جمعرات , 8 جون 2023

شام سے تعلقات اور عرب دنیا

(تحریر: رضی عمادی)

شام کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے عرب ممالک نے دمشق کے ساتھ مذاکرات اور تعلقات کی بحالی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ شام کے بحران کو 12 سال گزر چکے ہیں۔ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات سمیت بعض عرب ممالک ان عرب ممالک میں شامل ہیں، جنہوں نے شام کے بحران کو بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ کردار بشار الاسد مخالف حزب اختلاف اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت نیز، عرب لیگ میں شام کی رکنیت کی معطلی اور دمشق حکومت پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے کی صورت میں اپنایا گیا۔ ان ممالک کا اصل ہدف شام میں بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔

شام کے بحران کے ایک عشرے بعد یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کی پالیسی ناکام ہوچکی ہے اور اس وقت دمشق کے ساتھ تعلقات کی بحالی کو بعض عرب ممالک نے اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہے۔متحدہ عرب امارات ان پہلے عرب ممالک میں سے ایک تھا، جس نے دو سال قبل تعلقات کی بحالی اور دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کے لیے قدم اٹھایا تھا۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ شام کے تعلقات اس طرح فروغ پائے کہ شام کے صدر بشار الاسد نے گذشتہ سال دو مرتبہ ابوظہبی کا دورہ کیا اور متحدہ عرب امارات کے حکام نے بھی جواب میں دمشق کا دورہ کیا۔

اس عمل کو جاری رکھتے ہوئے اقوام متحدہ میں متحدہ عرب امارات کی مستقل نمائندہ لانا ذکی نصیبہ نے حال ہی میں سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا: "شام میں استحکام اور ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہونے کا وقت آگیا ہے۔” اس اماراتی نمائندے نے حلب کے ہوائی اڈے پر صیہونی حکومت کے حالیہ حملوں کی بھی شدید مذمت کی، جس سے اس ہوائی اڈے کو نقصان پہنچا۔ اگرچہ سعودی عرب اور قطر کے ممالک نے ابھی تک شام کے ساتھ تعلقات بحال نہیں کیے ہیں، لیکن ان ممالک نے بھی حال ہی میں اس حوالے سے کچھ اقدامات کیے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی عرب اور شام کے درمیان رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے بعد سفارت خانے دوبارہ کھولنے کے معاہدے پر عمل درآمد ہوگا۔خبر رساں ادارے روئٹرز نے علاقائی ذرائع اور خلیج فارس میں ایک عرب سفارت کار کے حوالے سے بتایا ہے کہ: "سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ سعودی عرب میں شام کے انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ حسام لوقا کے درمیان ہونے والی بات چیت کا نتیجہ ہے۔”

سعودی عرب کے ٹی وی نے ملک کی وزارت خارجہ کے ایک ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے شامی حکومت کے ساتھ قونصلر خدمات کی فراہمی دوبارہ شروع کرنے کے لیے بات چیت شروع کرنے کی تصدیق کی ہے۔ شام کے حوالے سے سعودی عرب کے نقطہ نظر میں تبدیلی اور اس ملک کے ساتھ تعلقات کا احیاء دیگر عرب ممالک کے دمشق کے ساتھ تعلقات میں توسیع کے ساتھ ساتھ شام کی عرب لیگ میں واپسی کی بنیاد فراہم کرسکتا ہے۔

قطر جس نے شام کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا اور اب بھی شام کی موجودہ حکومت کے مخالفین میں سے ایک ہے، دمشق کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے بتدریج دوسرے عرب ممالک کے ساتھ صف بندی کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ اس حوالے سے قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ ہمارا ملک شام میں جامع امن کے قیام کے ساتھ ساتھ تمام عرب اور غیر عرب ممالک کی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔”

حال ہی میں اردن کی حکومت نے شام کے بحران کو حل کرنے کے لیے ایک اقدام تجویز کیا، جس کی بنیاد سیاسی مذاکرات کی صورت میں شامی حکومت کے ساتھ عرب ممالک کے براہ راست کردار پر ہے۔ ایک مکالمہ جس کا مقصد بحران کا خاتمہ اور اس کے انسانی، سلامتی اور سیاسی نتائج کو حل کرنا ہے۔ قطری حکومت نے اس اقدام کی حمایت کی ہے۔ شام کے حوالے سے قطر کی پالیسی میں تبدیلی کے ساتھ عملی طور پر تمام عرب ممالک دمشق کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں اور ہم امید کرسکتے ہیں کہ شام جلد ہی عرب لیگ میں واپس آجائے گا۔بشکریہ اسلام ٹائمز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

یہ بھی دیکھیں

عمران کی ’سیاسی تنہائی‘

(مظہر عباس) سابق وزیراعظم عمران خان 2002ءمیں الیکشن میں اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کی …