بدھ , 24 اپریل 2024

تسلط برائی کی جڑ

(تحریر: سيد رضی عمادی)

بینیامین نیتن یاہو کی کابینہ کے وزیر کا نیا اقدام اردنی حکومت کے غم و غصے کا سبب بن گیا ہے۔ نیتن یاہو کی کابینہ کی انتہاء پسندی اور نسل پرستی کی اب تک ملکی اور علاقائی سطح پر بہت زیادہ قیمت چکانی پڑ رہی ہے۔ ملکی سطح پر بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ کے نسل پرستانہ اقدامات نے مقبوضہ علاقوں میں اس طرح تنازعات کو جنم دیا ہے کہ صیہونی حکومت کے سربراہ اور اس حکومت کے سابق موجودہ حکام کو بارہا انتباہ دے چکے ہیں کہ ان اقدام سے صیہونی حکومت کے ٹوٹنے کے خطرے بڑھ رہے ہیں۔ دریں اثناء مسلسل 11ویں ہفتے بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ کے خلاف عوامی مظاہرے جاری ہیں۔ آخری مظاہرہ ایک ایسا مظاہرہ تھا، جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی اور کابینہ کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا۔

علاقائی سطح پر بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ کی انتہاء پسندی اور نسل پرستی، خاص طور پر فلسطینیوں کے خلاف، فلسطینیوں اور قدس کی غاصب حکومت کے درمیان تنازعات کے ایک نئے دور کا سبب بنی ہے۔ دوسری طرف تنازعات کے اس دور میں فلسطینیوں کے خلاف صیہونیوں کے تشدد کی سطح انتہائی بلندی پر ہے، جس کی وجہ سے نیتن یاہو کی کابینہ کے آغاز سے اب تک 90 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں کئی خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ اسی طرح سینکڑوں افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطین اور صیہونی حکومت کے درمیان جنگ کا بھی امکان بڑھ رہا ہے۔

نیتن یاہو کی کابینہ کے نسل پرستانہ بیانات اور طرز عمل کے اس نئے دور میں، اس حکومت کے وزیر خزانہ نے اردن کے خلاف علاقائی دعویٰ کیا ہے۔ گذشتہ دنوں میڈیا نے خبر دی تھی کہ صیہونی حکومت کے وزیر خزانہ Bezalel Smotrich کے ہاتھ میں حال ہی میں ایک نقشہ تھا، جس میں اردن اور فلسطین کے کچھ حصوں کو مقبوضہ زمینوں سے ملایا گیا تھا۔ یہ نقطہ نظر، ہر چیز سے بڑھ کر، اردن سمیت عرب ممالک کی طرف صیہونی حکومت کے غاصبانہ رویئے کا اظہار کرتا ہے۔ اس سے ایک بار پھر ٹابت ہو رہا ہے کہ صیہونی حکومت کا وجود غاصبانہ قبضے پر استوار ہے۔

یہ حکومت عرب ممالک بالخصوص فلسطین کے علاقوں پر قبضہ کرکے قائم کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ القدس کی قابض حکومت نے ہمیشہ اردن، مصر، لبنان اور شام جیسے ممالک کی سرزمینوں پر بھی حریصانہ نظر رکھی ہے۔ اس غاصبانہ روش نے اردن کی ارضی سالمیت کیے خلاف بات کی ہے، جس پر اردن کا ردعمل درست اقدام ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ "ایمان الصفادی” نے اس منصوبے اور نفشے کے جواب میں جو صیہونی حکومت کے وزیر خزانہ کے ہاتھ میں تھا، تاکید کی ہے کہ "اسرائیل کا قبضہ اور تسلط برائی کی بنیاد ہے اور خطے میں اسی وقت استحکام آئے گا، جب یہ قبضہ ختم ہوگا۔”

صیہونی حکومت کے وزیر خزانہ کے اقدام پر اردن کے وزیر خارجہ کے ردعمل کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، لیکن یہ اقدام صیہونی حکومت کے بارے میں اردن کی حکومت کے ماضی کے رویئے کو ظاہر کرتا ہے۔ اردن کی حکومت کی عرصے سے یہ رائے ہے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ مذاکرات اور سمجھوتے کے ذریعے تعلقات میں کشیدگی کو کم کرکے اپنے مفادات کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے، لیکن ایک بار پھر ثابت ہوگیا ہے کہ غاصب حکومت اپنی من مانی کرتی ہے۔ صیہونی حکومت کے وزیر خزانہ کے بیانات اردن کے نقطہ نظر کے برعکس ثابت ہوئے ہیں۔ ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذاکرات اور سمجھوتے سے اردن سمیت عرب ممالک کے جغرافیہ اور ارضی سالمیت کے حوالے سے صیہونی حکومت کی غاصبانہ روش ختم نہیں ہوگی، کیونکہ جیسا کہ اردن کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ غاصبانہ قبضہ صیہونی حکومت کے وجود کی بنیاد ہے۔ اردن کے وزیر خارجہ کے بقول "اسرائیل کا قبضہ اور تسلط برائی کی بنیاد ہے اور خطے میں اسی وقت استحکام آئے گا جب یہ قبضہ ختم ہوگا۔”بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …