جمعرات , 25 اپریل 2024

امریکہ سے عاری جدید مشرق وسطی کا آغاز

(تحریر: زینب غلامی)

2003ء میں عراق پر امریکہ کی فوجی چڑھائی کے بعد اسرائیلی جاسوسی ادارے موساد کے سابق سربراہ افرائیم ہالوے نے کہا کہ امریکہ اب اپنی جغرافیائی حدود سے باہر کوئی طاقت نہیں رکھتا اور عراق پر فوجی قبضہ کرنے اور وہاں اپنے ایک لاکھ چالیس ہزار سپاہی بھیجنے کے بعد اب وہ مشرق وسطی پر مسلط بیرونی طاقت سے ایک "مشرقی وسطی کی طاقت” میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہالوے اس وقت اسرائیلی حکام کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسرائیل کو اپنی پالیسیاں اور اقدامات امریکی ایجنڈے کے مطابق سیٹ کرنے چاہئیں جس نے خطے پر حملہ ور ہو کر فوجی طاقت کے بل بوتے پر اسے دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افرائیم ہالوے کے اس بیان کے بعد اگلے بیس سال تک رونما ہونے والا حالات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ خطے پر امریکی اثرورسوخ تیزی سے زوال پذیر ہو رہا ہے۔

ان حالات میں تازہ ترین رونما ہونے والا واقعہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان طے پانے والے حالیہ معاہدہ ہے۔ خطے میں زوال پذیر ہونے والا یہ اثرورسوخ دراصل عالمی سطح پر امریکی اثرورسوخ میں زوال سے مربوط ہے جس کی واضح علامت امریکہ کی جانب سے اپنے اسٹریٹجک اتحادیوں کے فیصلوں اور انتخاب کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت میں کمی واقع ہو جانا ہے۔ ماضی میں عالمی سطح پر امریکی اثرورسوخ کی بڑی وجہ اس کی برتر فوجی طاقت کے علاوہ مختلف اتحادوں کا وہ وسیع نیٹ ورک تھا جو دنیا بھر میں پھیلا ہوا تھا اور دنیا کے مختلف ممالک نے امریکہ سے وفاداری کے بدلے اس کی حمایت اور مدد حاصل کر رکھی تھی۔ ایسے ممالک میں نہ صرف خلیج کی عرب ریاستیں شامل تھیں بلکہ مزید کئی یورپی، افریقی، ایشیائی اور لاطینی امریکہ کے ممالک بھی شامل تھے۔

حال ہی میں رونما ہونے والی یوکرین جنگ نے ایک نئی حقیقت واضح کر دی ہے۔ یہ نئی حقیقت خاص طور پر جنوبی ممالک سے متعلق ہے جس کے مطابق اب وہ ماضی کی طرح امریکہ سے وفاداری کا اعلان کر کے اپنی سلامتی اور خودمختاری یقینی نہیں بنا سکتے۔ ان میں سے اکثر ممالک نے روس کے خلاف پابندیاں عائد کرنے میں امریکہ کا ساتھ دینے سے گریز کیا ہے جبکہ ان میں سے بعض ممالک جیسے خلیجی عرب ریاستوں نے اپنی پالیسیوں کو روس سے انرجی حاصل کرنے کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔ ان ممالک نے اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی حامی کے مقابلے میں ان کی خودمختاری روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسے ممالک نے تمام شعبوں میں چین سے تعلقات کو فروغ دینے پر زور دیتے ہوئے اسے علاقائی تنازعات حل کرنے کیلئے اہم کردار ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے امریکہ کی مدنظر اسٹریٹیجک ترجیحات سے متضاد پالیسیاں اپنا رکھی ہیں۔ امریکہ کی اسٹریٹجک ترجیحات چین کو کنٹرول کر کے اسے ان اہم خطوں میں اثرورسوخ بڑھانے سے روکنا شامل ہے جو ماضی میں امریکہ کے اثرورسوخ میں رہتے آئے ہیں۔ واشنگٹن محض چین کے قریب فوج تعینات کر کے اور بعض ممالک کے ساتھ اتحاد تشکیل دے کر اور حتی اسلحہ کی دوڑ کے ذریعے چین کو مرحلہ وار ختم کرنے کی کوشش کر کے چین کی بڑھتی ہوئی طاقت نہیں روک سکتا۔ سابق سوویت یونین کے خلاف آزمائے جانے والے ہتھکنڈوں کے ذریعے امریکہ چین کو اقتصادی، تجارتی، ٹیکنالوجی، علمی اور فوجی شعبوں میں شکست نہیں دے سکتا۔ امریکہ کو چین کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات محدود کرنے کی ضرورت ہے۔

عالمی سطح پر چین کے تجارتی شریک امریکہ سے کہیں زیادہ ہیں جبکہ چین جنوبی ممالک سمیت دنیا کے کئی ممالک سے سائنس، ٹیکنالونی اور کمیونیکیشن جیسے حساس شعبے میں قریبی تعاون کرنے میں مصروف ہے۔ امریکی حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے اتحادی خلیجی ممالک سمیت ان ممالک کو چین سے باہمی تعاون ختم کر دینے پر راضی کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ امریکہ اور اس کے روایتی اتحادیوں کے درمیان عدم اعتماد کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ بعض ماہرین کی نظر میں یہ فضا اس وقت پیدا ہونا شروع ہوئی جب 2011ء میں تیونس کے سابق ڈکٹیٹر زین العابدین بن علی اور مصر کے سابق حکمران حسنی مبارک کی حکومتوں کا خاتمہ ہوا۔ مندرجہ ممالک کی جانب سے امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر طاقتوں سے تعلقات استوار کرنے کی اور بھی وجوہات ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے اتحادیوں سمیت دنیا کے مختلف ممالک اس حقیقت کو بھانپ چکے ہیں کہ اب امریکہ ان سے کیا گیا حمایت کا وعدہ پوری طرح نبھانے کی طاقت کھو چکا ہے۔ لہذا اب وفاداری کے بدلے حمایت کی امید رکھنا بے جا ہے۔ امریکی اثرورسوخ کے مقابلے میں اٹھنے والی سیاسی جماعتیں اس نتیجے پر پہنچ چکی ہیں کہ کسی بھی ٹکراو کی صورت میں امریکہ مدمقابل کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کی طاقت گنوا چکا ہے۔ انہیں اس بات کا یقین ہو چکا ہے کہ امریکہ اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکتا جبکہ امریکہ کی نئی اسٹریٹجک ترجیحات مشرق وسطی میں اپنی ذمہ داریوں کا بوجھ کم کرنے پر استوار ہے کیونکہ اس کا پورا زور چین اور روس سے مقابلے پر مرکوز ہو چکا ہے۔

یوکرین جنگ نے خلیجی ریاستوں کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ اپنا علیحدہ ایجنڈہ تیار کریں اور امریکہ کے خلاف روس سے تعاون بڑھائیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یوکرین جنگ کی شدت میں اضافہ ہو جانے اور اس میں امریکہ اور مغربی ممالک کی مداخلت کے باعث ان ممالک کا جھکاو چین کی جانب مزید بڑھنے لگا اور انہوں نے اپنے علاقائی تنازعات میں چین کو ثالثی کا موقع فراہم کیا۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان حالیہ معاہدہ بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ دوسری طرف چین کی نظر میں امریکہ کا مقابلہ کرنے کا بہترین راست سلک روڈ منصوبہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ سے مقابلہ کرنے میں چین کی صلاحیت، خطے کے ممالک سے اپنے اقتصادی اور تجارتی تعلقات بڑھانے کے ساتھ ساتھ خطے میں استحکام کے فروغ کیلئے مناسب راہ حل پیش کرنے پر بھی منحصر ہے۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

غزہ میں جنگ بندی اسرائیل کی نابودی کے مترادف ہے، انتہاپسند صہیونی وزیر

یروشلم:بن گویر نے حماس کے ساتھ ہونے والی عارضی جنگ بندی کو اسرائیل کی تاریخی …