(نسیم شاہد)
بات تو یہ بھی سچ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے دور میں دس لاکھ روپے کا صحت کارڈ فری تھا اور موجودہ حکومت کے دور میں دس کلو آٹے کا تھیلا مفت مل رہا ہے اور وہ بھی اتنی ذلت کے بعد الامان الحفیظ، لوگ دہائیاں دے رہے ہیں کہ اس طرح سرِبازار ہمیں رسوا تو نہ کرو۔ میری نظر میں تو یہ مفت آٹے والی سکیم الٹا حکومت کے لئے نفرت اُٹھا رہی ہے،کیونکہ اس کی تقسیم کا کوئی ایسا نظام ہی وضع نہیں کی گیا، جس سے لاکھوں لوگوں کو بآسانی اور اُن کی انا کو ٹھیس پہنچائے بغیریہ دس کلو آٹا مل سکتا۔ میں کل ملتان میں سپورٹس گراؤنڈ کے پاس سے گزر رہا تھا۔ ہزاروں مرد و زن اسٹیٹ بینک والی سڑک کے راستے سپورٹس گراؤنڈ میں داخلے کے منتظر تھے کیونکہ تقسیم کا سلسلہ اندر کھا گیا تھا۔ اس ہجوم کو ہی دیکھ کے صاف لگ رہا تھا کہ جس نے بھی یہ طریقہ وضع کیا ہے، وہ دماغی طور پر مستحکم نہیں۔ معلوم ہوا کہ ان کے موبائلوں پر آٹا لینے کے لئے آنے کا میسج آ چکا ہے۔ عقل کے اندھوں کو اتنا معلوم نہیں کہ ٹیکنالوجی جس رفتار سے جلتی ہے زمین پر واقعات اُس رفتار سے نہیں چل سکتے۔ نادرا نے تو لاکھوں افراد کو اپنی ٹیکنالوجی کے ذریعے دس کلو آٹے کے حصول کا حقدار قرار دے دیا مگر اس کی تقسیم کے لئے کیا اتنی بڑی تعداد میں انتظامات کئے گئے؟ یا کئے جا سکتے ہیں؟ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یا سنٹرز کی تعداد بڑھائی جاتی یا پھر ایک میسج بھیجنے کی بجائے ایک خاص تناسب سے لوگوں کو میسج بھیج کر بلایا جاتا۔ اب عملاً صورتِ حال یہ ہے کہ جگہ جگہ رش لگا ہوا ہے، دو اموات بھی ہو چکی ہیں۔ بے ہوش ہونے والی عورتوں کی تعداد بھی کم نہیں، کوئی حکومتی کارندہ ذرا جا کر ایسے سنٹرز کو دیکھے تو اُسے علم ہو کہ جس مقصد کے لئے حکومت نے یہ 53 ارب روپے کی سبسڈی دی ہے۔
وہ اُس کے لئے تعریف کی بجائے لوگوں کے غم و غصے کا باعث بن چکی ہے اور وہ حکمرانوں کو صرف اس لئے جھولیاں اُٹھا اُٹھا کے بددعائیں دے رہے ہیں کہ انہوں نے صرف آٹے کے چکر میں انہیں ذلیل و خوار کر دیا ہے۔ ایک طرف یہ عالم ہے تو دوسری طرف دس کلو آٹے کی قیمت میں ساڑھے پانچ سو روپے اضافہ کر دیا گیا ہے۔ گویا جو آٹا فری دیا جا رہا ہے اُس کی قیمت بھی دوسرے ہاتھ سے وصول کرنے کا پورا پورا بندوبست کر لیا گیا ہے۔ کیا ایسی شعبدہ بازیوں سے حکومت کو کوئی فائدہ ہو سکتا ہے۔ مفت تھیلا تو ایک بار ملتا ہے، کیا اُس دس کلو آٹے کے تھیلے سے اب غریب گھرانوں کی ہمیشہ کے لئے بھوک ختم ہو جائے گی۔ اس کے بعد جب وہ آٹا خریدنے بازار جائیں گے تو ساڑھے چھ سو روپے میں ملنے والا دس کلو کا تھیلا جب ساڑھے پانچ سو روپے مہنگا ملے گا تو وہ یہی سمجھیں گے جو مفت کا تھیلا انہیں ملا تھا اُس کی قیمت اب اُنہیں ہمیشہ چکانی ہوگی۔
کیا ہی اچھا ہوتا حکومت یہ 53ارب روپے کی سبسڈی آٹے کا تھیلا دو سو روپے سستا کرنے پر دیتی۔ اس طرح آٹا بھی سب کو آسانی سے مل جاتا اور دوسری طرف عوام پر آٹے مہنگا کرکے بوجھ ڈالنے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی مگر صاحب یہ جو لیبل لگانا تھا کہ ہم نے آٹا مفت تقسیم کیا وہ کیسے لگتا۔ یہی وہ سیاسی چالاکیاں ہیں جو اس ملک کا ہمیشہ سے مقدر بنی ہوئی ہیں۔ اب حکومت موٹرسائیکل، موٹررکشہ اور چھوٹی گاڑیوں کے لئے پٹرول بھی سستا کرنا چاہتی ہے۔ خطرہ ہے کہ اس کام کے لئے بھی اگر ہوم ورک مکمل نہ کیا گیا تو ایسی ہڑبونگ مچے گی کہ رہا سہا پٹرول بھی غائب ہو جائے گا۔ یہاں بھی حکومت اس ہاتھ دے اور اُس ہاتھ لے والا معاملہ کرنا چاہتی ہے۔800سی سی گاڑیوں تک پٹرول سستا کیا جائے گا اور ہزار سی سی سے اوپر والی گاڑیوں کو اتنا ہی مہنگا ملے گا جتنی کہ حکومت چھوٹی گاڑی والوں کو سبسڈی دے گی۔سفید پوشوں نے اگر ہزار سی سی گاڑیاں رکھ ہی لی ہیں تو ان کا قصور کیا ہے؟ وہ کیوں جرمانہ بھریں اور مہنگا پٹرول خریدیں۔ اس سے کہیں بہتر ہوگا کہ حکومت عالمی منڈی کے لحاظ سے پٹرول کی قیمتوں میں مناسب کمی کرے۔ ویسے بھی آئی ایم ایف نے پٹرول کی دو قیمتوں کے نظام کو مسترد کر دیا ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سرکاری محکموں میں چھوٹی گاڑیوں کا نظام تو حکومت نافذ نہیں کر سکی۔ وہاں تو بڑی گاڑیوں پر سرکاری پٹرول ہی اڑایا جا رہا ہے۔ یہاں اگر کوئی اپنے پیسوں سے اپنی ہی ہزار سی سی گاڑی میں پٹرول ڈلوانا چاہے گا تو اسے مہنگا پٹرول خریدنا پڑے گا۔ اتنے بڑے ملک میں ایسی سکیموں کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ پھر ایسے معاملات میں کرپشن کو بھی نہیں روکا جا سکتا۔ پٹرول پمپ مالکان جو پہلے ہی موقع کی تاڑ میں رہتے ہیں اس سکیم سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔ پھر ان کے پاس ایسا متبادل نظام بھی موجود نہیں کہ اس طریقہء کار کے مطابق تیز رفتاری سے پٹرول فراہم کر سکیں۔
حاکمانِ وقت کے ذہنوں میں غالباً یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ اپنی عدم مقبولیت کا توڑ کرنا ہے تو پھر عوام کو معاشی ریلیف دینا ہوگا لیکن اس کے لئے جو ایڈہاک طریقہ دریافت کیا گیا ہے وہ ایسا نہیں کہ اُن کا یہ مقصد پورا کر سکےّ صرف چند لٹر پٹرول یا دس کلو آٹے کا تھیلا دینے سے عوام کو اس مہنگائی سے کوئی ریلیف نہیں مل سکتا جس نے ان کی زندگی کو وبال جان بنا دیا ہے۔ حکومت پٹرول پر چند سو روپے کا ریلیف دے گی مگر ڈیزل پر کوئی کمی نہیں آئے گی اور ساری پبلک ٹرانسپورٹ تو مہنگے ڈیزل پر ہی چلے گی جس سے کرائے کم ہوں گے نہ بار برداری کے اخراجات میں کمی آئے گی۔ پھر روزمرہ استعمال کی اشیاء کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ حکومت خود اپنے سستے آٹے کے تھیلے کی قیمت میں ساڑھے پانچ سو روپے اضافہ کر چکی ہے۔ گویا آٹا یکدم سو فیصد مہنگا ہو گیا ہے۔ یہ سارے کام وقتی نوعیت کے ہیں جن سے یہ تاثر تو جنم لے سکتا ہے کہ حکومت کو عام آدمی کی بہت فکر ہے تاہم عملی طور پر اس کے عوام کی زندگی پر کوئی مثبت اثرات پیدا نہیں ہو سکتے اس کے لئے معیشت کا استحکام ضروری ہے جو اس وقت بُری طرح ڈانواں ڈول ہے جب تک آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہوتا، معیشت دباؤ کا شکار ہی رہے گی۔ ڈالر ہر روز بڑھ رہا ہے اور اُس کے اثرات مہنگائی کی صورت میں مرتب ہو رہے ہیں۔ اس منجدھار سے نکلنے کے لئے ملک کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے، مگر اس کا امکان اس لئے دور دور تک نظر نہیں آ رہا کہ حکومت اس طرف آنا نہیں چاہتی اور اپوزیشن کو طاقت کے زور پر مجبور کرنا چاہتی ہے کہ وہ حکومت کی رٹ کو مان لےّ اس طرح کی صورت حال میں تو دس سال بھی لگ جائیں تو بہتری نہیں آ سکتی۔ اسی نکتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے مگر فی الوقت کوئی فریق بھی اسے سمجھنے کو تیار نہیں۔بشکریہ ڈیلی پاکستان
نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔