکمرانی بہتر بنانا اور دنیا کی ترقی اور پیشرفت میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ ترجمان چینی وزارت خارجہ نے صحافیوں کو بتایا کہ دونوں رہنماوں نے دو طرفہ تعلقات، اہم عالمی اور علاقائی مسائل پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا انتشار کے نئے دور میں داخل ہوچکی ہے، چین یوکرین بحران پر اپنے بامقصد اور منصفانہ مؤقف کو برقرار رکھے گا اور امن مذاکرات کو فروغ دینے میں تعمیری کردار ادا کرے گا۔
دوسری جانب روسی خبر رساں ایجنسیوں کی جانب سے رپورٹ کیے گئے بیانات کے مطابق روسی مشیر نے کہا کہ کریملن روس یوکرین تنازع پر بیجنگ کے سوچے سمجھے متحمل مؤقف کی بہت قدر کرتا ہے۔ شی جن پنگ نے رواں ماہ بطور صدر تیسری پانچ سالہ مدت کا آغاز کیا ہے، چین جو اہم روسی اتحادی ہے، اس نے خود کو غیر جانبدار فریق کے طور پر رکھنے کی کوشش کی ہے اور روس و یوکرین پر زور دیا ہے کہ وہ تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔ گذشتہ ماہ تنازع پر 12 نکاتی پوزیشن پیپر میں چین نے تمام ممالک کی علاقائی خود مختاری کیلئے بات چیت اور احترام کا مطالبہ کیا۔ ادھر چینی صدر کے روس پہنچنے پر یوکرائن نے بھی شی جن پنگ سے جنگ بند کروانے کا مطالبہ کر دیا۔ دراصل ایک سال سے زائد عرصہ سے یہ جنگ جاری ہے۔ یوکرائن اس جنگ سے تھک چکا ہے، یوکرینی عوام اب تنگ آچکے ہیں۔ روز روز کا خوف انہیں ذہنی مریض بنا رہا ہے۔ اب عوامی ردعمل دیکھتے ہوئے یوکرئینی صدر نے بھی اپنا موقف تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دراصل یوکرین، امریکہ کی جنگ لڑ رہا ہے۔ امریکہ کی جانب سے ہی اسے اسلحہ اور فوجی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوکرین ’’کرائے کے فوجی‘‘ کا رول ادا کر رہا ہے اور امریکہ سے اس ’’مزدوری‘‘ کا پورا پورا معاوضہ بھی وصول کر رہا ہے، مگر اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ جنگ اتنی طویل ہو جائے گی۔ اس میں جہاں روس نے شاندار جنگی حکمت عملی کیساتھ یوکرائن کا مقابلہ کیا ہے، وہیں یوکرین کا کافی سارا علاقہ بھی قبضے میں لے لیا ہے۔ اب چین نے بھی اس جنگ کو ختم کروانے اور ایران سعودی عرب کی طرح روس یوکرین کو قریب لانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔ ادھر یوکرین نے بھی چین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ روس پر دباو ڈال کر جنگ رکوائے۔ ترجمان یوکرینی وزارتِ خارجہ اولیگ نیکولینکو کا کہنا ہے کہ یوکرین چینی صدر شی جن پنگ کے دورہ روس کا بغور مشاہدہ کر رہا ہے۔ توقع ہے کہ چین یوکرین جنگ ختم کرانے کیلئے روس پر دباؤ ڈالے گا۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین امن کے قیام کیلئے چین کیساتھ اقوام متحدہ کے چارٹر اور جنرل اسمبلی کی تازہ ترین قرارداد کے مطابق بات چیت کو تیار ہے۔ چین روس صدور کی ملاقات میں عمران خان کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں چین، روس، سعودی عرب اور ایران کا بلاک بن رہا ہے، ترکیہ بھی اس بلاک کیساتھ دکھائی دے رہا ہے۔ ایران سعودیہ صلح کے بعد مشرق وسطیٰ میں روس کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے۔ امریکہ 2030ء تک مڈل ایسٹ میں اپنی حکمرانی کا منصوبہ بنائے ہوئے تھا اور مشرق وسطیٰ میں ایک کرنسی نافذ کرنے کا سوچ رہا تھا، لیکن اس نئے بلاک کے قیام سے امریکی عزائم اور خطے میں اسرائیل کی بالادستی کا خواب چکنا چُور ہوگیا ہے۔ ایرانی صدر سعودی عرب جا رہے ہیں اور پاکستان اپنی غلط خارجہ پالیسی کی بدولت روس سے دُور ہوگیا ہے۔ جس سے اب پاکستان کے سعودی عرب کیساتھ بھی تعلقات بگڑ رہے ہیں۔ سعودی عرب نے پاکستان کی کوئی بھی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب نے ترکیہ کیلئے 500 ارب ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔
مبصرین کے مطابق جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ نے امریکہ کی ہر بات مان کر پاکستان کو دنیا میں تنہاء کر دیا ہے۔ پاکستان کے اہم اداروں کو سوچنا ہوگا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمارے سیاستدانوں اور جرنیلوں نے تبدیل نہیں ہونے دی اور ہمیشہ انہوں نے پاکستان کو مغرب کی گود میں بٹھائے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم حقیقی آزادی کی طرف نہیں جاسکے اور ہمارا ملک امداد اور بھیک پر پلنے لگا اور اسی کا عادی ہوگیا، یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کو کہنا پڑا کہ ’’بیگر کین ناٹ بی چوزر۔‘‘ پاکستان کو بھی بیرونی مداخلت سے ہی سیاسی و معاشی بحرانوں میں اُلجھایا ہوا ہے۔ عمران خان کیخلاف کیسز تو ہیں لیکن چالان نہیں، ثبوت نہیں، یہ سب مریم نواز کی ہدایت پر کیس تو بنا دیتے ہیں، لیکن کیس کی فائل کا پیٹ نہیں بھر سکتے۔ بین الاقوامی سطح پر بھی پیغام آچکا ہے کہ عمران خان کو قتل کرنا یا راستے سے ہٹانا بہت زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ اس لئے پی ڈی ایم کو ڈانٹ دیا گیا ہے کہ وہ اپنی اوقات میں رہے۔
ادھر امریکہ نے بھی روس یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے ’’امن تجویز‘‘ کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ چین دنیا کو بے وقوف نہیں بنا سکتا۔ امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا کہ روسی افواج کے انخلاء کے بغیر جنگ بندی کا مطالبہ روس کی حمایت اور اسے مضبوط کرے گا۔ بلنکن نے کہا کہ یہ دورہ ظاہر کرتا ہے کہ چین روس کو یوکرین میں کیے جانیوالے جنگی جرائم کیلئے جوابدہ ٹھہرانے کے بجائے اسے سفارتی تحفظ فراہم کر رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ اگر چین واقعی جنگ روکنے کیلئے پُرعزم ہے تو اسے یوکرین سے دستبرداری کیلئے روس پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ چین صدر شی کے دورے کے دوران اپنے اقدام کے حصے کے طور پر جنگ بندی کے مطالبے کا اعادہ کرے گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ امریکہ امن کی حمایت کرنیوالی کسی بھی تجویز کا خیرمقدم کرتا ہے۔
بلنکن کا کہنا تھا کہ ’’چینی اقدام میں وہ نکات شامل ہیں، جن کی ہم نے حمایت کی، جیسے کہ جوہری سلامتی اور انسانی بحران کا حل، لیکن کسی بھی تجویز کا بنیادی نکتہ یوکرین کے اتحاد اور خود مختاری کی ضمانت ہونا چاہیئے۔‘‘ اب یوکرین اس جنگ میں تھک چکا ہے، روس اس کے بہت سے علاقوں پر قابض بھی ہوچکا ہے، تو یہ جنگ بندی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے، یہ بہت جلد واضح ہو جائے گا اور توقع ہے کہ تہران، ریاض کی طرح بیجنگ، اب ماسکو اور کیف کو بھی قریب لے آئے گا۔ اگر چین اس ’’مشن‘‘ میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے امریکہ کی خطے میں رہنے کی آخری اُمید بھی دم توڑ دے گی اور ایران امریکہ کو کہہ سکے گا کہ ہم نے ’’انتقامِ سخت‘‘ کا جو اعلان کیا تھا، وہ ہم نے عملی طور پر کر دکھایا ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔