(سید مجاہد علی)
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب میں انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کر کے ملک میں ایک نئے بحران کو جنم دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس قومی ادارے کی غیر جانبداری اور طریقہ کار کے بارے میں شبہات میں اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف پہلے ہی الیکشن کمیشن کو موجودہ حکومت کا آلہ کار قرار دیتی ہے تاہم موجودہ فیصلہ کے بعد تحریک انصاف کے الزامات کو مسترد کرنا آسان نہیں ہو گا۔
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا تھا اور بظاہر ملک میں جاری سیاسی تصادم کی کیفیت کے باوجود مقررہ وقت پر انتخابات منعقد کروانے کی تیاری کی جا رہی تھی۔ صدر پاکستان عارف علوی کے حکم کے مطابق پنجاب میں انتخابات 30 اپریل کو ہونے والے تھے۔ صدر مملکت نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے اکثریتی ججوں نے یکم مارچ کو ایک فیصلہ میں مقررہ آئینی مدت کے اندر انتخابات منعقد کروانے کا حکم دیا تھا۔ عدالت نے واضح کیا تھا کہ اسمبلی ٹوٹنے کے بعد 90 دن کی مدت میں انتخابات کا انعقاد آئینی ضرورت ہے اس لئے الیکشن کمیشن اس مقررہ مدت میں انتخابات منعقد کروانے کا ذمہ دار ہے۔
البتہ عدالت کے پیش نظر یہ نکتہ رہا کہ ان انتخابات کی تاریخ کا اعلان کون کرے گا۔ الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ وہ مقررہ وقت میں انتخابات کروانے کے لئے تیار ہے لیکن آئینی طور سے انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے گورنر بلیغ الرحمان کا موقف تھا کہ انہوں نے پنجاب اسمبلی توڑنے کی سمری پر دستخط نہیں کیے، اس لیے ان پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان واجب نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا اختیار صدر پاکستان کو دیتے ہوئے حکم دیا کہ وہ الیکشن کمیشن کے مشورے سے تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں۔ تاہم خیبر پختون خوا میں انتخابات کے لئے گورنر حاجی غلام علی کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا پابند کیا تھا۔ گورنر کے پی کے نے 28 مئی کو انتخابات کا اعلان کیا تھا لیکن ایک ہی روز بعد اپنا فیصلہ یہ کہتے ہوئے واپس لے لیا تھا کہ بعض اہم پہلوؤں پر غور سے پہلے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا جاسکتا۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں یہ اجازت ضرور تھی کہ انتخابات کے اعلان میں تاخیر اور اس بے یقینی کی وجہ سے کہ کون سی اتھارٹی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گی، 90 کی مدت میں کچھ اضافہ ضرور کیا جاسکتا ہے۔ تاہم عدالت کا فیصلہ تھا کہ جس قدر جلد ممکن ہو انتخابات کے انعقاد کا اہتمام کیا جائے۔ واضح رہے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے فیصلہ کے بعد پنجاب اسمبلی 12 جنوری کو اور خیبر پختون خوا اسمبلی 18 جنوری کو تحلیل ہو گئی تھی۔ اس طرح آئین کے مطابق ان صوبوں میں اپریل کے شروع میں انتخابات منعقد ہونے چاہئیں تھے۔ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے گورنروں کی طرف سے اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت تھا۔ تاہم سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے فروری کے دوران سو موٹو اختیار کے تحت اس معاملہ پر غور کے لئے 9 رکنی بنچ مقرر کیا۔ چار ججوں نے اس بنچ سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔ دو ججوں کی جانبداری پر سوال اٹھائے گئے تھے جبکہ دیگر دو نے سوموٹو لینے کے طریقہ سے اختلاف کرتے ہوئے علیحدگی اختیار کی۔ بعد میں پانچ رکنی بنچ نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو روز سماعت کے بعد یکم مارچ کو فیصلہ کا اعلان کیا تو بنچ کے دو ارکان نے اس سے اختلاف کیا۔
سپریم کورٹ میں ہونے والی اس کارروائی کی صورت حال کے پیش نظر وفاقی حکومت کے نمائندوں کی رائے تھی کہ 9 رکنی بنچ سے علیحدہ ہونے والے دو ججوں نے سوموٹو کے خلاف رائے دیتے ہوئے علیحدگی اختیار کی تھی اور ان کی یہ رائے بھی عدالتی فیصلہ کا حصہ ہے، اس لیے سپریم کورٹ کے فیصلہ کو چار تین کی اکثریت سے پنجاب میں انتخابات کے خلاف سمجھنا چاہیے۔ اس سرکاری پوزیشن کے باوجود الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق انتخابات کی تیاریاں شروع کردی تھیں اور صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کے مشورے کی روشنی میں ہی 30 اپریل کو انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تھا۔ البتہ گورنر خیبر پختون خوا نے الیکشن کمیشن کی رائے کے مطابق انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ بعض لوگوں کی جانب سے گورنر کے پی کے حاجی غلام علی کے اس رویہ کو توہین عدالت قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع بھی کیا گیا ہے۔
اس دوران ملک کی سیاسی صورت حال اور افواج پاکستان کے خلاف چلائی جانے والی نفرت انگیز مہم کے خلاف غور کے لئے حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر رکھا ہے۔ گزشتہ روز وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اس اجلاس میں ایک پالیسی بیان میں ملک میں سیاسی بحران اور سکیورٹی کی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا تھا کہ کیا ملک میں اس سے پہلے کبھی انتخابات کے انعقاد کے لئے 90 دن کی مقررہ آئینی مدت سے تجاوز نہیں کیا گیا؟ اس کے بعد انہوں نے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ 1988 میں سیلاب کی صورت حال کی وجہ سے انتخابات 6 ماہ کے لئے ملتوی کیے گئے تھے۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 میں بھی انتخابات ملتوی ہوئے تھے۔ تاہم وزیر داخلہ اس نکتہ کو گول کر گئے کہ عام انتخابات اور کوئی صوبائی اسمبلی ٹوٹنے کے بعد 90 دن کے اندر انتخاب منعقد کروانے کی آئینی پوزیشن میں فرق ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ وہ ملکی حالات کے تناظر میں حکومتی موقف پر غور کریں اور یکم مارچ کو دی جانے والی رولنگ پر نظر ثانی کی جائے۔
رانا ثنا اللہ نے اگرچہ اس الزام کو مسترد کیا کہ حکومت انتخابات سے بھاگ رہی ہے اور دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں امیدواروں سے درخواستیں مانگ رکھی تھیں اور 1100 امیدواروں نے درخواستیں جمع بھی کروا دی تھیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ عام انتخابات سے چند ماہ پہلے دو صوبوں میں انتخابات کے انعقاد سے قومی اسمبلی کی حیثیت ختم ہو کر رہ جائے گی کیوں کہ منتخب شدہ صوبائی حکومتیں قومی اسمبلی کے انتخابات پر اثرانداز ہوں گی۔ اس طرح شفاف ماحول میں انتخابات منعقد کروانے کی آئینی شرط پوری نہیں ہو سکے گی۔ یہ اتفاق بھی ہو سکتا ہے لیکن قومی اسمبلی میں رانا ثنا اللہ کی تقریر سے تھوڑی ہی دیر بعد الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات پانچ ماہ کے لئے ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان میں سکیورٹی کی صورت حال کا حوالہ دیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ اعلیٰ حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں انتخابات کے لئے سکیورٹی فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی گئی ہے۔ اسی طرح وزارت خزانہ انتخابات کے انعقاد کے لئے وسائل فراہم کرنے سے معذور ہے۔ ان حالات میں الیکشن کمیشن پر امن ماحول میں شفاف انتخابات منعقد نہیں کروا سکتا۔
الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرنے کی جو وجوہات بیان کی ہیں، وہ جائز بھی ہو سکتی ہیں لیکن اس اہم متنازعہ معاملہ پر یک طرفہ طور سے کیے جانے والے فیصلہ سے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری متاثر ہوئی ہے اور مخالفین کے لئے یہ الزام لگانا آسان ہو جائے گا کہ الیکشن کمیشن حکومتی پارٹیوں کی خواہش کے مطابق انتخابات منعقد کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ اس بارے میں واضح حکم دے چکی ہے۔ اس دوران انسانی حقوق کمیشن اور وکلا تنظیموں کی طرف سے انتخابات کے سوال پر پیدا ہونے والے تنازعہ کو حل کرنے کے لئے کل جماعتی کانفرنس بلانے کی تجویز بھی سامنے آ چکی ہے اور تحریک انصاف کے چئیر مین عمران خان نے بھی ایسی کانفرنس کی افادیت قبول کرتے ہوئے اس میں شرکت کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف بھی ملکی مسائل کے حل کے لئے مل بیٹھنے کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں جس پر تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا تھا کہ حکومت ملاقات کا وقت اور جگہ کا تعین کرے، ہم بات چیت کے لئے تیار ہیں۔
ان حالات میں الیکشن کمیشن کو یا تو ایسی کوششوں کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے تھا یا اگر اس کے لئے انتظامی ضرورت کیے تحت فوری طور سے کوئی فیصلہ کرنا ضروری تھا تو اسے اپنی مشکلات سے سپریم کورٹ کو آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ یہ معاملہ شاید کوئی نہ کوئی فریق سپریم کورٹ میں لے کر جائے گا اور جیسا کہ وزیر داخلہ کی تقریر سے بھی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ حکومت بھی سپریم کورٹ کے تعاون سے ہی ملک میں انتخابات کی حتمی تاریخ کا اعلان کرنا چاہتی ہے۔ الیکشن کمیشن نے متعدد آئینی شقات کا حوالہ دیتے ہوئے پنجاب میں انتخاب ملتوی کیے ہیں لیکن یہ حقیقت بھی کمیشن کے پیش نظر ہونی چاہیے تھی کہ اس کا حتمی فیصلہ بہر حال سپریم کورٹ میں ہی ہو گا۔ چیف جسٹس گزشتہ روز ہی ملک میں شفاف انتخابات کی نگرانی کے بارے میں اپنے ارادوں کا اظہار کرچکے ہیں۔ علاوہ ازیں سوموٹو کی سماعت کے دوران بھی فاضل جج حضرات یہ عندیہ دیتے رہے ہیں کہ اگر الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد میں کسی رکاوٹ کا سامنا ہو تو وہ عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ بہتر ہوتا کہ الیکشن کمیشن ازخود انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کرنے کی بجائے سپریم کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔
حکومتی دعوؤں، الیکشن کمیشن کے فیصلے اور تحریک انصاف کے اس اعتراف کے بعد کہ ملک میں انتخابات کے انعقاد کے لئے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے، اب سب اسٹیک ہولڈرز کو اس معاملہ پر سیاست کرنے کی بجائے بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے تاکہ عام انتخابات کے انعقاد کے لئے کسی تاریخ پر اتفاق ہو سکے۔ اس حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس کی تجویز پر پہلے ہی کام ہو رہا ہے۔ سپریم کورٹ کو بھی ایک بار پھر کوئی انتہائی یا اختلافی پوزیشن لینے کی بجائے اب انتخابات کے انعقاد کا معاملہ ملکی سیاسی پارٹیوں کی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہیے۔
انتخابات میں چند ماہ کی تاخیر سے سیاسی صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ البتہ تحریک انصاف اگر تصادم کی بجائے مفاہمت کا راستہ اختیار کرے اور حکومتی پارٹیوں کے ساتھ انتخابی شیڈول پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے تو ملک کو بڑے سیاسی بحران سے بچایا جاسکتا ہے۔بشکریہ ہم سب نیوز
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔