جمعرات , 8 جون 2023

یہودی آباد کاروں کی جنین کی تاریخی پہاڑی پردوبارہ قبضے کی سازش

فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے شمالی شہر جنین میں ایک تاریخی مقامی’ٹیلہ ترسلہ‘ یا ترسلہ پہاڑی مشہور ہے۔ یہ مقام جبع کےجنوب میں واقع ہے جہاں حالیہ عرصے کےدوران یہودی آباد کاروں کی بڑی تعداد کو باربار دراندازی کرتے اور دھاوے بولتے دیکھا گیا۔ یہاں ایک مسجد بھی ہے جہاں نماز کے لیے آنےوالے فلسطینی نوجوانوں اوران آباد کاروں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں۔

اس علاقے کو روزانہ حملوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، کیونکہ قابض ریاست نے اس پر1967ء کے بعد اس پر ایک بستی اور ایک فوجی چوکی قائم کی تھی۔ پھر سنہ2005ء میں اسے انتفاضہ الاقصیٰ کے دوران فلسطینی مزاحمت کی طرف سے متعدد ٹارگٹ آپریشنز کا نشانہ بنانے کے بعد خالی کر دیا تھا۔

اس علاقے میں رہنے والے شہریوں کو ایک طرف قابض افواج کے حملوں کا سامنا ہے اور دوسری طرف آباد کاروں کی جانب سے اس پر قبضہ کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے سنہ 2005ء کے بعد سے فلسطینی اتھارٹی کی عدم توجہی کا شکار رہنے کی وجہ سےیہ جگہ ایک بار پھر غاصب صہیونیوں کے لیے تر نوالہ ثابت ہو رہی ہے۔

ترسلا پہاڑی

یہ ایک فلسطینی تاریخی پہاڑی ہے جو جنین شہر کے جنوب میں واقع مرکزی سڑک پر واقع ہے جو جبع شہر کے قریب جنین اور نابلس کے گورنروں کو ملاتی ہے۔ اس کا رقبہ تقریباً 60 دونم ہے اور یہ 1967 سے پہلے اردنی فوج کے کیمپ کے طور پراستعمال کی گئی تھی۔

سنہ1967 کے بعد اسرائیلی قابض ریاست نے قابض فوج کے لیے ایک بستی اور ایک فوجی چوکی قائم کی۔ پھر 2005 میں اسے خالی کرا لیا، جب اسے الاقصیٰ انتفاضہ کے دوران فلسطینی مزاحمت کی جانب سے متعدد ٹارگٹ آپریشنز کا نشانہ بنایا گیا۔

گذشتہ برسوں کے دوران ترسلہ المخالہ کی بستی اس کے قریب رہنے والے فلسطینیوں کے لیے زیارت گاہ بن گئی ہے، جہاں وہ اپنا وقت انفرادی اور غیر منظم طور پر ٹہلتے ہوئے گزارتے ہیں، جب کہ آباد کاروں کے گروہ اس کی طرف واپس جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

حال ہی میں آباد کاروں نے اس جگہ پر واپسی اور بستی کی تعمیر نو کے لیے راستہ ہموار کرنا شروع کیا۔ چنانچہ مسجد میں نماز کی ادائیگی کا مرحلہ تقریباً دو سال قبل آیا تاکہ آباد کاروں کی اس میں واپسی اور دوبارہ آباد ہونے کی کوششوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔

وجہ تسمیہ

محقق خالد ابو علی نے "فلسطین انفارمیشن سینٹر” کو بتایا کہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ "ترسلہ” کا نام "خدا کی ڈھال” سے آیا ہے اور بہت سے لوگوں نے بتایا کہ یہ صلاح الدین ایوبی کی فوج کی طرف سے بنایا گیا ایک محافظ خانہ تھا۔ اور انہوں نے اسے اس نام سے پکارا۔

فلسطینی محقق نے مزید کہا کہ "ترسلہ میں گھومنے کے دوران میں نے ایک بہت بڑی پرانی عمارت دیکھی، جس کے کچھ حصے تباہ اور توڑ پھوڑ کا شکار تھے۔ اسے اب بھی المقاطعہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور وہاں ایک پرانی مسجد اور اس کے مینار کے کچھ حصے اور اس کی کچھ دیواریں تباہ شدہ حال میں موجود ہیں کیونکہ آباد کاروں نے اسے بے دخلی سے پہلے ایک عبادت گاہ میں تبدیل کر دیا تھا۔”

ترسلہ تاریخ کی روشنی میں

ابو علی بتاتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب سے 2005 میں جنین سے چار بستیوں کے ساتھ اسے خالی کرنے سے پہلے اسے سیکٹر "C” میں شامل کرنے کے اصرار کے باوجود اردن کی عرب فوج کی وہاں کی مسجد کی کہانی اب بھی عرب اور فلسطینیوں کی ثابت قدمی اور اس جگہ کی بقا کی نمائندگی کرتی ہے جسے اب بھی آباد کاروں اور نوادرات کے چوروں نے نشانہ بنایا ہے۔

ترسالہ کا مقام ایک تزویراتی تاریخی پہاڑی پر ہے جس سے جنین کے جنوب میں آبادی کے مراکز جیسے جبع اور صانور کوصارف طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ نابلس کو جنین سے ملانے والی مرکزی سڑک بھی یہاں سے صاف دکھائی دیتی ہے۔ یہ پہاڑی پہلے اسلامی دور میں اہم تاریخی واقعات کا مشاہدہ کرچکی ہے۔ یہاں تک کہ یہ صلیبی دور کی ایک یادگار ہے۔

برطانوی استبداد نےاس میں اپنی افواج کے لیے ایک کیمپ اور ایک حراستی مرکز قائم کیا اور اس کے انخلاء کے بعد اردنی فوج نے اس جگہ پر ایک مرکز قائم کیا اور ایک مسجد تعمیر کی جس کے کھنڈرات ابھی تک کھڑے ہیں۔ یہاں تک کہ قابض افواج نے اس پر قبضہ کر لیا۔ 1978 میں اسے اپنے فوجیوں کے لیے ایک کیمپ میں تبدیل کر دیا اور اس جگہ پر ایک چھوٹی سی بستی قائم کی۔ سنہ 2005ء میں انہوں نے اسے خالی کر دیا اور علاقہ ویران ہے اور اس پر فلسطینی اتھارٹی کا کوئی منصوبہ نہیں دیکھا گیا۔بشکریہ مرکز اطلاعات فلسطین

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

 

یہ بھی دیکھیں

ایران میں انقلاب کے بعد علمی و تحقیقی پیشرفت

(تحریر: سید اسد عباس) انقلاب اسلامی ایران کو آئے ہوئے تقریباً 43 برس ہوچکے ہیں۔ …