ہفتہ , 20 اپریل 2024

آنے والا ’سیاسی طوفان‘

(مظہر عباس)

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم بڑی تیزی سے ایک ایسے ’سیاسی طوفان‘ کی جانب بڑھ رہے ہیں جو شاید سب کو ہی بہا کرلے جائے۔ سیاست میں الیکشن اور وہ بھی صاف وشفاف، ایک جمہوری رویہ ہوتا ہے منتقلی اقتدار کا اور وہ بھی پرامن اندازمیں۔ہماری تاریخ میں یہ عمل صرف دو مرتبہ ہوا 2013 اور 2018 میں۔ کیا ہی اچھا ہوتا اس سال ہم اس نئی روایت کو آگے بڑھاتے مگر ہم تو کسی اور ہی سمت نکل گئے ہیں جہاں ریاست کے دو بڑے ستون بظاہر نہ صرف تقسیم بلکہ متصادم نظر آتے ہیں اور جب لڑائی ہوتی ہے تو نقصان صرف لڑنے والوں کا ہی نہیں تماشہ دیکھنے والوں کا بھی ہوتا ہے۔

سیاست نام ہے برداشت کا، رواداری کا مگر یہ تمام باتیں آہستہ آہستہ ناپید ہوتی جارہی ہیں ایک انجانا سا’خوف‘ حکمراں طبقے کو لاحق نظر آتا ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے الیکشن عام انتخابات سے پہلے ہوگئے تو عمران خان کے’ سیلاب‘ میں وہ کہیں بہہ نہ جائیں شاید انہیں اپنے آپ پر بھی یقین نہیں رہا۔ اب ایک فریق جس کی قیادت خان صاحب کررہے اس نے بظاہر عدلیہ سے امیدیں باندھ لی ہیں اور دوسرا جو 14جماعتی حکمراں اتحاد ہے نواز شریف، مریم نواز ،آصف زرداری، مولانا فضل الرحمان، وہ طاقتور حلقوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ا لیکشن کمیشن آف پاکستان کا اچانک پنجاب میں الیکشن 8 اکتوبر 2023 تک ملتوی کرنا، وزارت دفاع اور وزارت خزانہ کی رپورٹس کی روشنی میں کہ نہ پیسے دے سکتے ہیں نہ امن وامان کی صورتحال اطمینان بخش ہے، ہم ایک ایسی روایت کو جنم دے رہے ہیں جو آئندہ کسی بھی حکمراں کو الیکشن ملتوی کرنے کا جواز مہیا کرتی رہے گی۔

وہ غلطی جو 9 اور 10 اپریل، 2022 کی رات کی گئی عدم اعتماد کی تحریک لاکر، جنرل باجوہ اور عمران کی لڑائی کے عوض اس نے مسلم لیگ (ن) کو خاص طور پر اور پی ڈی ایم کو مجموعی طور پر شدید سیاسی نقصان پہنچایا ہے اور اب الیکشن کا التوا اور یہ خدشات کے شاید یہ سال انتخابات کا ہو ہی نہیں ان کو مزید نقصان پہنچا سکتا ہے۔

عمران کی سیاست سے اختلاف کیا جاسکتا ہے اور اس وقت جو لوگ بڑی تیزی سے اس کے اردگرد جمع ہو رہے ہیں اس نے مجھے جہانگیر ترین، علیم خان اور شاہ محمود قریشی کے درمیان شدید اختلافات کی یا ددلا دی کہ کہیں خان صاحب ایک بار پھر عثمان بزدار یا وسیم اکرم پلس والی غلطی تو دہرانے نہیں جارہے مگر پچھلے 11ماہ سے سڑکوں پر صرف تحریک انصاف ہی کیوں نظر آرہی ہے۔ حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں نے اپنی سیاست صرف حکومت کرنے تک کیوں محدود کردی، سیاسی میدان کیوں کھلا چھوڑ دیا۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی پارٹی کے لیڈر بیچارے تاریخیں دیتے دیتے تھک گئے مگر مجال ہے لندن سے واپسی کی تاریخ کا اعلان ہوا ہو۔ ’ بس اب آئے اور جب آئے میں ہی‘ صرف وقت ہی نہیں پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ اپنے ہاتھ سے نکال دیا۔

سپریم کورٹ الیکشن کے حوالے سے کیا فیصلہ دیتی ہے اس کا انتظار ہے مگر انتخابات کرانے کا خوف صرف اس وجہ سے کہ تمام سروے اور PTI کی جیت کی پیشں گوئی کررہے ہیں لہٰذا ملتوی کئے جائیں، ایک بار پھر غلط فیصلہ ثابت ہوگا۔ سیاست تو نام ہی مقابلے کا ہے۔ اب اگر مقابلے سے پہلے ہی شکست کے خوف میں آپ مبتلا ہوجائیں تو وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔ یہ پروجیکٹ عمران، کسی ایجنسی یا ایجنسیوں نے بنالیا ہوتو میں کہہ نہیں سکتا مگر یہ بڑی جماعتیں تھوڑا سا زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو انہیں پتا چلے گا کہ زمین خود ہی آہستہ آہستہ انکے پیروں کے نیچے سے نکلتی جارہی ہے۔ وہ نہ اچھی گورننس کی مثالیں قائم کرسکے نہ لوگوں کو کوئی ریلیف دے پائے بس ایک انسانی حقوق اور آزادی اظہار کی مثال قائم کرسکتے تھے اس میں بھی ان گنت سیاسی مخالفین کی گرفتاری ،میڈیا پر نئے قوانین کے ذریعہ پابندی، بغاوت کےمقدمات اور صحافی ارشد شریف کے قتل نے ان کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ اب اگر پی ڈی ایم یا مسلم لیگ(ن) اپنے ٹرمپ کارڈ، کو بھی واپس نہیں لاسکتی تو بہتر ہے ممکنہ نتائج کاسامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کرے اور سیاسی میدان میں بھرپور انداز میں اترے۔

ہمارا ماضی ہمیشہ ہمارا پیچھا کرتا ہے۔ جنرل ضیاالحق نے 90 روز بعد 25 اکتوبر، 1977 کو الیکشن اس لئے ملتوی کئے کیونکہ اسے اور ذوالفقار علی بھٹو کے مخالفین کو خوف تھا کہ وہ جیت جائے گا، اسی خوف نے بھٹو کی پھانسی کے بعد بھی اس کا پیچھا کیا اور17اکتوبر 1979کو ایک بار پھر الیکشن ملتوی کردئیے۔ اسی خوف نے اسے مجبور کیا کہ بلدیاتی اور پھر عام انتخابات بھی ’غیر جماعتی ‘بنیادوں پر کرائے جائیں مگر بھٹو کے حمایت یافتہ عوام دوست،بلدیاتی الیکشن جیت گئے۔

اسی خوف نے بے نظیر بھٹو کا راستہ روکا اور یہی خوف نواز شریف کی نااہلی کی وجہ بنا۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور میں میاں صاحب اور بی بی کا راستہ روکا اور ان کی جماعتوں کو توڑا تو کیا وہ توڑ سکا؟ اگر آج یہ دونوں جماعتیں وہی حربہ استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہیں کہ کسی بھی طرح، عمران کا راستہ روکا جائے تو انہیں اپنی ہی جماعتوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے سبق سیکھنا چاہئے۔

ذرا غور کریں کہ تحریک انصاف کا ’سپورٹ بیس‘ وہ ووٹر ہے جس کی طرف یہ 2008سے گئے ہی نہیں۔ کل تک ’برگر پارٹی، کو آج اگر آپ دہشت گرد، کالعدم قرار دے کر پابندی لگانے کی بات کررہے ہیں تو دراصل آپ آنے والوں کیلئے ایک جواز مہیا کر رہے ہیں۔ الیکشن کرانے سے خوف دور ہوسکتا ہے نہ کرانے سے وہ خوف برقرار رہے گا۔ سیاست میں مذاکرات کا دروازہ کھولیں، اپنے اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی بھی حسان نیازی کی ایک کے بعد ایک مقدمہ میں گرفتار ی نے مجھے مسرور احسن کے کیس کی یاد دلادی جب جج نے کہا’’ اب ایک سال تک اس پر کوئی کیس نہ بنانا‘‘۔بشکریہ جنگ نیوز

نوٹ:ابلاغ نیوز کا تجزیہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

یہ بھی دیکھیں

مریم نواز ہی وزیراعلیٰ پنجاب کیوں بنیں گی؟

(نسیم حیدر) مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا تاج …