ہفتہ , 20 اپریل 2024

تکفیریوں کیلئے مضمحل خبریں

(تحریر: ارشاد حسین ناصر)

خبر ہے کہ شام و سعودیہ نے مذاکرات کے ذریعے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں عرب ممالک سفارت خانے کھولیں گے، دس برس کے بعد یہ ہونے جا رہا ہے، دس برس قبل سعودیہ نے شام میں نام نہاد جمہوریت لانے کیلئے دنیا بھر سے دہشت گردوں کو جمع کرکے بھیجنے کے امریکی و اسرائیلی پلان میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔ دولت دی، فتوے دیئے، سہولت دی، خودکش بمبار دیئے، اسلحہ دیا۔ شام کا بائیکاٹ کیا، اسے عرب لیگ سے نکالا، اس کا محاصرہ کیا، مقصد فقط رجیم چینج آپریشن کو کامیاب بنانا تھا، جس میں تمام کرداروں کو بری طرح ناکامی ہوئی۔ شام کی طرف واپسی پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ اب اپنا تھوکا چاٹ رہے ہیں، البتہ اس عمل سے دنیا بھر کے اس کے رکھیل تکفیری عناصر و گروہ سخت پریشان نظر آتے ہیں کہ انہیں جو سبق پڑھایا اور اس راہ پر لگایا، اب اس کے الٹ ہوگیا ہے۔ یہ تکفیریوں کی موت ہی ہے کہ وہ دنیا بھر سے جمع ہو کر جس ملک کو برباد کرنے کیلئے پہنچے تھے، اب اس کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا گیا ہے۔

تکفیریوں کے لئے ایک اور پریشان کن خبر یہ ہے کہ چین نے ایران و سعودیہ میں بھی تعلقات بحال کروا دیئے ہیں اور دونوں ممالک سفارت خانے کھولنے جا رہے ہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر سعودی بادشاہ کی جانب سے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو سعودیہ کے دورہ کی دعوت کی خبر بھی گردش کر رہی ہے، جسے دنیا بھر کے مسلمانوں نے تو خوش آئند قرار دیا ہے۔ اس تبدیل شدہ صورتحال میں بھی دنیا بھر کے تکفیری خاصے پریشان ہیں، ان کی پریشانی کی وجہ صاف دیکھی جا سکتی ہے کہ ان کا کام تو تکفیر سے ہی چلتا تھا، انہیں تو اسی کے فنڈز ملتے تھے، اب وہ ان کی تکفیر کیسے کرے گا، اگر ان کا مرکز و محور ہی اپنے موقف سے ہٹ گیا ہے، تکفیریوں کیلئے تو جیسے بے روزگاری کے ایام شروع ہونے جا رہے ہیں۔

ایک اور خبر نے تکفیری عناصر کو سخت مضمحل و پریشان کر دیا ہے کہ شام جسے عرب دنیا میں تنہاء کیا گیا تھا اور اس کو عرب لیگ سے بھی نکالا گیا گیا تھا، اس پر پابندیاں بھی لگائی گئی تھیں، اب اپنے کھوئے ہوئے مقام کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اب اس کا صدر بشار الاسد امارات سمیت خطے کے کئی دیگر ممالک کے دورے کرچکا ہے۔ خطے کے ممالک اب شام کے دورے کر رہے ہیں، تعلقات بحال ہو رہے ہیں، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ شام آج بھی اپنے موقف پہ کھڑا ہے۔ شام آج بھی دہشت گردوں، امریکی و اسرائیلی حملہ آوروں سے بر سر پیکار ہے اور اپنے وطن کا دفاع کر رہا ہے۔ شام اب بھی چین، روس اور ایران کے کیمپ میں ہے، جبکہ اس سے تعلقات توڑنے والے ممالک جو اب واپس لوٹ رہے ہیں، اپنے امریکی و اسرائیلی کیمپ میں خاصے اپ سیٹ نظر آرہے ہیں۔

گذشتہ دنوں پاکستان کے تکفیری عناصر کو بھی کافی مضمحل اور پریشان دیکھا گیا، جب جمہوری اسلامی ایران کے المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے سربراہی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور پاکستان کے کئی شہروں میں امت مسلمہ کے تمام مکاتیب کے علام و بزرگان سے ملاقاتیں کیں اور باہمی تعلقات میں بہتری لانے میں اپنا اثر چھوڑا۔ اسی دوران دیوبندی مکتب فکر کے نامور عالم دین مفتی تقی عثمانی سے ملاقات کی۔ ان کے ادارے جامعۃ الرشید کا دورہ کیا اور دیگر علماء سے ملاقاتیں کیں۔ اس دورے اور کراچی میں ہوئے کچھ اور دوروں سے تکفیری عناصر کو خاصی تپش محسوس ہوئی۔ اس تپش کا احساس سوشل میڈیا پر نمایاں طور پہ ہوا۔ تکفیریوں نے اپنے ہی مفتی اعظم کے خلاف شکایات اور تہمت و الزامات کے انبار لگا دیئے، جس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ انہیں کس قدر مایوسی ہوئی۔ یہ مایوسی دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں سے پہنچنے والی مایوسی سے ہرگز کم نہ تھی۔

کہتے ہیں کہ کسی بھی چیز کا بہترین فیصلہ وقت کرتا ہے، وقت ہی فیصلہ کرتا ہے کہ کیا درست تھا اور کیا غلط۔ کس نے کیا غلطی کی اور کون اپنے فیصلے کی روشنی میں اب کہاں کھڑا ہے۔ وقت ہی ثابت کرتا ہے کہ کس نے کس کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ کون کس کا مجرم ہے اور کون کس سے زیادتی کا مرتکب ہے۔ ان دنوں عالمی سطح پر یہ خبریں ہمارے سامنے ہیں، جن کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وقت بہترین منصف ہے، جس نے ثابت کر دیا کہ کون غلط تھا، کس نے کس کیساتھ زیادتی کی، مگر اصل بات یہ ہے کہ سچائی کو ثابت کرنے کیلئے کتنے بے گناہوں کا خون بہہ گیا، کتنے لوگ در بہ در ہوئے، کتنے اب تک اپنے پیاروں سے دور ہیں، کتنا وقت ضائع ہوا، کتنی توانائیاں فضول میں چلی گئیں، کتنی تباہیاں ہوئیں اور کتنا ترقی کا پہیہ رک کر پیچھے کی جانب چل گیا۔ کاش یہ نہ ہوتا جو کہ ہنستے بستے گھروں کو اجاڑنے کیلئے اسلام دشمنوں کے کاندھوں پر سواری کی گئی۔

اب جب دس سال پرانے فیصلوں کو واپس لیتے ہوئے تعلقات بڑھانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے تو ایک اور ہار مان لیجئے، ایک اور شکست تسلیم کر لیجئے، ایک اور فیصلہ کر لیجئے کہ یہ فیصلوں کی گھڑی لکھی جائے گی۔ یمن میں اپنی جارحانہ پالیسی اور بے گناہ و معصوم، غریب یمنیوں کو آگ، بارود کا ایندھن بنانے اور ان کے گھروں پر حملہ آور ہونے کی غلطی کو تسلیم کیجئے اور اپنی طاقت کے گھمنڈ سے باہر نکل آئیے۔ یمنیوں نے جس حمیت و غیرت اور مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے اپنے وطن، اپنی سرزمین اور اپنے لوگوں کے دفاع کی ایسی تاریخ رقم کی ہے، جس کو کتابوں میں پڑھا جائے گا اور تاریخ کے اوراق میں یاد رکھا جائے گا۔ تیل کی دولت سے مالا مال مملکت کو، طاقت کے گھمنڈ سمیت جو دھول یمنیوں نے چتائی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آج نہیں تو کل یہ ہو کر رہے گا۔ ہم نے کل بھی کہا تھا اور اب بھی کہتے ہیں کہ جنگیں پیسے کے زور پر نہیں جیتی جا سکتیں، کرائے کے فوجیوں کے ذریعے ممالک فتح نہیں ہوسکتے، کسی کی طاقت کو مستعار لے کر کسی غیرت مند کو زیر نہیں کیا جا سکتا۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …