ہفتہ , 20 اپریل 2024

مہنگائی سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے

(ڈاکٹر حسن فاروقی)

آئی ایم ایف سے معاہدہ جلد طے پا جائے گا، آئی ایم ایف کی شرائط پر سو فیصد عمل درآمد کر دیا گیا ہے، بجلی مہنگی کردی گئی ہے ، سبسڈی بھی ختم کر دی گئی ہے، اگلی قسط جلد مل جائے گی وغیرہ وغیرہ…یہ جملے اب پاکستانیوں کیلئے نئے نہیں رہے۔ کئی دہائیوں سے یہی سنتے آرہے ہیں اور مزید جانے کب تک سنتے رہیں ۔ سات آٹھ ماہ قبل مخالفوں نے ہوائی اڑائی کہ ملک دیوالیہ ہو رہا ہے، حکمرانوںنے کہا نہیں کچھ نہیں ہو رہا، پھر کسی نے آواز لگائی ملک دیوالیہ ہو چکا ہے ، جواب آیا ابھی نہیں ہوا۔ پھر حکمرانوںمیں سے ہی کسی نے کہا ہاں ہو رہا ہے اور کسی نے کہا نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ ہوگا نہیں ہوگا نہیں ہوگا کی گردان سنتے سنتے عوام جب دیوالیہ پن سے قدرے مانوس ہوگئے ہیں تو استاد سیاستدان محترم زرداری صاحب نے لوہا گرم دیکھ ضرب لگائی ہے کہ ’’کیا ہوگا اگر پاکستان دیوالیہ ہوگیا تو ؟‘‘ ساتھ ہی انہوں نے چند ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں بھی دے ڈالیں کہ وہ بھی تو دیوالیہ ہوئے تھے۔ گویا عوام کیلئے یہ خوش اور آئند تسلی ہے کہ خاطر جمع رکھیں اگر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہونا ہے تو پھر ہمیں بھی ڈیفالٹ کی بھٹی میں تپ کر کندن بننا ہوگا۔ اس تسلی کے بعد اگر خدانخواستہ پاکستان ڈیفالٹ کر بھی جاتا ہے تو بقول زرداری صاحب کوئی بات نہیں۔ غم کا پہاڑ اگر اچانک آ گرے تو سنبھلنا مشکل ہوتا ہے اور اگر آہستہ آہستہ گرے تو مزاحمت کے ساتھ ساتھ قبولیت کا رجحان بھی فروغ پانا شروع ہوجاتا ہے۔ ساتھ اگر تسلی دینے والے فوائد پر بھی روشنی ڈالتے رہیں تو سونے پہ سہاگہ۔

آج کل مہنگائی کا پہاڑ بھی یک دم نہیں گرایا جاتا پہلے ذہن سازی کی جاتی ہے، تیاری کی جاتی ہے اور پھر اعلان کیا جاتا ہے۔ اس اعلان سے پہلے قیمتوں میں اضافے کے فوائد بیان کئے جاتے ہیں۔ دوررس نتائج کی جھنڈی دکھائی جاتی ہے اور پھر ملک کے ’’وسیع تر مفاد ‘‘ میں قیمتوں میں اضافے کا اعلان کر دیا جاتاہے۔ آج کل ان فیصلوںکیلئے ایک اور خوش کن اصطلاح ’’مشکل فیصلے ‘‘ ایجاد کی گئی ہے جس کی تشریح یہ ہے کہ آج اگر مشکل ہے تو کل آسانی ضرور آئے گی ۔ قارئین کرام اس ساری تمہید اور گفتگو کو اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے شکنجے ، حکمرانوں کے مشکل فیصلے ، غم، خوف ، وعدے ، سہانے خواب ، لڑائی جھگڑے قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی،یہ سب کچھ یوں ہی چلتا رہےگا۔ کچھ ٹھیک ہونے کی امید نہیں ، کرے کوئی بھرے کوئی کا محاورہ سچ سمجھتے ہوئے بس خود کو ہی ٹھیک کرنا پڑے گا۔ جس طرح ایک دوست کی طرف دوست مہمان آیا۔ چائے پیش کی گئی تو وہ پریشانی کے عالم میں چائے کو گھورتا رہا، پینا شروع نہ کی۔ دوست نے ماجرا پوچھا تو کہنے لگا یار ملکی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ بہت پریشانی ہے۔ دوست نے جواباً دریافت کیا یہ حالات تم نے خراب کئے ہیں؟ کہنے لگے نہیں! تم ٹھیک کر سکتے ہو ؟ اس نے پھر کہا نہیں!میزبان نے نتیجہ خیز انداز میں کہا کہ جب حالات تم نے خراب نہیں کئے اور نہ تم ٹھیک کر سکتے ہو تو پھر آرام سے چائے پیو۔ جی تو جناب حالات کیسے بھی ہوں زندگی تو جیتے رہنے کا نام ہے۔ اپنی بساط کے مطابق حالات کی درستی میں اپنا حصہ ضرور ڈالنا چاہئے تاہم امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہئے، جس طرح کورونا کے دنوں میں ہم آفت کو روک تو نہ سکے تھے تاہم احتیاطی تدابیر کی بدولت زندگی کو رواں دواں رکھنے میں ضرور کامیاب رہے۔ آج کل کی مہنگائی کو بھی ایک آفت ہی سمجھیں اس سے بچنا غریب اور متوسط طبقے کے بس میں تو نہیں ہے بس احتیاط ہی واحد علاج ہے اور احتیاط کے چند نسخے یہ ہیں کہ غیر ضروری اخراجات پر قابو پایا جائے۔ اگر ہم اپنے رہن سہن اور طور اطوار کا تنقیدی جائزہ لیں تو ہمیں مصنوعی بود و باش کے خدوخال واضح نظر آئیں گے۔ جن ملکوں سے قرضے پکڑتے ہیں انہی کے برگر پیزے اور کافیاں کھانے پینے پر کروڑوں روپے روزانہ کی بنیاد پر خرچ کر ڈالتے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں لاہور میں ایک کینیڈین کافی شاپ کا افتتاح ہوا تو پہلے ہی دن تمام ممالک کے مقابلے میں یہاں ریکارڈ سیل ہوئی۔ اگرچہ ہماری اشرافیہ ہی اس عیاشی کی ذمہ دار ہے مگر قرض دینے والے اسے پاکستانی عوام پر قیاس کرتے ہیں اور یوں اپنی شرائط سخت تر کرتے جا رہے ہیں۔ یہ جائزہ لینا مشکل نہیں ہے کہ ہماری خوراک ،لباس اور گھر میں کون سی ایسی اشیا ہیں جن کے بغیر بھی زندگی ممکن ہے۔ اسی طرح اگر ہم برانڈز وغیرہ کے مصنوعی اسٹیٹس سے نکل آئیں تو بچائی گئی رقم اشیائے خورونوش پر خرچ کی جاسکتی ہے۔ بیکری آئٹمز سے بچنے کا دوہرا فائدہ ہے صحت بھی محفوظ اور سرمایہ بھی محفوظ ! مہمانوں کی تواضع کیلئے گھریلو مشروبات پیش کئے جائیں۔ تحائف میں کیک پیسٹری کی بجائے پھل دیے جائیں۔ تمام معاملات میں شو بازی سے بچنا ازحد ضروری ہے۔ یہ بھی مہنگائی میں اضافے کا ایک بڑا سبب ہے۔ سادگی اور کفایت شعاری نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ ایک غریب مزدور مہنگائی کا رونا بھی روتا ہے اور روزانہ انرجی ڈرنک بھی پیتا ہے یوں صحت اور روپیہ دونوں برباد کرتا ہے۔ اشرافیہ یا حکمراں اگر ہماراخیال نہیں کرتے تو کم سے کم ہم تو اپنا خیال کریں۔ مہنگائی کا رونا رونے یا آ نکھیں بند کر لینے سے خطرہ نہیں ٹلے گا اس خطرے سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے اور لڑنے کا طریقہ یہی ہے جو میں نے اوپر عرض کیا ہے۔بشکریہ جنگ نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …