ہفتہ , 20 اپریل 2024

مشرقِ وسطیٰ کے بدلتے تیور

(محمد معاذ قریشی)

بہت سی بُری اور اکتا دینے والی خبروں کے بیچ ایک اچھی خبر ملی ہے، جیسے حبس کے موسم میں موسلا دھار بارش ہو جائے، جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آ جائے۔ خبر یہ ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے مابین عرصے سے پائے جانے والے اختلافات ختم ہونے کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ دہائیوں سے باہمی طور پر مخاصمت رکھنے والے سعودی عرب اور ایران کے تعلقات اب تبدیل ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا ہے۔ دونوں ملکوں نے دو ماہ کے اندر سفارت خانہ کھولنے، ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام کرنے اور اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس فیصلے کا اعلان چین میں دونوں ممالک کے نمائندوں کے درمیان چار روزہ مذاکرات کے بعد کیا گیا تھا۔

سعودی عرب اور ایران مشرق وسطیٰ کے ہی نہیں عالمِ اسلام کے دو بڑے ملک ہیں، قدرتی وسائل سے مالا مال اور جغرافیہ کے لحاظ سے تزویراتی اہمیت و افادیت کے حامل۔ پرنس محمد بن سلمان 2017ء میں سعودی عرب کے ولی عہد بنے تھے۔ انہوں نے کئی ایسے فیصلے کئے جن کا اس سے پہلے سعودی عرب میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے نتیجے میں سعودی عرب ابھر کر دنیا کے سامنے آیا ہے۔ سعودی حکومت نے خام تیل کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں سیاحت اور قدرتی وسائل پر توجہ مبذول کی اور کاروباری سطح پر منصوبہ سازی کی اور کام شروع کیا۔ ان میں سب سے زیادہ اہم قدرتی معدنیات کے ذخائر ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق سعودی عرب میں 1.43 ٹریلین ڈالر سے بھی زیادہ مالیت کے قدرتی وسائل موجود ہیں۔ سعودی عرب اوپیک ممالک میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک ہے اور اس کے عرب دنیا کے ساتھ ساتھ ایشیا اور یورپ کے متعدد ممالک کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری آ رہی ہے، اس کے علاوہ سعودی عرب نے تیل کو اب واقعی ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ حال ہی میں سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان نے ریاض میں روسی نائب وزیر اعظم اور مشترکہ کمیٹی میں روسی فریق کے سربراہ الیگزینڈر نوواک سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دونوں نے تیل کی عالمی منڈی کے حالات، مارکیٹ میں استحکام اور توازن برقرار رکھنے کے لیے اوپیک پلس گروپ کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے گزشتہ اکتوبر میں اوپیک پلس کی جانب سے پیداوار میں 2023ء کے آخر تک یومیہ دو ملین بیرل کمی کے فیصلے پر قائم رہنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تیل کی پیداوار کے حوالے سے دونوں ملکوں میں تعاون بڑھ رہا ہے۔

ایران کی ملکیت قدرتی وسائل کی قیمت کا تخمینہ 27 ٹریلین ڈالر ہے۔ ایران میں تیل اور قدرتی گیس کے بڑے ذخائر ہیں، جو دنیا میں تیل اور قدرتی گیس کے ذخائر کا 16 فیصد ہیں۔ ایران مشرق وسطیٰ کے دھانے پر واقع ہے۔ خلیج فارس سے ہائیڈرو کاربن یعنی پٹرولیم مصنوعات کی ایک وسیع مقدار اس کے قریب سے ہو کر گزرتی ہے۔ خلیج فارس ایک بڑی عالمی گزرگاہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایران کے تیل ذخائر 136.2 بلین بیرل کے برابر ہیں۔

اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر یہ دونوں ملک اپنے اختلافات ختم کر لیں اور ان کے مابین سالوں سے ٹوٹا ہوا سفارتی تعلق پھر سے جڑ جائے تو اس سے مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام کو کتنا فائدہ ہو سکتا ہے اور عالمی برادری میں ہماری آواز کتنی بلند ہو سکتی ہے۔ اس مثبت اور خوش آئند پیش رفت کے نتیجے میں دو اور امکانات بھی روشن ہوئے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے بعد عرب دنیا کے باہمی اختلافات ختم ہونے کی راہ ہموار ہو گی اور مشرق وسطیٰ کا خطہ ایک بڑی عالمی طاقت کے طور پر ابھر سکے گا۔ دوسرا یہ کہ جس طرح چین نے سعودی عرب اور ایران کے مابین رابطے پیدا کرنے کی کاوش کی اسی طرح وہ پاک بھارت اختلافات دور یا کم کرنے میں بھی معاونت کر سکتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ ایک طرف مشرق وسطیٰ کا خطہ ابھر کر سامنے آئے گا تو دوسری طرف جنوبی ایشیا کے ممالک کے ایک دوسرے کے قریب آنے کے امکانات پیدا ہوں گے۔ یوں ایشیا کے اگلا یورپ ثابت ہونے کا ایک خاکہ ابھر کر سامنے آ سکتا ہے جو ظاہر ہے کہ ترقی اور خوش حالی کا راستہ ہے۔

مشرق وسطیٰ میں جو پیش رفت ہوئی ہے اس کا ایک اور پہلو بھی ہے۔ یہ کہ اس خطے میں امریکہ کو دہائیوں سے جو ایک طرح کی اجارہ داری حاصل تھی، وہ ختم ہونے کے قریب آ گئی ہے۔ اس پیش رفت پر امریکہ کس قدر برہم ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ امریکہ اس لئے برہم ہے اور شدید پریشانی میں ہے کہ اب اس کا اسلحہ نہیں بکے گا اور اب مشرق وسطیٰ میں اس کی چودھراہٹ بھی قائم نہیں رہے گی۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے ایران اور سعودی عرب کے سفارتی تعلقات کی بحالی کو مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کے لئے بڑا دھچکا قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ چین میں ہونا اس بات کا اظہار ہے کہ خطے میں طاقت کا توازن کس طرف ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے کچھ عرصے سے امریکہ کی جانب سے سعودی عرب کے بارے میں نہایت منفی پروپیگنڈا اور اقدامات سامنے آتے رہے ہیں۔ جون 2021 میں امریکی سینیٹ نے سعودی عرب کو اربوں ڈالر مالیت کا اسلحہ فروخت کرنے کی قراردار کے خلاف قرارداد منظور کی تھی جو سعودی عرب کے لئے ایک بڑا دھچکا تھا۔ امریکہ صحافی جمال خشوگی کے قتل کے معاملے پر بھی سعودی عرب کو مطعون کرتا رہا ہے۔ اکتوبر 2018 میں تو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ تک کہہ دیا تھا کہ انہوں نے یہ بات سعودی فرماں روا شاہ سلمان پر واضح کی ہے کہ اُن کی بادشاہت امریکی فوج کی وجہ سے قائم ہے اور اگر یہ فوجی مدد حاصل نہ ہو تو اُن کی حکومت دو ہفتے بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ میرے خیال میں سعودی عرب کی پالیسیوں میں تبدیلی امریکہ کی سعودی عرب کے بارے میں اپنائی گئی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے۔ اب لگتا ہے دنیا میں ایک نیا بلاک تشکیل پانے جا رہا ہے: مشرق وسطیٰ، جنوبی ایشیا، روس، چین اور ان کے حامی ممالک۔ اس سے پہلے روس اور امریکہ کے مابین کوئی سرد جنگ تھی یا نہیں، اس بارے میں وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس حالیہ پیش رفت کے بعد یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اب ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہونے والا ہے اور سعودی عرب، ایران مفاہمت اور مصالحت اس کا نقطہ آغاز ہے۔بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …