بدھ , 24 اپریل 2024

مفت آٹا، مفت تذلیل، مفت موت

(نسیم شاہد)

وزیراعظم شہباز شریف بڑے فخر سے کہہ رہے ہیں ہم نے آٹا سستا دینے کی بجائے مفت دیا ہے جبکہ ہمارے ایک دوست ممتاز سماجی کارکن عبدالمحسن شاہین نے یہ دلچسپ تبصرہ کیا ہے، ”مفت آٹا، مفت تذلیل اور مفت موت“ جس وقت یہ سطور لکھ رہا ہوں کئی شہروں میں بھگدڑ مچنے اور لوگوں کے زخمی ہونے کی خبریں آ چکی ہے۔وزیراعظم شہباز شریف کو کبھی ایسا منظر نہیں دکھایا جائے گا جس دن وہ ملتان آئے، سپورٹس گراؤنڈ کو پولیس نے اپنے گھیرے میں لے کر عوام سے ”پاک“ کر دیا تھا وہ عوام جو یہاں روزانہ آٹا لینے کے لئے ہزاروں کی تعداد میں آتے تھے جن میں خواتین کی تعداد زیادہ ہوتی تھی،اُس دن سپورٹس گراؤنڈ میں مفت آٹا لینے والوں کے لئے کرسیاں بچھا دی گئی تھیں، کاؤنٹرز کی تعداد میں اضافہ کر دیا گیا تھا، گویا آٹے کی تقسیم کا وی وی آئی پی منظر تھا ایسے دِل خوش کن انتظامات دیکھ کر وزیراعظم کا دِل باغ باغ ہو گیا۔

انہوں نے کمشنر ملتان کو دِل کھول کر شاباش دی اور باقی اضلاع کی انتظامیہ کو بھی کہہ دیا کہ وہ ملتان کی تقلید کریں۔ہائے یہ انتظامیہ بھی کیا چیز ہوتی ہے، بڑے سے بڑے اور ہوشیار سے ہوشیار حکمران کو ایسے بیوقوف بناتی ہے کہ اُسے پتہ بھی نہیں لگنے دیتی۔اس سپورٹس گراؤنڈ کا روزانہ دکھائی دینے والا منظر اتنا دردناک ہے کہ لوگ جھولیاں اٹھا اٹھا کر آٹا تقسیم کرنے کا نظام بنانے والوں کو بدعائیں دیتے ہیں۔ذلت کا اس سے بھیانک منظر اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ایک دس کلو آٹے کا تھیلہ لینے کے لئے اس مملکت ِ خداداد کے باشندے اور خاص کر عورتیں اس طرح ذلیل و خوار ہوتے ہوں۔قوم کو خود دار بنانے کی بجائے بھکاری بنانے کی سکیم بڑی کامیابی سے جاری ہے۔

کیا یہ ملک اسی طرح چلتا رہے گا۔ شہباز شریف کہتے ہیں پنجاب میں دس کروڑ عوام کو مفت آٹا فراہم کیا جا رہا ہے تو ان دس کروڑ کو اگر بھکاری سمجھ لیا جائے تو پنجاب میں باقی بچتا ہی کیا ہے۔ نجانے حکومت کو یہ خیال کیسے آیا کہ ایک بار مفت آٹے دے کر پھر آٹے کی قیمت میں سو فیصد اضافہ کر دیا جائے،تالیاں بھی بج جائیں گی اور مفت آٹے کی قیمت بھی وصول ہو جائے گی،یعنی ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے، والی صورت حال ہو گی،خیر اس قوم کے ساتھ اور بہت سے ڈرامے ہوتے ہیں ایک ڈرامہ یہ بھی سہی، مگر اس کے لئے جوتے مانے والے تو زیادہ رکھنے تھے تاکہ ہڑبونگ نہ مچتی اور سب کی باری آسانی سے آ جاتی۔کوئی ایسا نظام تو بنانا تھا جس کے ہوتے یہ سب کچھ نہ ہوتا جو اِس وقت وقت شہر شہر دیکھنے میں آ رہا ہے،کہیں لوگ مر رہے ہیں، کہیں صبح سے شام تک ذلیل ہو رہے ہیں، کہیں پولیس کے لاٹھی چارج کی زد میں ہیں، غرض سارا منظر ہی شرمناک ہے۔

53ارب روپے کی سبسڈی سے یہ مقت آٹا تقسیم کیا جا رہا ہے۔ آٹے کے بارے میں بھی خود فلور ملز آگاہ کر رہی ہیں کہ غیر ملکی گندم ناقص ہے، اس میں مٹی اور گندگی کی آمیزش ہے چونکہ یہ آٹا مفت مل رہا ہے اس لئے کوئی لینے والا اعتراض کرنے کے قابل بھی نہیں لیکن صاحبو! یہ انسانی صحت کا معاملہ تو ہے اگر شکایات سامنے آئی ہیں تو اُن کا نوٹس لیا جانا چاہئے مگر نہیں یہ تو اس وقت کی ضرورت ہی نہیں، ضرورت تو صرف یہ ہے کہ مفت آٹا تقسیم کیا جائے۔53 ارب روپے بہت ہوتے ہیں اگر یہی رقم مفت آٹے کی بجائے آٹا کا تھیلہ سستا کرنے پر صرف کی جاتی اور آٹا دکانوں پر فراہم کیا جاتا تو آج یہ مناظر دیکھنے کو نہ ملتے نہ ہی اس طرح جانیں ضائع ہوتیں۔ یہ خبریں دنیا بھر کا میڈیا بھی دکھا رہا ہے،ہزاروں افراد آٹے کے لئے سب کام چھوڑ کر ایک جگہ موجود ہوتے ہیں،اُس ملک میں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ دنیا کا چھٹا بڑا زرعی ملک ہے، زرعی ملک میں صرف آٹے کے لئے عوام کی یہ خجل خواری ہم سب کے لئے لمحہ ئ فکریہ ہے، مگر ہم تو اسے ایک فخریہ کارنامہ بنا کے پیش کر رہے ہیں اسے انقلابی پیکیج قرار دے رہے ہیں ایسا انقلابی پیکیج جس نے قوم کو صرف پیٹ کا ایندھن بھرنے کے لئے قطاروں میں کھڑا کر دیا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اچھا کام بھی اچھے انداز سے نہیں کر سکتے، کار پردازوں کو جب معلوم تھا کہ مفت آٹے کی تقسیم کا فیصلہ کر کے وہ ایک بہت بڑا رسک لے رہے ہیں توانہوں نے اس پر سوچ بچار کیوں نہیں کی،اس کے لئے فول پروف طریقہ کار کیوں وضع نہیں کیا جس شہر میں لاکھوں تھیلے دینے ہوں وہاں چند سنٹرز بنا دینے سے تقسیم کا عمل کیسے سہل بنایا جا سکتا ہے۔نادرا سے اگر مدد لی گی تھی تو یونین کونسل کی سطح پر انتظامات کئے جاتے اور ایک یونین کونسل کے افراد ہی اُس سنٹرز سے آٹے کا تھیلا لے سکتے جب آپ سارے شہر کے مرد و زن کو ایک ہی جگہ بلا لیں گے تو ہڑبونگ تو مچے گی اس کے نتیجے میں اموات بھی ہوں گی اور کئی کچل کر زخمی بھی ہوں گے۔

چلیں جب ہم کھلے دِل سے یہ مان لیتے ہیں کہ حکومت کی یہ سکیم انقلابی ہے لیکن کیا اس پر عملدرآمد کا نظام بھی انقلابی بنایا گیا ہے؟ وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کتنے شہروں اور کتنے سنٹروں میں جا سکتے ہیں؟ پھر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ انہیں انتظامیہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت ایسے مرکز پر لے جاتی ہے جہاں انتظامات خصوصی طور پر وی آئی پی بنائے گئے ہوتے ہیں۔حکمرانوں کے پاس یہ سہولت ہے نہیں کہ وہ کسی جگہ کا اچانک معائنہ کر سکیں، انہیں تو سکیورٹی کے نام پر انتظامیہ کے اشاروں پر چلنا ہوتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ارباب اختیار ٹی وی چینلز نہیں دیکھتے، کیا اخبارات نہیں پڑھتے۔ وزیراعظم شہباز شریف ملتان کے جس سپورٹس گراؤنڈ میں انتظامات پر شاباس دے کر گئے ہیں کیا اُس کے بارے میں بہ خیریں نہیں آ چکیں کہ وہاں عورتوں اور ضعیف مردوں کی کتنی تذلیل ہوتی ہے۔اب بھی وقت ہے کہ اس سلسلے کو روک کر کوئی متبادل نظام وضع کیا جائے۔تقسیم کے طریقہ کار میں تبدیلی لائی جائے۔یہ طریقہ مکمل طور پر فلاپ ہو چکا ہے۔اس میں جسے آٹا مل جاتا ہے وہ بھی حکومت کو دعا نہیں دیتا اور جنہیں نہیں ملتا وہ تو بددعائیں دیتے ہی ہیں۔ اب تک اس عمل میں آٹھ جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور اب یہ خونی سکیم بنتی جا رہی ہے۔کیا اسی انداز کی کوئی سکیم فلاحی کہلا سکتی ہے؟بشکریہ ڈیلی پاکستان

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

بائیڈن کے حماس سے اپنی شکست تسلیم کرنے کے چار اہم نتائج

ایک علاقائی اخبار نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو مختلف جہتوں سے حماس کے خلاف امریکہ …