ہفتہ , 20 اپریل 2024

شہباز شریف کا ہدف کیا ہے؟

(سید مجاہد علی)

اٹارنی جنرل شہزاد الہیٰ کا استعفی شہباز شریف حکومت کے مسائل میں تازہ ترین اضافہ ہے۔ اس سے پہلے بار بار اعلانات کے باوجود عالمی مالیاتی فند سے معاہدہ میں تاخیر سے حکومت اور ملک کی مالی مشکلات میں ناقابل یقین اضافہ ہوا ہے۔ بعض تبصرہ نگاروں کے نزدیک اب یہ معاہدہ خطرے کا شکار ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک ایک طویل عرصے تک بے یقینی معاشی پریشانیوں میں مبتلا رہے گا۔ اسے نقد امداد فراہم کرنے والے ممالک کی بعض مشکل شرائط پر بھی عمل کرنا ہو گا۔

ملک میں افراط زر کی شرح 45 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔ عوام پر پڑنے والے اس دباؤ کی سیاسی مشکلات سے بچنے کے لئے غریب لوگوں کو رعایتی نرخوں پر پٹرول دینے اور سستا آٹا مہیا کرنے جیسے منصوبوں کا اعلان کیا جا رہا ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے جب حکومت کا خزانہ خالی ہو گا اور آمدنی کے ذرائع محدود ہوں گے تو اعلانات کے باوجود ایسے منصوبوں پر عمل درآمد کیوں کر ممکن ہو گا؟ فی الوقت نہ تو یہ سوال میڈیا کی طرف سے اٹھایا جا رہا ہے اور نہ ہی حکومتی ترجمانوں کو اس پہلو پر غور کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ کیوں کہ انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں عمران خان اور تحریک انصاف پر گولہ باری کے لیے مختص کر رکھی ہیں۔ بدقسمتی سے اب یہ سیاسی لڑائی محض زبانی الزامات اور کردار کشی کی مہم تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فریقین عملی طور سے برسر پیکار ہیں۔ زمان پارک لاہور اور جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں ہونے والے تصادم، اس نئی صورت حال کی تصویر کشی کرتے ہیں۔

دوسری طرف وفاق میں شہباز شریف کی وفاقی حکومت پنجاب کی نگران حکومت کے ساتھ مل کر تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف اسے کسی سیاسی پارٹی کے خلاف بدترین کریک ڈاؤن قرار دے رہے ہیں اور انہوں نے انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور غیر ملکی سفیروں کو اس بارے میں مطلع کرنے کی مہم بھی شروع کی ہے۔ یہی صورت حال آج لاہور کے مینار پاکستان گراؤنڈ میں تحریک انصاف کی ریلی کو ناکام بنانے کے لیے دیکھنے میں آ رہی ہے۔ نگران حکومت نے تحریک انصاف کو آج رات ریلی منعقد کرنے کی اجازت دی ہے لیکن اسے عملی طور سے ناکام بنانے کے لئے لاہور شہر کو کنٹینروں سے بند قلعہ بند کر دیا گیا ہے۔ شہریوں کو نقل و حرکت میں شدید مشکلات کا سامنا ہے لیکن عمران خان نے اعلان کیا ہے کہ کارکن تمام تر مشکلات کے باوجود ہر قیمت پر مینار پاکستان پہنچیں کیوں کہ یہ ان کی آزادی اور انصاف کی لڑائی ہے۔

دوسری طرف پنجاب کے نگراں وزیر اطلاعات عامر میر نے تمام راستے بند کرنے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ تھریٹ الرٹ ہے۔ دہشت گرد جلسے پر تعینات پولیس اہل کاروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ناکوں کا مقصد عوام کو تکلیف دینا نہیں بلکہ تحفظ دینا ہے۔ ایک ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ’عمران خان نے واویلا مچایا ہے کہ جان کو خطرہ ہے اس لیے زیادہ سکیورٹی دی ہے‘ ۔ لیکن جلسہ کے انعقاد سے چند گھنٹے پہلے صوبائی حکومت نے الرٹ جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ مینار پاکستان پر تحریک انصاف کے جلسہ میں خود کش حملہ کا خطرہ ہے۔ یہ حملہ آور خاص طور سے سکیورٹی کارکنوں کو ٹارگٹ کر سکتے ہیں۔ اس قسم کے اعلان کا ایک مقصد جلسہ میں شرکت کرنے والے لوگوں کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف اور حکومت کے درمیان اس وقت تناؤ کی جو صورت موجود ہے، اس میں راستے روکنے اور ناکے قائم کرنے سے تصادم کا اندیشہ بھی بڑھ گیا ہے۔ ایسے میں ہر ہوشمند انسان کی یہی خواہش و تمنا ہو گی کہ یہ رات امن و سکون سے گزر جائے اور تحریک انصاف کی ریلی کے دوران کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو۔

عمران خان کا دعویٰ ہے کہ آج مینار پاکستان پر منعقد ہونے والا جلسہ ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دے گا اور عوام بڑی تعداد میں شرکت کر کے موجودہ حکومت اور اس کے فسطائی ہتھکنڈوں کو مسترد کر دیں گے۔ جلسہ کے حجم اور اس میں شرکا کی تعداد سے قطع نظر یہ بات تو جلسہ منعقد ہونے سے پہلے ہی کہی جا سکتی ہے کہ اس بارے میں دونوں طرف سے متضاد دعوے سامنے آئیں گے۔ اس جلسہ اور وہاں کی جانے والی تقریروں سے ملک میں جاری سیاسی تصادم میں کمی کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتہ کے دوران عمران خان نے کسی ایسی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کا عندیہ دیا تھا جس میں انتخابات کے لیے حتمی تاریخ پر اتفاق رائے پیدا ہو سکے۔

وزیر اعظم بھی کل جماعتی کانفرنس منعقد کرنے کی بات کرتے رہے ہیں بلکہ ایک موقع پر تو اس کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان بھی کر دیا گیا تھا۔ تاہم حکومت کے دیگر متعدد اعلانات کی طرح اس اعلان پر بھی عمل نہیں ہوسکا۔ اس دوران تحریک انصاف نے حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیش کش قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیر اعظم جگہ اور وقت کا اعلان کریں، تحریک انصاف شرکت کے لیے تیار ہے۔ تاہم شہباز حکومت ایسی کسی کانفرنس میں ملک کے معاشی اور سکیورٹی مسائل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی بات کرتی ہے جبکہ عمران خان کا مطالبہ ہے کہ سب سے پہلے انتخابات کے شیڈول کا اعلان کیا جائے۔ وہ اس ایک نکتہ کے سوا موجودہ حکومت کے ساتھ کسی معاملہ پر بات کرنے یا اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس لئے مستقبل قریب میں ایسی کسی پیش رفت کا امکان نہیں ہے جس میں متحارب سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر بداعتمادی کی فضا ختم کرسکیں۔

پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کے اعلان کے بعد سے صورت حال مزید پیچیدہ اور کشیدہ ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے درحقیقت حکومت کو ہی مورد الزام ٹھہرایا ہے کہ اس کی طرف سے سکیورٹی اور مالی وسائل فراہم کرنے سے انکار کیا گیا ہے جس کی وجہ سے انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ صدر مملکت نے گزشتہ روز وزیر اعظم کے نام اپنے خط میں اسی طرف اشارہ کیا تھا اور وزیر اعظم کو توہین عدالت اور آئین شکنی جیسے الزامات سے بچنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد کے لیے ضروری وسائل اور اعانت فراہم کرنے کو یقینی بنائیں کیوں کہ یہ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے۔

اب تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کے اعلان کے خلاف سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی پٹیشن دائر کی ہے۔ حالانکہ اگر سپریم کورٹ کے کسی حکم کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو عدالت خود اس کا نوٹس لے سکتی ہے۔ سیاسی پارٹی کے طور پر تحریک انصاف کو انتخابات کے انعقاد کے لئے سپریم کورٹ سے امداد کی درخواست کرنی چاہیے تھی۔ لیکن تحریک انصاف بھی شاید ایک تیر سے دو شکار کرنے کے شوق میں یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ اس پٹیشن کے نتیجہ میں سپریم کورٹ اگر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے تو ان سے جان چھڑائی جا سکے گی۔ پارٹی موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو مسلم لیگ (ن) کا ایجنٹ قرار دیتی ہے۔ حالانکہ ان کی تقرری عمران خان نے ہی وزیر اعظم کے طور پر کی تھی۔

وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کے اعلان سے لاتعلقی کا اعلان کرنے کی بجائے اسے ایک خوش آئین اقدام قرار دیا تھا۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ اس طرح ملک میں بڑے آئینی بحران سے بچ گیا ہے۔ البتہ آج اٹارنی جنرل کے استعفیٰ کی خبر سامنے آنے سے یہ واضح ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن کے اعلان کی سرپرستی کے ذریعے شہباز شریف کی حکومت نے اپنی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ قیاس ہے کہ اٹارنی جنرل شہزاد الہیٰ نے اسی سوال پر حکومتی پالیسی سے اختلاف کی وجہ سے ہی استعفیٰ دیا ہے کیوں کہ وہ اس فیصلہ کا دفاع کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ حکومت انتخابات کے انعقاد کے سوال پر سپریم کورٹ میں حتمی لڑائی کی تیاری کر رہی ہے لیکن انتخابات کے انعقاد کے سوال پر کوئی واضح حکمت عملی اختیار کرنے پر تیار نہیں ہے۔ موجودہ صورت حال میں حکومت جس رفتار سے عمران خان اور تحریک انصاف کے قائدین کے خلاف مقدمات قائم کر رہی ہے، عدالتیں اسی رفتار سے حفاظتی ضمانت دے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواہش و کوشش کے باوجود حکومت ابھی تک عمران خان یا کسی قابل ذکر پارٹی لیڈر کو گرفتار نہیں کر سکی۔ یا اگر بعض لیڈروں کو پکڑا گیا تو تھوڑی دیر بعد ہی عدالتوں نے انہیں رہا کر دیا۔

قومی احتساب بیورو کے نئے سربراہ کی تقرری سے پہلے تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں واپس آنے کی کوشش کی تھی اور شاہ محمود قریشی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا تاکہ اس اہم تقرری میں وزیر اعظم پارٹی کی رائے سننے پر مجبور ہوں۔ لیکن قومی اسمبلی کے اسپیکر راجہ پرویز اشرف نے اس درخواست کو قابل غور نہیں سمجھا۔ پارٹی کے درجنوں لیڈر اپنی رکنیت ختم کرنے کے خلاف عدالتوں سے ریلیف لے چکے ہیں۔ اس صورت میں اگر تحریک انصاف کو اسمبلی میں واپس آنے کا موقع مل جاتا ہے تو وہ انتخابات کے انعقاد اور مرکز میں نئی نگران حکومت کی تقرری کی فیصلہ سازی میں شریک ہوسکتے ہیں۔ تاہم شہباز حکومت تحریک انصاف کو یہ موقع دینے پر بھی تیار نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ راجہ ریاض کی صورت میں انہیں بہتر معاون ملا ہوا ہے۔ اب وہ تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی معاملات طے کرنے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔

اس پس منظر میں یہ بدستور غیر واضح ہے کہ شہباز شریف کے سیاسی اہداف کیا ہیں۔ عام فہم میں تو یہ بات بھی نہیں آتی کہ ان کی حکومت کون سے معاشی یا انتظامی مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے۔ حکومت میں ایک سال کے دوران شہباز شریف نے ناکامیوں کی ایک نئی داستان رقم کی ہے البتہ وزیر اعظم بننے کا شوق ضرور پورا کر لیا ہے لیکن اس کی قیمت پاکستانی قوم ادا کر رہی ہے۔ شہباز شریف بظاہر بے دست و پا اور کمزور وزیر اعظم ہیں۔ وہ یا تو لندن میں بیٹھے اپنے بھائی کے کھیل کا حصہ ہیں یا بڑے گھر والوں کے مطالبات پورے کر رہے ہیں جن کی بچھائی بساط اب الٹا ان ہی کے گلے کا ہار بن رہی ہے۔

شہباز شریف کے لیے باعزت راستہ یہی ہو گا کہ وہ دوسروں کے کھیل میں مہرہ نہ بنیں۔ نواز شریف اگر عمران خان سے خود پر ہونے والے مظالم کا حساب چاہتے ہیں تو وہ حوصلہ کرے وطن واپس آئیں اور قانونی اور سیاسی جنگ لڑیں۔ اسی طرح اگر اسٹبلشمنٹ اپنے ناکام ’عمران منصوبے‘ کو سمیٹنا چاہتی ہے تو شہباز شریف اس میں ’پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘ بننے کی بجائے، اپنی شہرت اور نیک نامی پر توجہ دیں۔بشکریہ ہم سب نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …