جمعہ , 19 اپریل 2024

23 مارچ، یوم قرارداد پاکستان اور حالات کا تقاضا

(تحریر: ارشاد حسین ناصر)

پاکستان کے تاریخی شہر لاہور کو جہاں بہت سے اعزاز حاصل ہیں، وہاں اس تاریخی شہر کا تعارف یہاں شروع سے ہی سیاسی و سماجی، ثقافتی، ادبی، مذہبی و دینی سرگرمیوں کا مرکز و محور ہونا بھی ہے۔ ہم تاریخ کے اوراق دیکھیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اس خطے میں جب بھی کسی سیاسی سرگرمی و تحریک نے جنم لیا تو لاہور اس کی قیادت کرنے والوں میں نظر آیا۔ یوں اکثر سیاسی تحریکوں کا مرکز لاہور نظر آیا، اگر ہم دیکھیں تو قیامِ پاکستان کی تحریک کا نکتہ آغاز بھی لاہور ہی تھا۔ قیام پاکستان کی تحریک کا پہلا مطالبہ لاہور میں ہونے والی معروف قرارداد لاہور میں ہوا۔ 23 مارچ 1940ء کو نماز جمعہ کے بعد معروف تاریخی منٹو پارک لاہور میں ایک لاکھ سے زائد مسلمان ِہند کا اجتماع ہوا۔ یہ مسلمانان ہند کی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ تاریخی جلسہ تھا۔ سر شاہنواز خان نے خطبہ استقبالیہ پڑھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح اس جلسے کی صدارت فرما رہے تھے۔ انہوں نے ایک تاریخی اور یادگار خطاب فرمایا۔ یہ ایک عالیشان اور موثر تقریر تھی۔ اس تقریر میں قائد اعظم نے حضرت علامہ اقبال کے بتائے ہوئے دو قومی نظریئے کی وضاحت کی اور مسلمانان ِہند کو بتایا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے لئے ایک علیحدہ مملکت کا مطالبہ کریں۔ مسلمان ہندوستان میں ایک فرقے کی نہیں بلکہ ایک قوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ایک قوم کی طرح آباد ہیں، جن کی اپنی تہذیب و تمدن، ثقافت، مذہب، سیاسی، سماجی، اقتصادی نظام ہے۔ لہذا ہم کسی کے زیرِ کفالت نہیں رہ سکتے۔

23 مارچ کا دن تاریخ ِپاکستان میں سب سے عظیم اور سنہرا دن تھا، جب مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے تمام مسلمان اپنے قائد کی جرات مند اور بے لوث قیادت میں ایک ایسے وطن کے مطالبے کے لئے جمع تھے، جس میں وہ اپنے مذہب کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ مندوبین نے لاہور کے شیر دل مسلمانوں کے سامنے وہ تاریخی قرراداد پیش کی، جو کہ بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی، حالانکہ یہ ‘قرارداد لاہور” تھی۔ جس میں کہیں بھی پاکستان کا لفظ نہیں آیا، مگر چونکہ یہ قرارداد ہی اصل میں پاکستان کے قیام کا پیش خیمہ بنی، اس لئے اسے قراردادِ پاکستان کے نام سے ہی یاد کیا جاتا ہے۔ اسی قرارداد کی یادگار کے طور پر مینار پاکستان تعمیر کیا گیا ہے۔ پاکستان کے قیام کی تاریخ میں دو دن بے حد اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں، ایک قیام پاکستان کا دن یعنی 14 اگست اور دوسرا 23 مارچ کا دن۔ 14 اگست 1947ء کے دن پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا اور 23 مارچ 1940ء کے دن لاہور میں پاکستان کے قیام یعنی قابض بوڑھے استعمار کی سرکار کے زیر قبضہ برصغیر میں مسلمانان ہند کیلئے جدا وطن کے قیام کا مطالبہ اور قرارداد کی منظوری۔

23 مارچ 1940ء کے دن لاہور میں ایک بڑے جلسہ عام میں منظور کی گئی اس تاریخی قرارداد سے پہلے بھی اگرچہ ہندوستان کی تقسیم اور جدا وطن کی باتیں منظر عام پر آچکی تھیں، مگر یہ قرارداد اب ہماری پڑھائی جانے والی تاریخ میں اہمیت کی حامل قرار پائی ہے۔ اس لئے اسے ہی منایا جاتا ہے اور اسے ہی قیام پاکستان کی جدوجہد کا نکتہ عروج سمجھا جاتا ہے، قیام پاکستان کی تلخ تاریخ اور اتار چڑھائو، سختیوں، سازشوں، قربانیوں اور مشکلات کے باوجود معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان کے وجود کے مخالفین کے رویئے اور بعد میں اس مملکت کے مالک اور مامے بن جانے والوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم آج ایک بات سوچنے پر مجبور ہیں کہ آیا جس مقصد و ہدف کیلئے یہ مملکت خداداد حاصل کرنے کا خواب دیکھا گیا تھا، اس کی تعبیر کیسی جا رہی ہے۔ اگر مجموعی طور پر یعنی موجودہ ہندوستان اور پاکستان کے عوام کو جمع کر لیں تو ایک ارب سے زیادہ لوگوں کی گزرنے والی سخت زندگیاں اور مشکلات سے بھرپور تلخ حیات بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

آج بہت سے ناقدین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر اسی کو آزادی کہتے ہیں تو پھر اس سے وہ غلامی اچھی تھی، جس میں بھوک، ننگ، افلاس، غربت اور استحصال اس قدر نہیں تھا کہ جیسے آج انسانیت سسکتی ہے، روز مرتی ہے، جینا دشوار بلکہ مرنا اس سے بھی مشکل ہوچکا ہے۔ آج بھی پاکستان کے کئی شہروں میں مفت آٹا کا ایک دس کلو کا تھیلا لینے کیلئے لوگ لاٹھی چارج کا شکار ہیں اور کئی ضعیف اس تگ و دو میں جان سے بھی جا چکے ہیں۔ کیا یہ تھا وہ خواب جس کیلئے تاریخی قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور لاکھوں قربانیاں دی گئیں۔؟ ہرگز ہرگز نہیں۔۔! آج ہمارے ملک کا جو سیاسی منظر نامہ، انسانی و بنیادی حقوق کی صورتحال اور عوام کی رائے کا عملی احترام دکھ رہا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ یہاں منتخب وزیراعظم کو غیر ملکی و محلاتی سازشوں سے بہ یک جنبش قلم فارغ کر دیا جاتا ہے۔ بیرونی آقائوں کے اشارہ ابرو پر ملکی سلامتی کے فیصلے ہو جاتے ہیں۔ ملک کے حساس ادارے اور اثاثے تک گروی رکھے جا سکتے ہیں۔

یہ ملک اس وقت اپنے پائوں پر نہیں کھڑا بلکہ کرائے کی بیساکھیوں کا سہارا لئے لڑ کھڑا رہا ہے۔ یہ بیساکھیاں سعودی بھی ہیں، اماراتی بھی، امریکی بھی اور آئی ایم ایف کی بھی، ورلڈ بنک کی بھی اور بوڑھے استعمار کی بھی۔ ہمیں یہ سبق پڑھایا جاتا تھا کہ ایک مملکت کا حصول جو دیگر مسلمانوں کے لئے ایک مثال بنے گی، اب اپنی نظریاتی و فکری پہچان کی تلاش میں سرگرداں نظر آتی ہے۔ حکمران کبھی ترکی کو ماڈل قرار دیتے ہیں، کبھی ملائشیا کو، کبھی اسلام کے غلبے اور نفاذ کا نعرہ لگتا ہے۔ کبھی سیکولر و سوشلسٹ نظریات کی طرف جھکائو ہوتا ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ چین آئیڈیل ہے۔ کبھی اتا ترک اور کبھی اردگان کو پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ پاکستان کے قیام کے مقاصد کو قائد اعظم محمد علی جناح نے بڑی صراحت کیساتھ بیان کر دیا تھا اور وہ کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے، اس حوالے سے ان کے کئی خطاب موجود ہیں، مگر ہم نے تاریخ اسلام کی طرح اپنی موجودہ تاریخ کو بھی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ اپنی مرضی، اپنی خواہشوں کو شامل کرکے نصابوں کا حصہ بنا لیا گیا ہے، جس سے نسلوں میں بگاڑ پیدا ہوا ہے۔۔۔!

آج ملک کے جو حالات اور مختلف طبقات میں تقسیم و خلیج دکھائی دیتی ہے، اسے دیکھ کر ہر کوئی کہتا ہے کہ آیا یہی وہ خواب تھا، جس کیلئے قربانیاں دی گئی تھیں۔ اسی کیلئے مینار پاکستان کے مقام، منٹو پارک میں جمع ہو کر انگریز سرکار سے آزادی اور ہندو سماج سے مختلف ثقافتی و سماجی معیارات کو بنیاد بنا کر جدوجہد کی گئی تھی، کیا یہی وہ پاکستان تھا، جس کیلئے اپنی عزتیں گنوائی، گھر بار لٹوائے، زمینیں، جائیدادیں، مال، اولاد نجانے کیا کچھ لٹایا گیا، کیا یہ سب آج کے پاکستان کیلئے قربان کیا گیا تھا؟ کیا قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال نے اسی پاکستان کا خواب دیکھا تھا اور اسی کیلئے اتنی بڑی تحریک چلائی گئی تھی۔؟ میرا خیال ہے کہ کوئی بھی اس سے اتفاق نہیں کرے گا۔ ہم نے یہ وطن ہرگز اس لئے حاصل نہیں کیا تھا کہ بھیڑیوں کے سپرد کر دیا جائے، فوجی طالع آزمائوں نے اسے کس طرح بوٹوں تلے روندا، اس کی تاریخ کس قدر تلخ ہے۔؟ کوئی سوچ سکتا تھا کہ جس ملک کو جمہوریت کے ذریعے حاصل کیا گیا تھا، اس پر قیام کے تھوڑے ہی عرصہ بعد فوجی طالع آزما مشق ستم بناتے نظر آئیں گے۔

پچھتر برس میں سیاسی گروگھنٹالوں نے اسے کہاں سے کہاں پہنچا دیا، کوئی سوچ سکتا تھا کہ جس ملک کو اتنی بے پناہ قربانیاں دیکر حاصل کیا جا رہا ہے، وہ کچھ ہی عرصہ بعد دولخت ہو جائے گا، کوئی سوچ سکتا تھا کہ جس ملک کے قیام کا متفقہ مطالبہ کیا جا رہا ہے، اس میں ہم اس قدر تقسیم کا شکار ہو جائیں گے کہ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں اور مساجد و مدارس کو نشانہ بنانے سے نہیں چوکیں گے۔ کوئی سوچ سکتا تھا کہ جس ملک کیلئے اتنی بڑی ہجرتیں کی جا رہی ہیں، اس میں بار بار ہجرتیں کرنا پڑیں گی۔ گھروں کو چھوڑنا پڑے گا، اپنی جائیدادیں نیلام کروانا پڑیں گی، اپنی اولادوں کو ذبح ہوتا دیکھنا پڑے گا، کوئی سوچ سکتا تھا کہ جس ملک کے قیام کیلئے قراردادیں پاس کی جا رہی ہیں، اس میں اس کے قیام کے مخالفین اس قدر طاقتور ہو جائیں گے کہ قیام پاکستان کیلئے قربانیاں پیش کرنے والوں کو اس ملک سے نکال باہر کرنے کی سازشیں اور مطالبے دہرائیں گے۔ کیا یہی وہ عدل و انصاف تھا، جو آج ہمارے اعلیٰ و عظمیٰ عدالتوں میں رائج ہے، ہرگز نہیں۔۔ اس کا تصور بھی نہیں تھا۔

بلاشک و شبہ پاکستان کے قیام کا مطالبہ اپنا بنیادی حق سمجھ کر کیا گیا تھا، یہ اس دور کی ضرورت بھی تھی اور جائز بھی تھا۔ مسلمانوں کو الگ شناخت بھی درکار تھی، الگ خطہ بھی لازمی تھا، یہ حق لینے کیلئے بے مثال جدوجہد کی گئی۔ اگر اسی مملکت میں آج لوگوں کے حقوق پائمال ہو رہے ہوں، انہیں تعصب، تنگ نظری اور تشدد کا شکار بنایا جا رہا ہو تو اس اصول کے تحت انہیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے تحفظ کا مطالبہ کریں۔ اپنے بنیادی حقوق کا مطالبہ کریں، اپنی شناخت کا مطالبہ کریں۔ پاکستان میں شامل تمام اکائیوں چاہیئے کہ ان کا تعلق بلوچستان سے ہو یا وزیرستان سے، کرم سے ہو یا مہمند سے، گلگت بلتستان سے ہو یا مہران سے، ہر ایک کو ان کا حق ملنا چاہیئے۔ سب نے اس مملکت خداداد کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں اور بہت عرصہ ہو چلا بھائیوں کو آپس میں لڑا کر حکمرانی کا میوزیکل کھیل کھیلنا اب بند کیا جائے۔ طبقاتی تقسیم، علاقائی تعصبات، فرقہ وارانہ تعصبات و مخاصمت ، لسانی جھگڑے یہ سب دراصل پاکستان میں اول روز سے اقتدار میں اصل طاقت کے مراکز کے کھیل ہیں، جنہیں اب سمجھ لیا گیا ہے۔

اب لوگوں کو کافی حد تک سمجھ آچکی ہے کہ یہ سب کسی اور کا کھیل ہے، یہ کسی کو اپنے وجود اور طاقت پکڑنے کے جواز کیلئے ہوتا آیا ہے، گذشتہ دس ماہ میں موجودہ حکمرانوں نے ملک کا جو ستیاناس کیا ہے اور غیر ملکی آقائوں کو راضی کرنے کیلئے جس طرح کے اقدامات اٹھائے ہیں، اس کے بعد سوشل میڈیا پر طاقت کے اصل مراکز سمجھے جانے والوں کو کھلی تنقید کا سامنا کرنا پر رہا ہے۔ اس شدید تنقید میں اگرچہ ملکی دفاع کیلئے سرحدوں پر کھڑے سپاہیوں کے حوصلے پست ہوتے ہیں، مگر یہ دور سوشل میڈیا کا ہے، اس سے بچنا بھی ممکن نہیں۔ لہذا اپنے کردار و عمل کو حالات کے مطابق کرنا ہوگا، اپنی پالیسیز کو تبدیل کرنا ہوگا، ورنہ ملکی حالات، سیاسی و سماجی صورتحال، مہنگائی کے بے قابو جن اور غربت سے تنگ آمد بہ جنگ آمد عوام کا سیلاب سب خشک و تر بہا کر لے جا سکتا ہے۔ پھر ایسا ہوگا کہ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔ ہمارے قریب ہی سری لنکا میں جو حشر ہوا ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے، موجودہ سوشل میڈیا دور اور اس میں جوان ہوئی نسل کو پہچاننا ہوگا، جو دنیا کے حالات سے باخبر ہے اور ملک کی تاریخ کو سنوارنا چاہتی ہے۔ اسے سنوارنے دیں، اسے باغی نہیں بنائیں۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …